یہ ہم پاکستانیوں کا عمومی رویہ ہے کہ اپنی ناکامیوں کا ملبہ ہم امریکہ اور بھارت کے سر ڈال کر بیٹھ جاتے ہیں لیکن ایک دفعہ ہمیں غیر جانبدار ہو کر یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا صرف انڈیا پاکستان کی بربادی کا زمہ دار ہے؟ ہم نہیں ہیں؟یقینا ہم ہیں؟اور اگر آج ہم نے اس کا ادراک نہیں کیا تو ہماری آنے والی نسلوں نے ہمیں بخشنا نہیں ہے۔
ہم نے بھی کبھی پاکستان کے مسائل کو حل کرنے کوشش نہیں کی ہم نے بھی تو ہمیشہ پاکستان کے مسائل میں اضافہ کیا ہے۔
ہمارے ججز نے نظام عدلیہ کی بہتری کے لیے کیا کیا؟انصاف رل جاتا ہے ہمارے عدالتی نظام میں۔
ہمارے عدالتی نظام سے طاقتور مجرم دو دن کے اندر رہا ہو جاتا ہے۔وجہ بتائی جاتی ہے کہ گواہان کے بیان نہیں مل رہے تھے،ثبوتوں کی کمی تھی وغیرہ اور بے گناہ اپنی ساری زندگی جیل کی کال کوٹری میں گزار کر ڈپریشن کا مریض بن کر اس دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے۔کتنے ہی بے گناہ قیدیوں کی آنکھیں انصاف کی راہ تکتے تکتے ہی ہمیشہ کے لیے بند ہوجاتی ہیں۔
ہمارے ٹیچرز نے نظام تعلیم کی بہتری کے لیے کیا کیا؟بعض اوقات ٹیچرز اپنے اسٹوڈنٹس کو وہ پڑھا رہی ہوتی ہیں جو انہیں خود بھی نہیں آتا۔
ہمارے ڈاکٹرز نے نظام صحت کی بہتری کے لیے کیا کیا؟ہماری حالت یہ ہے کہ ملک میں 1200 کے قریب سرکاری ہسپتال ہونے کے باجود ہماری غریب عوام سڑکوں پر سسک کر اپنی زندگیوں کی بازی ہار دیتی ہے، ڈاکٹرز پوری تنخواہ لینے کے باوجود دیر سے ہسپتال آتے ہیں اور مریضوں کے علاج میں انتہائی سستی برتتے ہیں۔سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹرز کا رویہ مریضوں سے اتنا عجیب ہوتا ہے کہ مریض صحتیاب ہونے کی بجاے مزید بیمار ہوجاتا ہے۔
ہمارے ماہر معیشت دانوں نے معیشت کی بہتری کے لیے کیا کیا؟
ہمارے سیاستدانوں نے ملکی بہتری کے لیے کیا کیا ماسوائے تقاریر اور بلند و بانگ دعوے کرنے؟
یہ بھی پڑھیے
جنوبی پنجاب کے فاضل پور کی تباہی کا ذمے دار ہاتھ
بلوچستان سیلاب: متاثرین کی فوری مدد، پہلی ذمہ داری
لاڑکانہ میں سیلاب: باران رحمت کو تباہی بدلنے والا اصل ہاتھ
ملک صرف تقاریر کرنے سے نہیں چلتے۔ صرف اپوزیشن کی کرپشن کو ہر جگہ بے نقاب کرنے سے نہیں چلتے۔ ہمارے اس پیارے دیس کی جمہوریت اس وقت گندگی سے بھر چکی ہے ہر وقت حکمران جماعت کے وزرا اور اپوزیشن ٹاک شوز پر ایک دوسرے پر الزامات کی بھر مار کرہے ہوتے ہیں کبھی کوئی کسی کو غدار کہہ دیتا ہے تو کبھی کوئی کسی کو تھپڑ جڑ دیتا ہے عوام کے مسائل سے کسی کو سروکار نہیں۔