Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
روس اور یوکرین کےمابین جاری جنگ کو ایک ہفتے سے زاید ہوچکا ہے۔کشیدگی میں کمی آنے کی بجائے اضافہ ہورہا ہے۔روسی حملے تیز ہورہے ہیں۔یوکرینی عوام میں خوف و ہراس شدت سے پھیل رہا ہے۔لاکھوں بے گھر ہوچکے،ہزاروں یورپ کی جانب نقل مکانی کرچکے ہیں۔
یوکرین مشرقی یورپ میں واقع ہے۔ رقبے کے لحاظ سے یورپ کا دوسرا بڑا ملک ہے۔اس کی سرحدیں شمال میں بیلا روس کے ساتھ ملتی ہیں۔ مغرب میں پولینڈ،سلوواکیہ اور ہنگری کے ساتھ،جنوب میں رومانیہ اور مالدووا کے ساتھ ملتی ہیں۔ اس کی آبادی 41.2 ملین ہے۔ اس لحاظ سے یہ آبادی کےلحاظ سے یورپ کا آٹھواں بڑا ملک ہے۔ دارالحکومت کا نام کیف ہے جسے یوکرین کا سب سے بڑا شہر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔۔
یہ بھی دیکھئے:
یوکرین سابق سوویت یونین کا حصہ تھا لیکن 1991 میں جب سوویت یونین کا خاتمہ ہوگیا تو 14 آزاد ریاستیں قائم ہوئیں جن میں یوکرین بھی شامل تھا۔ آزاد ریاست بننے کے بعد روس اور یوکرین کے درمیان گہرے روابط تو قائم تھے لیکن یوکرین نے نیٹو میں موجود ممالک سے بھی روابط بڑھانا شروع کردیے۔جس پر یوکرین کے نیٹو میں شامل ہونے کے امکانات بڑھ گئے گئے۔دونوں ممالک کے درمیان جاری کشیدگی کی وجہ بھی روس کا یہ خوف تھا کہ کہیں یوکرین نیٹو میں شامل ہو کر خود ماسکو کے لیے خطرہ نہ بن جائے۔یہ روس کے لیے ناقابل قبول بات تھی کہ جو یوکرین کبھی سابق سوویت یونین کا حصہ ہوا کرتا تھا اب نیٹو کا حصہ بن کر نیٹو فورسز کو ماسکو کی سرحد تک رسائی دے دے۔روس اس چیز کو ماسکو کی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتا ہے۔
روس نے جب 2014 میں باغیوں کی مدد کے لیے اپنی افواج وہاں اتاریں تو ملک گیر احتجاج شروع ہوگیا۔پارلیمنٹ میں روس نواز صدر یانو کووچ (جنھوں نے روس سے بہتر تعلقات کی غرض سے یورپی یونین سے منسلک ہونے والا معاہدہ ختم کردیا تھا) کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ پاس کردیا گیا۔جس کے نتیجے میں روس نواز صدر وکٹر یانو کووچ کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا۔یہ روس کے لیے ایک دھچکہ سے کم نہ تھا۔
روس کافی عرصہ سے یوکرین کی سرحد پر روسی افواج کے دستوں میں اضافہ کررہا تھا جس پر مغربی ممالک نے کافی تشویش کا اظہار کیا اور روس پر الزام لگایا کہ وہ جنگ کا ارادہ رکھتا ہے لیکن روس مغربی ممالک کے اس خدشے کو جھٹلاتا رہا۔لیکن پھر روس نے اچانک ہی جمعرات کے روز یوکرین کے ڈونباس خطے میں ملٹری آپریشن شروع کردیا۔روسی صدر نے اس حوالے سے مقامی ٹیلی ویژن پر خطاب کرتے ہوئے پوٹن کا کہنا تھا کہ یہ آپریشن امن بحال رکھنے کے لیے کیا گیا ہے۔روس نے یوکرین کی حکومت کو اپنے ہی لوگوں کے خلاف نسل کشی سے روکنے کے لیے خصوصی فوجی آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
