پاکستانی دفتر خارجہ نے اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے ردعمل میں محض “مذمت” پر اکتفا کرتے ہوئے آپ کے اہلخانہ سے تعزیت کے بعد ایک مسکینی سی خاموشی کا لبادہ اوڑھ کر کسی کونے کھدرے میں جا بسی ہے جس پر سوشل میڈیا کے صارفین کی جانب سے تنقید کا ایک سلسلہ چل نکل پڑا ہے۔ یاد رہے کہ اسماعیل ہنیہ تہران میں نو منتخب ایرانی صدر کی حلف برداری تقریب میں شرکت کرنے کی غرض سے تہران میں مقیم تھے جہاں پر اسرائیل کی جانب سے ان پر بزدلانہ قاتلانہ حملہ کر کے انھیں شہید کردیا گیا۔
اسمعیل ہنیہ 1962 میں غزہ کے شاطی کیمپ میں پیدا ہوئے۔ 1987 میں غزہ یونیورسٹی سے عربی زبان میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی بعد ازاں 2009 میں آپ کو اسلامی یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازا گیا۔ 1987 میں اسرائیل نے آپ کو غزہ میں جاری اسرائیل مخالف مظاہروں میں شرکت کرنے کی وجہ سے گرفتار کرلیا تھا لیکن اس وقت آپ کی قید کی مدت مختصر ثابت ہوئی تھی۔1988 میں آپ کو دوبارہ چھ ماہ کے لیے قید کرلیا گیا تھا۔ پھر اگلے سال سنہ 1989 میں اسرائیل نے تین سال کے لیے آپ کو قید کرلیا تھا پھر 1992 میں حماس کے متعدد رہنماؤں کے ساتھ آپ کو لبنان اسرائیلی سرحد پر مرج الظہور میں جلاوطن کردیا گیا تھا لہٰذا اسماعیل ہنیہ کا 1992 کا پورا سال جلاوطنی کی نذر ہوگیا تھا۔دسمبر 1993 میں آپ غزہ واپس آکر اسلامی یونیورسٹی کے ڈین مقرر ہوئے۔ 1997 میں احمد یاسین کی اسرائیلی قید سے رہائی کے بعد آپ کو ان کا معاون مقرر کیا گیا۔اسی سال آپ حماس کے پولیٹیکل آفس کے سربراہ بھی مقرر ہوئے ۔ 2006 میں آپ فلسطین کے وزیر اعظم بھی منتخب ہوئے اور 2017 میں آپ کو حماس کا سیاسی ترجمان مقرر کیا گیا۔
(بی بی سی ، جی ٹی وی نیوز)
اسماعیل ہنیہ کی شہادت ایک ناقابل تلافی نقصان کی مانند ہے۔حق کے لیے آپ کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔فلسطینیوں کے دل چھلنی ہورہے ہیں کہ ایک توانا آواز اب کبھی نہ سنائی دے گی ، اندھیری نگر کا ایک ستارہ ٹوٹ گیا ہے ، ظلم کی دنیا میں حق کا استعارہ خاموش ہوگیا ہے۔یہ نقصان چھوٹا نہیں۔آپ جیسوں کے لیے ہی شاعر نے عرض کیا تھا:
وہ بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کرگیا۔
آصفہ عنبرین قاضی کے مطابق مسلم امہ کا رونا بنتا ہے ، واقعی رونا بنتا ہے کہ آنکھیں اب بھی نہ چھلکیں تو پھر کب چھلکیں گی؟
یہ بھی پڑھئے:
اسمٰعیل ہنیہ کی قربانی اور راستہ
کیسا ہو گا بنگلہ دیش حسینہ واجد کے بعد؟
بارہ جولائی کا فیصلہ _ حقیقی نظرثانی لازم ہے
ایم کیو ایم کے اشتیاق اظہر سے پی ٹی آئی کے شیر افضل مروت تک