گزشتہ سال آزاد کشمیر کے الیکشن پر جس طرح کی صورتحال دیکھنے میں آئی اس نے پاکستانیوں کے سر شرم سے جھکا دیے۔بجائے اس کے کہ آزاد کشمیر کے انتخابات کے موقعہ پر حکمران جماعت اور اپوزیشن آزاد کشمیر میں ایک پیج پر کھڑے ہو کے کھلم کھلا مقبوضہ کشمیر کا ساتھ کھڑے رہنے کا عہد کرتے،پروگرامز منعقد کرواتے غیر ملکی صحافیوں اور میڈیا کو آنے کی دعوت دیتے،سفارت کاروں کو اکھٹا کرتے ان کے سامنے انڈیا کے مقبوضہ کشمیر میں جاری مظالم سے آگاہ کرتے۔اس حوالے سے مختلف کلپس چلواتے لیکن جو ہوا وہ سب اس سے بالکل الٹ تھا۔
بحیثت قوم ہم نے کیا کیا؟قانون کی دھجیاں اڑائیں اگر پولیس نے چالان کیا تو رشوت دے کر جان چھڑائی،جگہ جگہ کچرا پھینکا،ملاوٹ کی،زخیرہ اندوزی کر کے پیسے بٹورے،ہر جگہ جذباتیت کا مظاہرہ کیا ایسے ایسے کیسز بھی سامنے آئے جس میں دس روپے کے پیچھے ایک نے دوسرے کی جان لے لی.
اپنے سے کم حیثیت پر کام کرنے والے انسان کو انسان نہ جانا چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے کی عزت کی دھجیاں اڑا دیں۔تعلیم کے نام پر سڑکوں پر آوارہ گردی کرنا،نشہ کرنا ہمارے نوجوانوں نے اپنا وطیرہ بنا لیا ہے۔ہم تو شاید اس حد تک گرے کہ ہم نے پاکستانیت پر فخر کرنا چھوڑ دیا،پاکستان کی قومی زبان اردو ہے لیکن ہم اردو بولنے میں ہتک محسوس کرتے ہیں،پاکستان کا قومی مشروب گنے کا رس ہے لیکن ہم میں سے کتنے گنے کا رس پینے کو ترجیح دیتے ہیں؟ہم میں سے کتنے پاکستانی برانڈز کو ترجیح دیتے ہیں؟
اوپر سے پورے سال پاکستان کو کوسنا کہ پاکستان نے ہمیں کیا دیا ہے؟شاید یہ جملہ کہتے ہوئے ہم بھول جاتے ہیں کہ پاکستان محض ایک نام ہے ایک مخصوص رقبے پر قائم ایک آزاد مملکت کا نام،ایک ملک کا کام اپنے ملک میں رہنے والے شہریوں کو زمین فراہم کرنا ہوتی ہے اور پاکستان یہ فریضہ بخوبی سرانجام دے رہا ہے۔ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ایک ملک میں رہنے والے باشندوں کا کام ہوتا ہے ملک کا نہیں،ملک محض ایک بے جان وجود ہوتا ہے جو آپ کو پہچان دیتا ہے نام دیتا ہے،لیکن اس پہچان کو برقرار رکھنا اس ملک میں رہنے والے شہریوں کا کام ہوتا ہے۔پاکستان نے تو اپنا فرض بخوبی نبھایا لیکن کیا ہم پاکستانیوں نے اپنا فرض نبھایا؟
ہمیں شکوہ پاکستان سے نہیں پاکستانیوں سے کرنا چاہیے۔وطن پاکستان سے سوال پوچھنے کے بجائے اس ملک کے حکمرانوں سے یہ سوال پوچھنا چاہیے کہ انھون نے اس ملک کو کیا دیا جس ملک کی زمہ داری انھوں نے اس دعوے کے ساتھ اٹھائی تھی کہ وہ اس ملک کے مسائل کو حل کریں گے۔
ایک ٹیچر کو اپنے آپ سے، ایک جج کو اپنے آپ سے، ایک ڈاکٹر کو اپنے آپ سے،
