میری ادنی سی رائے میں رائے ونڈ اور طارق جمیل والے معاملہ میں نہ ہی ہمارا ردعمل درست تھا اور نہ ہی ان کا جنھیں معاملہ کا علم تھا۔۔۔
سب سے پہلے “ہم” اپنی غلطی پر نظر دوڑاتے ہیں۔۔ہمیں اس معاملہ کا علم ہوا تو ہم نے کیا کیا؟
ہم دو گروہوں میں بٹ گئے ، ایک گروہ کی ہمدردی پہلے فریق کے ساتھ تھی تو وہیں دوسرے گروہ کی ہمدردی دوسرے فریق کے ساتھ تھی حالانکہ ہمیں کسی ایک فریق کا حصہ بننے سے پرہیز کرنا چاہیے تھا کہ دونوں طرف ہی دین سے خیر خواہی رکھنے والے تھے ، دونوں طرف ہی ایسے فریقین تھے جنھوں نے اپنی زندگیاں اسلام کے لیے وابستہ کر رکھی ہیں۔۔۔ایسے میں کسی ایک فریق کی مکمل حمایت اور دوسرے کی مکمل مخالفت درست کیسے قرار پا سکتی تھی؟؟بہتر ہوتا ہم گروہوں میں بٹنے کی بجائے دونوں فریقوں کی دینی خدمات کے احترام میں اس معاملہ سے خو کو دور رکھتے کہ کچھ عرصہ بعد معاملہ خود ہی سلجھا جائے گا۔۔لیکن ہم نے دوسرا طرز عمل اختیار کیا نتیجا ایک مخصوص طبقہ کو پھر دین دار طبقہ پر انگلی اٹھانے کر ہمیں ان سے بدگمان کرنے کا موقع مل گیا۔۔
ایک مخصوص طبقہ چونکہ ہمارے دلوں سے علمائے کرام کی محبت کو نکال دینا چاہتا ہے لہذا ان کی جانب سے ہر وقت علمائے کرام سے نہ صرف بیزاریت کا اظہار کیا جاتا ہے بلکہ ایک مخصوص ملامتی انداز بھی اختیار کیا جاتا ہے کہ ہر وقت ان کی کوتاہیوں کا ذکر کرتے رہا ،انھیں مسلمانوں کے زوال کا سبب ٹہراتے رہنا ان کی بشری غلطیوں کو رائی کا پہاڑ بنا دینا وغیرہ۔۔۔
نتیجا ہم آہستہ آہستہ علمائے کرام سے بے زار ہوتے جارہے ہیں۔۔۔حالیہ واقعہ کے بعد بھی اسی طبقہ کی جانب سے بھر پور پروپیگنڈا کر کے ہمیں بدگمان کرنے کی بھر پور کوشش کی گئی کہ جب امر بالمعروف اور نہی عنہ المنکر کا فریضہ سر انجام دینے والے بھی اخلاق کے تقاضوں کو نہیں نبھا پا رہے تو ایسے میں یہ ہماری تربیت کیسے کریں گے؟ جب خود ان کے مابین اختلافات موجود ہیں تو یہ ہماری مثبت رہنمائی کیسے کریں گے؟
یہ بھی پڑھئے:
کراچی کی تاریخی عمارات،شہرکی قدیم عمارتوں کا شاندار احوال
مُودی کا ”نیو نارمل“ اور راکھ ہوتا سیندور
پاکستان بیس بال فیڈریشن کی التجا کیا ہے؟
ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ مولانا طارق جمیل نے سخت رد عمل دیا لیکن ہم اس رخ پر سوچنے کی زحمت نہیں کر پارہے کہ بلاشبہ مولانا طارق جمیل ایک بڑی علمی و عالمی شخصیت ہیں لیکن کچھ عرصہ میں ان کے ساتھ مختلف قسم کے معاملات پیش آئے ہیں جوان بیٹے کی موت ، ان کے کئی بیانات پر تنقید وغیرہ۔۔۔شاید اس وجہ سے وہ اپنا ضبط ہار گئے اور انھوں نے رائے ونڈ سے نکالے جانے پر تھوڑا کڑا بیان دے دیا۔۔۔