یاد رہے کہ روسی صدر کے ترجمان دمتری پیسکوف کی طرف سے دعوی کیا گیا تھا کہ ڈونیٹسک اور لوگانسک کے علیحدگی پسند رہنماؤں نے ولادیمیر پیوٹن کو علیحدہ علیحدہ خط بھیجے، جن میں ان سے کہا گیا تھا کہ وہ یوکرین کی جارحیت کو پسپا کرنے میں ان کی مدد کریں۔روس نے خطاب کے دوران ہی پوٹن نے مداخلت کرنے والے ممالک کو سنگین نتائج کی دھمکی بھی دے ڈالی۔ملٹری آپریشن سے دو روز قبل ہی روس نے یوکرین کے دو علیحدگی پسند علاقوں ڈونٹسک اور لوہانسک کی آزاد حیثیت تسلیم کرلی تھی جس کا مطلب یہ تھا کہ اب روس ان دونوں علاقوں کو یوکرین کا حصہ نہیں مانتا بلکہ وہ ان دونوں علاقوں کو آزاد ریاست کے طور پر دیکھتا ہے۔روس نے اپنی فوج کو ان دونوں علاقوں میں داخل ہونے کے احکامات بھی جاری کیے تھے۔ جس پر امریکہ نے شدید ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ روس کا یہ قدم یوکرین پر حملہ کا آغاز ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
عدم اعتماد نہیں، عمران خان پر ان کا کھیل الٹنے کی ضرورت ہے
جب صدر رفیق تارڑ کے سامنے جنرل مشرف کو زبان کھولنے کی ہمت نہ ہو سکی
اے پشاور! آخری کوشش ہے یہ، اسحٰق وردگ کی شاعری پر ایک نظر
گوکہ پوری دنیا نے روسی حملے کی سخت الفاظ میں مذمت کی۔ روس پر سخت پابندیاں لگانے کا عندیہ دیا۔عالمی سطح پر روس کو ہٹلر جیسے القابات سے نوازا گیا لیکن کوئی ملک بھی زبانی کلامی سے آگے نہ بڑھ سکا۔جس پر یوکرین کے صدر نے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ “پوری دنیا نے ہمیں اکیلا چھوڑ دیا ہے”۔ نیٹو نے فوجیں بھیجنے سے انکار کردیا ہے اور امریکہ بھی اب تک سوائے بڑھک مارنے کے کچھ نہیں کرپایا۔اور غالب امکان یہی ہے کہ امریکہ اس جنگ میں کودنے کی حماقت نہیں کرے گا۔اس وقت امریکہ کے لیے اصل چیلنج روس نہیں بلکہ چین کی بڑھتی ہوئی قوت ہے۔
امریکہ کا افغانستان سے نکلنا،عراق سے اپنی فوجیں نکالنا،یہ سب اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ امریکہ اس وقت اپنی ساری توجہ صرف اور صرف چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کو روکنے کے لیے مرکوز رکھنا چاہتا ہے۔وہ کسی نئی جنگ میں کود کر اپنے وسائل کو ضائع نہیں کرنا چاہے گا۔اگر امریکہ یوکرین اور روس کے تنازعے میں کود پڑتا ہے تو دو ممالک کے درمیان جاری کشیدگی تیسری عالمی جنگ میں تبدیل ہوسکتی ہے۔پھر امریکہ کے پاس اپنے وسائل اس جنگ میں جھونکنے کے سوا کوئی آپشن نہیں بچے گا۔ چائنہ اس صورتحال کا فائدہ اٹھا کر تائیوان پر حملہ کر سکتا ہے۔جس کا امریکہ بہرحال متحمل نہیں ہوسکتا۔