ایک انجینییر کو اپنے آپ سے،ایک نوجوان کو اپنے آپ سے یہ سوال پوچھنا کہ بطور پاکستان ہم نے اس ملک کو کیا دیا؟اپنی زمہ داری کو کس حد تک ہورا کیا؟
14 اگست کا دن تو ہمیں ہماری غفلت سے جگانے کے لیے ہوتا ہے،زمہ داریاں یاد دلانے کے لیے ہوتا ہے،یہ دن تو خود سے سوال کرنے کے لیے ہوتا ہے کہ ہم نے اس ملک کو کیا دیا؟اورمزید کیا دے سکتے ہیں۔۔
لیکن ہمارا ردعمل بالکل الٹ ہوتا ہے
14 اگست کو عوام الناس کا ایک جھنڈ اپنے گھروں سے نکل کر مخصوص کی ہوئی جگہوں پر پہنچ کر کیک کاٹتا ہے،چیخیں مارتا ہے،پٹاخے پھوڑتا ہے،آتش بازی کرتا ہے،ریڈیو پر اونچے اونچے اس دن کی مناسبت سے گانے لگاتا ہے،جھنڈے لہراتا ہے اور رات کو واپس اپنے اپنے گھروں میں پہنچ کر گدھے گوڑھے بیچ کر سوجاتا ہے۔ اور یوں 14 اگست رخصت ہوجاتا ہے اگلے دن سڑک پر جگہ جگہ جھنڈیاں گری ہوئی ہوتی ہیں اور ہم ان جھنڈیوں پر اپنے مبارک قدم رکھ کر ہم اپنی منزلوں پر پہنچنے کی کوشش کررہے ہوتے ہیں جگہ جگہ پھٹے ہوئے غبارے گرے ہوتے ہیں جگہ جگہ کریم گری ہوئی ہوتی ہے۔
یاد رکھیے پاکستان کی تاریخ میں 14 اگست کا دن اتنا غیر معمولی نہیں ہے کہ صرف ہلا گلا کیا جائے۔یہ دن اس لیے ہوتا ہے کہ آزادی کی نعمت کو محسوس کیا جائے،اپنے آبا و اجداد کی اس وطن کے لیے دی گئی قربانیوں کو یاد کیا جائے۔غور و فکر کیا جائے کہ آیا ہم نے جن مقاصد کے حصول کے لیے یہ وطن حاصل کیا،کیا وہ مقاصد حاصل ہوگئے ہیں؟
سارا سال پاکستان کو کوسنے کے بعد صرف ایک دن اپنے اندر کی حب الوطنی کو زندہ کر کے ہلا گلا کرنے سے اس وطن کا حق ادا نہیں ہوگا۔اس وطن کا حق تب ادا ہوگا جب ہم سب اپنے ذاتی اختلافات کو بھلا کر اس وطن کی ترقی کے لیے ایک پیج کر ہونگے۔لسانی،گروہی اختلافات بھلا کر اس وطن کی تعمیر میں اپنا حصہ ڈالیں گے۔پاکستانیت پر فخر کریں گے۔۔ 14 اگست کا دن تو یاددہانی کا دن ہے کہ جس سرزمین کو ہمارے آبا و اجداد نے اپنی جانوں کو قربان کر کے غلامی سے نجات دلوائی اس سرزمین کو ہمیں آزاد ہی رکھنا ہے کسی کو اتنی جرات نہیں ہونی چاہیے کہ وہ اس سرزمین کی جانب میلی آنکھ سے دیکھے۔
میرے وطن کے اداس لوگو!
خود کو اتنا حقیر سمجھو کہ کوئی تم سے حساب مانگے
نہ خود کو اتنا قلیل سمجھو، کہ کوئی اٹھ کر کہے یہ تم سے
وفائیں اپنی ہمیں لٹا دو، وطن یہ اپنا ہمیں تھما دو
اٹھو اور اٹھ کر بتادو ان کو، کہ ہم ہیں اہل ایماں سارے
نہ ہم میں کوئی صنم کدہ ہے، ہمارے دل میں بس اک خدا ہے
جھکے سروں کو اٹھا کر دیکھو، قدم کو آگے بڑھا کر دیکھو
ہے اک طاقت تمھارے سر پر
قدم قدم پر جوساتھ دے گی، اگر گرے تو سنبھال لے گی
میرے وطن کے اداس لوگو
اٹھو چلو اور وطن سنبھالو . . .!!!
(خالد حمید)