ان کے بیان کو جسٹیفائی نہیں کیا جاسکتا لیکن کیا انھیں مارجن نہیں دیا جا سکتا؟کیا پتہ انھوں نے کس ذہنی کیفیت کے اثر میں ایسے الفاظ کا استعمال کیا ہو؟؟پے درپے تنقید مضبوط سے مضبوط بندے کے اعصاب بھی چٹخ دیتی ہے بہر حال وہ پھٹ پڑتا ہے۔۔۔آج تک مولانا طارق جمیل نے اپنے اوپر ہوئی تنقید کو حوصلہ سے درگزر کیا ہے ، تنقید کرنے والوں پر اپنے بیانات میں طنز و نفرت کے تیر نہیں چلائے لیکن اس دفعہ بلاشبہ انھوں نے درست طرز عمل اختیار نہیں کیا لیکن کیا یہ بہتر نہیں تھا کہ ہم انھیں مارجن دے دیتے کہ کیا پتہ وہ بھی تنقید سہتے سہتے تھک چکے ہونگے لہذا ان کی جانب سے رد عمل شدید ہوگیا؟؟
ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ رائے ونڈ والوں نے مولانا صاحب کو نکال دیا لیکن ہم جانچ پڑتال نہیں کررہے کی آیا کیا واقعی ان کی نیت و مقصد مولانا صاحب کو نکال دینے کی تھی؟یہ عین ممکن ہے کہ رائے ونڈ والے مولانا صاحب کو نکالنا نہ چاہتے ہوں وہ تو بس نہایت ہی عزت واحترام سے اختلافات کے پیش نظر مولانا صاحب سے چلے جانے کی گزارش کرنا چاہتے ہوں لیکن ان سے یہ مینج نہ ہوا اور مس مینجمنٹ کی وجہ سے معاملہ اس حد تک سنگین ہوگیا ہو ، اور چلے جانے کی گزارش بھی اس لیے ہو کہ ہر جماعت کے کچھ اصول ہوتے ہیں کسی ایک شخصیت کی بنیاد پر ان اصولوں میں تبدیلی نہیں لائی جا سکتی کہ شخصیت پرستی کسی بھی جماعت کی بنیادوں کو ہلا سکتی ہے۔۔۔
ہم سے غلطی یہ ہوئی کہ ایک مخصوص طبقہ نے ہمیں بدگمان کرنا چاہا تو ہم میں سے اکثر اس کا شکار ہوگئے ، ہم نے تو تحقیق بھی نہ کی جو پہلو دکھایا جارہا ہے وہ درست بھی ہے یا نہیں؟؟کیا آیا دونوں جانب سے نیت بھی وہی تھی جو محسوس کی گئی یا بس غلط فہمی اور چیزیں مینج نہ ہونے کی وجہ سے افراتفری مچ گئی؟؟
چند پل کے لیے دوسری طرف آیے ، وہ افراد جو ان کے مابین اختلافات کے چشم دید گواہ تھے۔ردعمل ان کا بھی درست نہیں تھا۔۔۔
انھوں نے دھڑا دھڑ سوشل میڈیا پر اس کے متعلق پوسٹیں شروع کردیں کہ خدانخواستہ اگر “ہمیں” اس واقعہ کا علم نہ ہوا تو ہم پتہ نہیں کس “مفید علم” سے محروم ہو جائیں گے ، یہاں بھی دو گروہ بن گئے ، پہلے گروہ کی ہمدردی پہلے فریق کے ساتھ تو دوسرے گروہ کی ہمدردی دوسرے فریق کے ساتھ۔۔۔ایک دوسرے پر طنز کے نشتر یہاں بھی چلائے گئے۔۔۔
حالانکہ زرا سی حکمت سے کام لیا گیا ہوتا یا دوراندیشی کے تقاضوں کو مدنظر رکھا گیا ہوتا تو شاید آج ہم میں سے اکثر بدگمان نہ ہورہے ہوتے۔۔