امریکہ اس وقت اپنے وسائل کو چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کیخلاف خلاف استعمال کرنا چاہتا ہے۔ آکوس معاہدہ اس کی تازہ ترین مثال ہے۔لیکن امریکہ اس جاری تنازعہ میں بالکل خاموش کھلاڑی کا کردار ادا نہیں کرے گا۔وہ روس پر پابندیاں بھی لگائے گا اور یوکرین کو امداد اور ہتھیار بھی فراہم کرے گا ۔افغانستان سے شکست کھا کر نکنے کے بعد دنیا میں امریکہ کے سپر پاور کے امیج کو کافی دھچکا پہنچا ہے۔برطانوی وزیر دفاع نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ہم کسی ایسے ملک کو سپر پاور نہیں مان سکتے جو اپنے وعدے پر قائم نہ رہے سکتا ہو۔لہذا امریکہ اس وقت روس کو معاشی طور پر کمزور کر کے عالمی سطح پر یہ باور کروانا چاہے گا کہ اس کا کردار آج بھی جنگل میں شیر کی طرح کا ہے لیکن امریکہ سامنے آ کر نہیں لڑے گا۔
عقلمندی کا تقاضہ یہی تھا کہ یوکرین اس وقت امریکہ اور اتحادی ممالک کی طرف دیکھنے کی بجائے اور جذباتی فیصلے کرنے کی بجائے مصلحت پسندی کی راہ پر چل کر ماسکو کو مذاکرات کی پیشکش کرتا۔اپنا دفاع کرنا ہر ملک کا بین الاقوامی حق ہے لیکن اگر مذاکرات سے مسائل حل ہوسکتے ہیں تو پھر جنگ ہی کا آپشن کیوں استعمال کیا جائے۔اسلام آباد کا بھی یہی موقف ہے کہ مذاکرات کے ذریعہ تنازع کو حل کیا جائے۔پاکستان نے روسی ٹیلیویژن آر ٹی کو انٹرویو دیتے وقت واضح الفاظ میں کہا کہ فوجی کاروائی کسی مسئلے کا حل نہیں ہوسکتے۔پرامن تصفیے کے لیے مذاکرات کی میز پر آنا پڑتا ہے۔
یوکرین نے روس کو مذاکرات کی پیشکش کر کے عقلمندی کا فیصلہ کیا ہے۔یوکرین نے فوری جنگ بندی اور انخلا کا مطالبہ کیا ہے۔اب یہ روس کے اوپر ہے کہ وہ کیا فیصلہ کرتا ہے؟ان مذاکرات میں کامیابی کا رارومدار روس پر ہے۔
ماسکو کو یہ سمجھنا ہوگا کہ وہ تن تنہا یوکرین کو سرینڈر کرنے پر مجبور تو کرسکتا ہے لیکن عالمی پابندیاں اس کی معیشت کو ضرب کاری لگا سکتی ہیں۔گوکہ یہ طے شدہ ہے کہ یوکرین روس کے مقابلے میں ایک کمزور ملک ہے وہ جلد ہی یہ جنگ ہار جائے گا،کئی ماہرین کے نزدیک تو یوکرین یہ جنگ ہار چکا ہے۔لیکن جنگ میں اگر کمزور ہارتا ہے تو نقصان طاقتور کا بھی ہوتا ہے۔کمزور فریق اگر سرینڈر کرتا ہے تو طاقتور کی کمر پر بھی بل آتا ہے۔لیکن ہار جیت کی اس جنگ میں بہت سے معصوم لوگ اپنی جانوں کا نذرانہ دے دیتے ہیں۔۔انسانیت کے ناطے ہی سہی لیکن ماسکو کو یوکرین کا مطالبہ قبول کر کے امن کی جانب قدم بڑھانا ہوگا۔جنگ بند کرنی ہوگی۔انسانی خون بہانا بند کرنا ہوگا۔
طاقت کے زعم میں مبتلا ہو کر امریکہ کے نقش قدم پر چلنے کی بجائے اپنی سمت بدلنی ہوگی۔اور ماسکو یہ کر سکتا ہے۔بدلے میں وہ یوکرین سے نیٹو میں شامل نہ ہونے کا حلف لے سکتا ہے۔۔یہی انسانیت کے لیے بھی بہتر ہے اور خود ماسکو کے لیے بھی۔۔
“جنگیں انسانی جانوں کا ضیاع چاہتی ہیں۔طوالت چاہتی ہیں۔لیکن اس جنگ کا ایندھن بننے والے معصوم لوگ امن کا مطالبہ کرتے ہیں.”
