کسی بھی ملک میں کوئی غیر معمولی ہنگامہ پیش آئے تو اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی وجوہ ہوتے ہیں جن کی بدولت وہ سر انجام ہوا۔
پیرس کے ایک رسالہ نے چند اخلاق سوز گستاخانہ خاکے یا کارٹون بنا کر ان پر اسلام کے پیغمبر کا نام چست کر دیا اور تمسخر اڑایا۔بات جب میڈیا تک پہنچی تو فرانس اور دنیا کے تمام ممالک میں مسلمانوں میں غم اور غصے کی لہر اٹھ پڑی اور جب فرانسیسی احکام بشمول ان کے نامدار صدر صاحب بھی اس میں کھینچ لئے گئے تو انھوں نے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے والوں کا ساتھ دیتے ہوئے اپنے ملک کا “ آزادی اظہار رائے” کا حوالہ دیا۔
اس کے باوجود کے فرانس کے سیکولر قانون Lalacite، یو این کے OHCHR(محافظ حقوق انسانی کا چارٹر) اور یورپی منڈی کی کونسل برائے انسانی حقوق ECHRتمام میں کسی بھی اقلیتی جماعت کے عزت اور آبرو پر حملہ کرنا جرم قرار دیا گیا ہے۔
یہ واقعہ ہمیں سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ جب ایک ملک کا صدر خود اپنے ملک کے قانوں اور بین الاقوامی چارٹر وں کا جس پر اس کے ملک نے دستخط کر رکھے ہیں، پاس نہ کرے اور نہ اس کے ملک کا قانون اور نہ بین الاقوامی حقوق انسانیت کے سربراہ اس کی باز پرس کریں تو کیا یہ کسی تعصب اور امتیاز کی نشانی نہیں ہے؟ دوسری بات سوچنے کی یہ ہے کہ جن لوگوں کے جذبات کو پیروں کے بیچے کچل دیا گیا ہے ، عالم اسلام، ان کے لیڈر یک زبان ہوکر احتجاج کیوں نہیں کر رہے کیونکہ وہ مجھ جیسے ایک عام شخص سے بہتر فرانس، یو این اور یورپی منڈی کے قوانین جانتے ہیں!
لیکن اس سے پہلے فرانس کے بارے میں کچھ جاننے کی ضرورت ہے جہاں یہ بدنام زمانہ ہنگامہ بپا ہوا اور اس ذھنیت کے پیچھے کیا سوچ کار فرما کو بھی لیکن یہ ذرا طویل موضوع ہے، اس پر اگلی قسط میں بات ہوگی۔