آپ ایک ایسی شمع کی مانند تھے جو بجھی ہے تو اندھیرا چھا گیا ہے ، اک خلا سا جنم لے چکا ہے جسے شاید ہی کوئی پر کر سکے۔آپ جیسے افراد صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں کہ عید کے دن اپنے تینوں بیٹوں کی شہادت کا خبر سن کر آپ کے ضبط کا پیمانہ لبریز نہ ہوا ، مسکراتے ہوئے انگلیوں سے وکٹری کا نشان بنایا ، اپنے خاندان کے 60 سے زائد افراد کی شہادت دیکھ کر آپ اسرائیل کے آگے نہ جھکے۔۔یہ اسماعیل ہنیہ جیسے لوگ ہی ہوتے ہیں جن کے نقش قدم پر چل کر مٹھی بھر افراد سیکڑوں کے لشکروں پر غالب آجاتے ہیں۔یہ اسماعیل ہنیہ جیسے ہی لیڈرز ہوتے ہیں جن کی سربراہی میں ایک ایسا غزہ تشکیل پاتا ہے کہ دس مہینوں کی جنگ ، خون کے دریا ، لاشوں کے ڈھیر ، ایسی تباہ حال عمارتیں کہ ملبہ سمیٹنے میں ہی بیس برس لگیں لیکن غزہ کے باسیوں کے حوصلوں کی پستگی دیکھنے کو نہ ملی ، گرد آلود چہروں پر شکست کے آثار نہ ملے ، بھوک سے نڈھال بچوں کی آنکھوں خوف نہ ملا۔۔
یہ اسماعیل ہنیہ جیسے افراد ہی ہوتے ہیں جو تاریخ کا دھارا بدلتے ہیں ، نوجوانوں کے اندر حق کے لیے آزادی کے لیے مرمٹنے کا جذبہ پیدا کرتے ہیں۔وھن نامی بت کے لیے بت شکن ثابت ہوتے ہیں۔۔
ایک موقعہ پر آپ نے کہا تھا کہ
“ہم وہ لوگ ہیں جو موت کو اسی طرح پسند کرتے ہیں جیسے ہمارے دشمن زندگی سے پیار کرتے ہیں”
ایک اور موقعہ پر آپ نے کہا کہ:
“ہم کمزور نہیں بہادر ہیں۔ ہم شہیدوں کے لہو اور زخمیوں کی تکلیف سے آزادی کا چہرہ تراشتے ہیں”۔
رعایت اللہ فاروقی نے کیا خوب کہا کہ “حق کا سورج ڈوب گیا۔ آپ استقامت ، حوصلہ کی ایک ایسی مثال تھے جو آنے والی صدیوں میں بھی حق کی شمع جلانے والوں کے لیے امید کا باعث بنیں گے۔آپ کی شہادت نے یقینا فلسطینیوں کو یتیم کردیا ہے۔کیسے ان کے کلیجے چھلنی نہ ہوں کہ ایک نہایت دست شفقت ان کے سروں سے اٹھ گیا ہے؟ ان کا غمسار ان سے بچھڑ چکا ہے ، ان کا رفیق ان سے جدا ہوچکا ہے ، ان کا لیڈر اب اس دنیا میں نہیں رہا ان کے نقصان کا یقینا ازالہ ممکن نہیں ہے۔
یہ کون اٹھ کے گیا ہے؟
کہ جس کے نقش قدم سے
زمین و آسمان صوفشاں ہیں
ملت ابراہیم سے
پھر اک اسماعیل نے
خود کو پیش کیا ہے!(عصمت اسامہ)
بلاشبہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت امت مسلمہ خاص کر فلسطین کے لیے ایک دھچکا ہے۔اصولا اسلامی ممالک کو اس موقعہ پر دو ٹوک موقف اپنانا چاہیے تھا لیکن ماہرین کے مطابق انتہائی محتاط ردعمل اپنایا گیا وجہ اسرائیل کی پشت پناہی کرنے والی طاقتوں کا خوف ہے ۔۔اگر اس جواز کو تسلیم کر بھی لیا جائے تو بھی ایک ایٹمی طاقت کے حامل ملک کو اس کٹیگری میں کس بنیاد پر شامل کیا جا سکتا ہے؟ایٹمی طاقت کے حامل ملک کے سربراہوں کے ایسے بزدلانہ رویوں نے ہمارے جھکے سروں کو مزید بھلا دیا ہے۔
یاد رہے اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کچھ ہی گھنٹوں میں تبدیلی کردی گئی لفظ اسرائیل کی جگہ لفظ جارحیت شامل کردیا گیا جسے کسی بھی زبان میں مناسب قرار نہیں دیا جا سکتا لیکن پاکستانی عوام کی طرف سے حکومت کے اس رویے کی بھرپور مذمت کے ساتھ دوٹوک موقف اپنانے کا سو فیصد جائز مطالبہ بھی کیا گیا۔
ضروری ہے کہ پاکستانی حکومت (جس نے اسماعیل ہنیہ کے خطوط کا جواب تک دینا ضروری نہیں سمجھا تھا) اپنے رویہ میں بدلاؤ لائے ، دو ٹوک موقف اپنائے ، اسرائیل کے خلاف سخت سفارتی زبان استعمال کرے ، او آئی سی کا اجلاس طلب کر کے اپنا احتجاج شدت سے ریکارڈ کروانے کے ساتھ اسماعیل ہنیہ کے قاتلوں کو انجام تک پہنچانے کے لیے ایران کے ساتھ مکمل تعاون کرے۔
حفصہ جنید!!