روس اور یوکرین کےمابین جاری جنگ کو ایک ہفتے سے زاید ہوچکا ہے۔کشیدگی میں کمی آنے کی بجائے اضافہ ہورہا ہے۔روسی حملے تیز ہورہے ہیں۔یوکرینی عوام میں خوف و ہراس شدت سے پھیل رہا ہے۔لاکھوں بے گھر ہوچکے،ہزاروں یورپ کی جانب نقل مکانی کرچکے ہیں۔
یوکرین مشرقی یورپ میں واقع ہے۔ رقبے کے لحاظ سے یورپ کا دوسرا بڑا ملک ہے۔اس کی سرحدیں شمال میں بیلا روس کے ساتھ ملتی ہیں۔ مغرب میں پولینڈ،سلوواکیہ اور ہنگری کے ساتھ،جنوب میں رومانیہ اور مالدووا کے ساتھ ملتی ہیں۔ اس کی آبادی 41.2 ملین ہے۔ اس لحاظ سے یہ آبادی کےلحاظ سے یورپ کا آٹھواں بڑا ملک ہے۔ دارالحکومت کا نام کیف ہے جسے یوکرین کا سب سے بڑا شہر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔۔
یہ بھی دیکھئے:
یوکرین سابق سوویت یونین کا حصہ تھا لیکن 1991 میں جب سوویت یونین کا خاتمہ ہوگیا تو 14 آزاد ریاستیں قائم ہوئیں جن میں یوکرین بھی شامل تھا۔ آزاد ریاست بننے کے بعد روس اور یوکرین کے درمیان گہرے روابط تو قائم تھے لیکن یوکرین نے نیٹو میں موجود ممالک سے بھی روابط بڑھانا شروع کردیے۔جس پر یوکرین کے نیٹو میں شامل ہونے کے امکانات بڑھ گئے گئے۔دونوں ممالک کے درمیان جاری کشیدگی کی وجہ بھی روس کا یہ خوف تھا کہ کہیں یوکرین نیٹو میں شامل ہو کر خود ماسکو کے لیے خطرہ نہ بن جائے۔یہ روس کے لیے ناقابل قبول بات تھی کہ جو یوکرین کبھی سابق سوویت یونین کا حصہ ہوا کرتا تھا اب نیٹو کا حصہ بن کر نیٹو فورسز کو ماسکو کی سرحد تک رسائی دے دے۔روس اس چیز کو ماسکو کی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتا ہے۔
روس نے جب 2014 میں باغیوں کی مدد کے لیے اپنی افواج وہاں اتاریں تو ملک گیر احتجاج شروع ہوگیا۔پارلیمنٹ میں روس نواز صدر یانو کووچ (جنھوں نے روس سے بہتر تعلقات کی غرض سے یورپی یونین سے منسلک ہونے والا معاہدہ ختم کردیا تھا) کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ پاس کردیا گیا۔جس کے نتیجے میں روس نواز صدر وکٹر یانو کووچ کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا۔یہ روس کے لیے ایک دھچکہ سے کم نہ تھا۔
روس کافی عرصہ سے یوکرین کی سرحد پر روسی افواج کے دستوں میں اضافہ کررہا تھا جس پر مغربی ممالک نے کافی تشویش کا اظہار کیا اور روس پر الزام لگایا کہ وہ جنگ کا ارادہ رکھتا ہے لیکن روس مغربی ممالک کے اس خدشے کو جھٹلاتا رہا۔لیکن پھر روس نے اچانک ہی جمعرات کے روز یوکرین کے ڈونباس خطے میں ملٹری آپریشن شروع کردیا۔روسی صدر نے اس حوالے سے مقامی ٹیلی ویژن پر خطاب کرتے ہوئے پوٹن کا کہنا تھا کہ یہ آپریشن امن بحال رکھنے کے لیے کیا گیا ہے۔روس نے یوکرین کی حکومت کو اپنے ہی لوگوں کے خلاف نسل کشی سے روکنے کے لیے خصوصی فوجی آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
