شاہد حمید نامی مردِ ہُنرکار بھی رُخصت ہو گیا۔ رُخصت تو ایک نہ ایک دن ہم سب نے ہو جانا ہے لیکن تیزی سے بانجھ ہوتی اس دھرتی میں کتنے ہوں گے جو رُخصت ہو جائیں اور انھیں اس طرح یاد کیا جائے جیسے گھر کا کوئی فرد جُدا ہو گیا ہو، جیسے کوئی یارِ عزیز بچھڑ گیا ہو، جیسے کوئی ہمدمِ دیرینہ الوداع ہو گیا ہو۔
وہ کوئی نامور لکھاری نہ تھا۔ میڈیا کی چکا چوند سے بھی اس کا کچھ تعلق واسطہ نہ تھا۔ وہ کسی بڑے صحافتی ادارے کا مالک و منتظم بھی نہ تھا۔ وہ اہلِ سیاست میں سے بھی نہ تھا کہ لوگ اُس کی شعلہ فشاں تقریروں اور آئے دن کی سیاسی کروٹوں کے حوالے سے اُسے جانتے پہچانتے۔ وہ کراچی، لاہور، اسلام آباد جیسے کسی بڑے شہر کا باسی بھی نہ تھا کہ وہاں کی علمی، ادبی اور سماجی تقریبات اُس کی پہچان بنتیں۔ وہ تو ہنگامہ ہائے زیست سے بہت دُور جہلم نامی ایک چھوٹے سے شہر میں کسی درویشِ خُدا مست کی طرح بُکّل مارے بیٹھا تھا۔ اُس کی اپنی دُنیا تھی اور اپنا جہان۔ اپنی زمین اور اپنا آسمان۔ اقبالؒ نے خرقہ پوشوں کے بارے میں کہا ہے کہ وہ اپنی آستینوں میں یدِبیضا لیے بیٹھے ہوتے ہیں۔ جہلم کا یہ خرقہ پوش بھی یقیناً اپنی آستین میں یدِبیضا لیے بیٹھا تھا۔ اس یدِبیضا کی منوّر کرنیں علم و اَدب کے زرق برق مُرقعوں میں ڈھل کر کتاب خوانوں کے سامنے آئیں تو جستجو ہوئی کہ شاہد حمید کون ہے؟ اس کے دستِ معجز نُما میں کیا ہُنر ہے کہ دیکھتے دیکھتے اُس نے جہلم جیسے شہر بے رنگ و آب میں علم و اَدب کا ایک چمنستان کِھلا دیا ہے۔
شاہد حمید پھر بھی بُکّل مارے اپنے حجرۂ درویشی میں بیٹھا رہا جو اس کے لیے حجلۂ عُروسی سے کسی طور کم نہ تھا۔ اپنے کام سے عشق کرنے والوں کو ستائش کی تمنّا ہوتی ہے نہ صِلے کی پروا۔ وہ تشہیر اور تصویر کے آشوب سے بے نیاز اپنی راہ پر چلتے اور اس راہ میں اُگے تشنہ کام کانٹوں کو اپنے آبلوں سے سیراب کرتے رہتے ہیں۔ اُن کی پہچان، اُن کا کام ہوتا ہے۔ آج بھی جب شاہد حمید کا نام سُن کر کسی کے چہرے پر ناشناسائی کی لکیریں اُبھریں تو صرف اتنا کہنا کافی ہوتا ہے: ”وہی! جہلم کے بُک کارنر والے۔“
جن دنوں ”قومی تاریخ و اَدبی ورثہ ڈویژن“ کی باگ ڈور میرے ہاتھ تھی تو نیشنل بُک فاؤنڈیشن کے زیرِ اہتمام اسلام آباد میں ایک شاندار کتاب میلہ سجا کرتا تھا۔ ایسے ہی ایک میلے میں، پہلی بار میں نے بُک کارنر جہلم کا سٹال دیکھا۔ پہلی بار میری ملاقات شاہد حمید کے باکمال صاحبزادے، گگن شاہد سے ہوئی۔ معلوم ہوا کہ جہلم کا یہ ادارہ، کتابوں کی اشاعت میں بڑے بڑے مراکز کو پیچھے چھوڑ گیا ہے۔ اختتامی تقریب میں، صدرِ مملکت ممنون حُسین کی موجودگی میں، مَیں نے بُک کارنر کی ستائش کی تو وہ بھی نہال ہو گئے۔ اُنہی دنوں، میں نے وزارت کی آلائشیں دفتر کی ایک الماری میں بند کیں، ڈرائیور کو ساتھ لیا اور چپکے سے جہلم کا رُخ کر لیا۔ جی ٹی روڈ پر پڑتے ہی گگن کو بتایا کہ آ رہا ہوں۔ جہلم کی اُجاڑ پبلک لائبریری کے سامنے واقع گلی میں بُک کارنر کا بڑا شوروم واقع تھا۔ وہیں میری پہلی اور آخری مُلاقات شاہد حمید سے ہوئی۔ میری آمد کا سُن کر وہ بطورِ خاص تشریف لائے۔ چاروں جانب سجی کتابوں کے بیچوں بیچ کتاب سے عشق کرنے والے خرقہ پوش سے کتابوں کی باتیں چلیں تو دِل میں روشنی کی لہریں ہلکورے لینے لگیں۔ شاہد حمید کو حیرت تھی، کہنے لگے کہ ”پہلی بار اسلام آباد سے کوئی وزیر یہاں آیا ہے۔ آپ نے ہماری بہت حوصلہ افزائی کی ہے۔“ مَیں نے کہا، ”شاہد صاحب! میں وزیر نہیں ہوں، نہ ہی وزیر کی حیثیت سے آیا ہوں۔ مَیں تو آپ کے مُرید کے طور پر حاضر ہوا ہوں۔ اس دورِ فسوں کار میں، جب برقی ابلاغیات نے جانے کیا کیا کچھ ہڑپ کر لیا ہے، آپ نے کتاب کو نہ صرف زندہ رکھا، بلکہ اُسے نئی آب و تاب بخشی، اُسے قارئین تک پہنچانے کے نئے طریقے ایجاد کیے اور جہلم کو لاہور کے ہم پلّہ لاکھڑا کیا۔“
ہم نے بُک کارنر ہی میں دوپہر کا کھانا کھایا مجھے ہر گز یاد نہیں کہ کھانے میں کیا تھا لیکن شاہد حمید اور ان کے بیٹوں، اَمر شاہد اور گگن شاہد کے ساتھ گذرا ہوا وہ دِن، اکثر نگارخانہ سا بنا رہتا ہے۔
گگن نے اِصرار کیا کہ میں بھی کوئی کتاب اُنھیں دوں۔ میرے کچھ کالم اُن شخصیات پر تھے جو ان کی وفات پر لکھے گئے۔ ان کالموں کو یکجا کر کے میں نے ”جو بچھڑ گئے“ نام تجویز کیا اور مسودہ گگن کے حوالے کر دیا۔ گگن اور امر نے اُس پر بہت محنت کی۔ کتاب چَھپ کر آئی تو دِل خوش ہو گیا۔ بلاشبہ وہ مختلف پبلشرز کے ہاں طبع ہونے والی میری نصف درجن سے زائد کتب میں سے، سب سے خوبصورت کتاب تھی۔ میں نے سوچا کہ آئندہ اپنی کتابیں ”بُک کارنر“ ہی کو دیا کروں گا۔ ایک دن گگن نے دل شکستہ سے لہجے میں مجھے بتایا کہ میری کتاب چھاپنے پر اُنھیں ایک سیاسی جماعت کی طرف سے انتہائی غلیظ گالیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ آپ کے نام سے اُنھیں بے حد کد ہے۔ ان لوگوں نے ’آن لائن‘ تشہیر اور فروخت بھی مشکل بنا دی ہے۔ مجھے افسوس ہوا کہ سیاست کی غلاظت کہاں کہاں پہنچ گئی ہے۔ دِل ہی دِل میں فیصلہ کیا کہ آئندہ کسی کتاب کی اشاعت کا بوجھ ’بُک کارنر‘ پر نہیں ڈالوں گا۔ یقیناً یہ بُک کارنر کی نہیں، میری کم نصیبی ہے۔
میرے لیے یہ بات بے حد مسرّت و آسودگی کی ہے کہ جہلم کے خرقہ پوش نے اپنی خلافت جن دو بیٹوں کے سپرد کی ہے، اُن کے دِلوں میں بھی کتاب سے محبّت کے چراغ لو دے رہے ہیں۔ دونوں اپنے عظیم والد کی عظیم میراث کو، اُس کی تمام تر نزاکتوں اور تقاضوں کے ساتھ انتہائی احسن طریقے سے سنبھالے ہوئے ہیں۔ ان کے والد کو پیش کیا گیا خراجِ تحسین، ان کی ذمہ داریوں کو اور زیادہ بڑھا رہا ہے۔ مجھے کامل یقین ہے کہ اُن کے مضبوط کندھے اس بارِ گراں کو اُٹھانے کی پوری سکت رکھتے ہیں۔
جہلم کے خرقہ پوش نے دُنیا سے پردہ کرتے ہوئے لمحے بھر کو عمِر گریزاں کے بارے میں سوچا ہو گا اور دل ہی دل میں کہا ہو گا:
”شادم از زندگی خویش کہ کارے کردم“
(مَیں اپنی زندگی سے آسودہ و مطمئن ہوں کہ کوئی کام کر کے جا رہا ہوں)
اللہ تعالیٰ نے اُس کی پیٹھ پر لدے کتابوں کے پشتارے دیکھ کر مُسکراتے ہوئے فرشتوں سے کہا ہو گا ”اسے جنّت کے اُس منطقے میں لے جائو، جہاں کتاب سے محبت کرنے والوں کا بسیرا ہے۔“
اب امر شاہد اور گگن شاہد کا امتحان ہے۔ اللہ کرے وہ خرقہِ خلافت کا حق ادا کر سکیں۔