دو بھائیوں کے مابین لڑائی ہو جائے تو اسے پاک بھارت میچ میں کنورٹ نہیں کیا جاتا کہ دو گروہوں میں بٹ کر معاملہ کو مزید خراب کیا جائے ، ایسے معاملات میں تو غلط فہمیاں دور کر کے پھر سے دو بھائیوں کے مابین صلح کروادی جاتی ہے…ہم مسلمان ہیں ، آپس میں فقہی اختلافات کے باوجود ایک دوسرے سے محبت لازم ہے ، ایک دوسرے کا درد محسوس کرنا ضروری ہے۔۔۔لیکن معاملہ کا علم رکھنے والوں نے صلح و صفائی کروانے کی بجائے ان کے اختلافات کو بھرپور پھیلایا ، (گوکہ نیت غلط نہیں تھی بس اپنی اپنی وابستگی کو درست ثابت کرنا تھا) دو گروہوں میں بٹ کر ایک دوسرے کی غلطیوں کو چرچا کرنے لگے ، نتیجا عوام دونوں فریقوں سے متعلق اعتماد کی کمی کا شکار ہونے لگی
۔۔۔ہمارے معاشرے کا یہ المیہ بن چکا ہے کہ کچھ مخصوص واقعات کی وجہ سے عام عوام آہستہ آہستہ دین دار طبقہ سے بیزار ہوتی جارہی ہے ، ایسے میں مولانا طارق جمیل وہ شخصیت تھے کہ دین سے بیزار افراد بھی ان کو سراہا کرتے تھے اور رائے ونڈ کا اجتماع وہ جگہ تھی کہ ان پر اعتماد کیا جاتا تھا۔۔
لیکن اب نا جانے کتنے ہی لوگ ہونگے جو سوشل میڈیا پر پھیلے بیانیے کی وجہ سے رائے ونڈ نہ جانے کا عہد کر چکے ہونگے اور نہ جانے کتنے ہی مولانا طارق جمیل کے بیان سے مستفید نہ ہونے کا عہد کرچکے ہونگے!!
جن کو اس معاملہ کا علم تھا اگر وہ خاموش رہتے
اور ان کے اختلافات کا بھرپور چرچا نہ کرتے بلکہ صلح و صفائی کروا دیتے تو نہ ہی مولانا طارق جمیل کی طرف سے بیان جاری ہوتا ، نہ ہی بات عوام الناس تک پہنچتی ، نہ ہی ایک مخصوص طبقہ کو دین دار طبقہ پر طنز کے نشتر چلانے کا موقع ملتا اور نہ ہی انہیں معصوم عوام کے دلوں میں شک و شبہات پیدا کرنے کا موقع ملتا۔۔۔
کچھ معاملات نہایت ہی سنگین ہوتے ہیں ، ان میں ٹانگ اڑانے سے یا حکمت سے کام نہ لینے کی وجہ سے معاشرہ انتشار ، بدامنی کا شکار ہوجاتا ہے اور یہ معاملہ بھی اس کٹیگری کا تھا۔۔۔یہاں معاملہ کا علم رکھنے والے خاموش ہوجاتے اور صلح کروانے کی کوششوں میں مصروف ہوجاتے تو بہتر تھا۔۔۔
یاد رکھیں اگر معاملہ دو ایسے فریقوں کا ہو کہ دونوں ہی اپنی اپنی جانب سے دین کی خدمت میں مصروف ہوں اور معاشرہ ان سے فیض یاب ہورہا ہو تو ان کے مابین اختلافات کا چرچا کرنے کی بجائے خاموشی کی راہ کو چننے کے ساتھ ساتھ ان کے مابین ثالث کا کردار ادا کرنا چاہیے کہ اگر معاشرے کا اعتبار امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سر انجام دینے والوں پر سے اٹھ جائے تو خیر کی امید کم ہوجاتی ہے۔۔
دونوں گروہوں کا رد عمل درست نہیں تھا ، نہ ہمارا ، نہ ان کا جو اس معاملہ کا علم رکھتے تھے۔۔۔لیکن ہوچکے کو بدلا
نہیں جا سکتا لیکن عہد کیا جاسکتا ہے کہ اگلی دفعہ ایسے کسی معاملہ پر احتیاط کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر ہی ردعمل ظاہر کیا جائے گا کہ معاشرہ کو اگر نفع پہنچ رہا ہے تو پہنچتا ہی رہے۔۔