یاد رہے کہ روسی صدر کے ترجمان دمتری پیسکوف کی طرف سے دعوی کیا گیا تھا کہ ڈونیٹسک اور لوگانسک کے علیحدگی پسند رہنماؤں نے ولادیمیر پیوٹن کو علیحدہ علیحدہ خط بھیجے، جن میں ان سے کہا گیا تھا کہ وہ یوکرین کی جارحیت کو پسپا کرنے میں ان کی مدد کریں۔روس نے خطاب کے دوران ہی پوٹن نے مداخلت کرنے والے ممالک کو سنگین نتائج کی دھمکی بھی دے ڈالی۔ملٹری آپریشن سے دو روز قبل ہی روس نے یوکرین کے دو علیحدگی پسند علاقوں ڈونٹسک اور لوہانسک کی آزاد حیثیت تسلیم کرلی تھی جس کا مطلب یہ تھا کہ اب روس ان دونوں علاقوں کو یوکرین کا حصہ نہیں مانتا بلکہ وہ ان دونوں علاقوں کو آزاد ریاست کے طور پر دیکھتا ہے۔روس نے اپنی فوج کو ان دونوں علاقوں میں داخل ہونے کے احکامات بھی جاری کیے تھے۔ جس پر امریکہ نے شدید ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ روس کا یہ قدم یوکرین پر حملہ کا آغاز ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
عدم اعتماد نہیں، عمران خان پر ان کا کھیل الٹنے کی ضرورت ہے
جب صدر رفیق تارڑ کے سامنے جنرل مشرف کو زبان کھولنے کی ہمت نہ ہو سکی
اے پشاور! آخری کوشش ہے یہ، اسحٰق وردگ کی شاعری پر ایک نظر
گوکہ پوری دنیا نے روسی حملے کی سخت الفاظ میں مذمت کی۔ روس پر سخت پابندیاں لگانے کا عندیہ دیا۔عالمی سطح پر روس کو ہٹلر جیسے القابات سے نوازا گیا لیکن کوئی ملک بھی زبانی کلامی سے آگے نہ بڑھ سکا۔جس پر یوکرین کے صدر نے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ “پوری دنیا نے ہمیں اکیلا چھوڑ دیا ہے”۔ نیٹو نے فوجیں بھیجنے سے انکار کردیا ہے اور امریکہ بھی اب تک سوائے بڑھک مارنے کے کچھ نہیں کرپایا۔اور غالب امکان یہی ہے کہ امریکہ اس جنگ میں کودنے کی حماقت نہیں کرے گا۔اس وقت امریکہ کے لیے اصل چیلنج روس نہیں بلکہ چین کی بڑھتی ہوئی قوت ہے۔
امریکہ کا افغانستان سے نکلنا،عراق سے اپنی فوجیں نکالنا،یہ سب اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ امریکہ اس وقت اپنی ساری توجہ صرف اور صرف چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کو روکنے کے لیے مرکوز رکھنا چاہتا ہے۔وہ کسی نئی جنگ میں کود کر اپنے وسائل کو ضائع نہیں کرنا چاہے گا۔اگر امریکہ یوکرین اور روس کے تنازعے میں کود پڑتا ہے تو دو ممالک کے درمیان جاری کشیدگی تیسری عالمی جنگ میں تبدیل ہوسکتی ہے۔پھر امریکہ کے پاس اپنے وسائل اس جنگ میں جھونکنے کے سوا کوئی آپشن نہیں بچے گا۔ چائنہ اس صورتحال کا فائدہ اٹھا کر تائیوان پر حملہ کر سکتا ہے۔جس کا امریکہ بہرحال متحمل نہیں ہوسکتا۔
امریکہ اس وقت اپنے وسائل کو چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کیخلاف خلاف استعمال کرنا چاہتا ہے۔ آکوس معاہدہ اس کی تازہ ترین مثال ہے۔لیکن امریکہ اس جاری تنازعہ میں بالکل خاموش کھلاڑی کا کردار ادا نہیں کرے گا۔وہ روس پر پابندیاں بھی لگائے گا اور یوکرین کو امداد اور ہتھیار بھی فراہم کرے گا ۔افغانستان سے شکست کھا کر نکنے کے بعد دنیا میں امریکہ کے سپر پاور کے امیج کو کافی دھچکا پہنچا ہے۔برطانوی وزیر دفاع نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ہم کسی ایسے ملک کو سپر پاور نہیں مان سکتے جو اپنے وعدے پر قائم نہ رہے سکتا ہو۔لہذا امریکہ اس وقت روس کو معاشی طور پر کمزور کر کے عالمی سطح پر یہ باور کروانا چاہے گا کہ اس کا کردار آج بھی جنگل میں شیر کی طرح کا ہے لیکن امریکہ سامنے آ کر نہیں لڑے گا۔
عقلمندی کا تقاضہ یہی تھا کہ یوکرین اس وقت امریکہ اور اتحادی ممالک کی طرف دیکھنے کی بجائے اور جذباتی فیصلے کرنے کی بجائے مصلحت پسندی کی راہ پر چل کر ماسکو کو مذاکرات کی پیشکش کرتا۔اپنا دفاع کرنا ہر ملک کا بین الاقوامی حق ہے لیکن اگر مذاکرات سے مسائل حل ہوسکتے ہیں تو پھر جنگ ہی کا آپشن کیوں استعمال کیا جائے۔اسلام آباد کا بھی یہی موقف ہے کہ مذاکرات کے ذریعہ تنازع کو حل کیا جائے۔پاکستان نے روسی ٹیلیویژن آر ٹی کو انٹرویو دیتے وقت واضح الفاظ میں کہا کہ فوجی کاروائی کسی مسئلے کا حل نہیں ہوسکتے۔پرامن تصفیے کے لیے مذاکرات کی میز پر آنا پڑتا ہے۔
یوکرین نے روس کو مذاکرات کی پیشکش کر کے عقلمندی کا فیصلہ کیا ہے۔یوکرین نے فوری جنگ بندی اور انخلا کا مطالبہ کیا ہے۔اب یہ روس کے اوپر ہے کہ وہ کیا فیصلہ کرتا ہے؟ان مذاکرات میں کامیابی کا رارومدار روس پر ہے۔
ماسکو کو یہ سمجھنا ہوگا کہ وہ تن تنہا یوکرین کو سرینڈر کرنے پر مجبور تو کرسکتا ہے لیکن عالمی پابندیاں اس کی معیشت کو ضرب کاری لگا سکتی ہیں۔گوکہ یہ طے شدہ ہے کہ یوکرین روس کے مقابلے میں ایک کمزور ملک ہے وہ جلد ہی یہ جنگ ہار جائے گا،کئی ماہرین کے نزدیک تو یوکرین یہ جنگ ہار چکا ہے۔لیکن جنگ میں اگر کمزور ہارتا ہے تو نقصان طاقتور کا بھی ہوتا ہے۔کمزور فریق اگر سرینڈر کرتا ہے تو طاقتور کی کمر پر بھی بل آتا ہے۔لیکن ہار جیت کی اس جنگ میں بہت سے معصوم لوگ اپنی جانوں کا نذرانہ دے دیتے ہیں۔۔انسانیت کے ناطے ہی سہی لیکن ماسکو کو یوکرین کا مطالبہ قبول کر کے امن کی جانب قدم بڑھانا ہوگا۔جنگ بند کرنی ہوگی۔انسانی خون بہانا بند کرنا ہوگا۔
طاقت کے زعم میں مبتلا ہو کر امریکہ کے نقش قدم پر چلنے کی بجائے اپنی سمت بدلنی ہوگی۔اور ماسکو یہ کر سکتا ہے۔بدلے میں وہ یوکرین سے نیٹو میں شامل نہ ہونے کا حلف لے سکتا ہے۔۔یہی انسانیت کے لیے بھی بہتر ہے اور خود ماسکو کے لیے بھی۔۔
“جنگیں انسانی جانوں کا ضیاع چاہتی ہیں۔طوالت چاہتی ہیں۔لیکن اس جنگ کا ایندھن بننے والے معصوم لوگ امن کا مطالبہ کرتے ہیں.”
روس اور یوکرین کےمابین جاری جنگ کو ایک ہفتے سے زاید ہوچکا ہے۔کشیدگی میں کمی آنے کی بجائے اضافہ ہورہا ہے۔روسی حملے تیز ہورہے ہیں۔یوکرینی عوام میں خوف و ہراس شدت سے پھیل رہا ہے۔لاکھوں بے گھر ہوچکے،ہزاروں یورپ کی جانب نقل مکانی کرچکے ہیں۔
یوکرین مشرقی یورپ میں واقع ہے۔ رقبے کے لحاظ سے یورپ کا دوسرا بڑا ملک ہے۔اس کی سرحدیں شمال میں بیلا روس کے ساتھ ملتی ہیں۔ مغرب میں پولینڈ،سلوواکیہ اور ہنگری کے ساتھ،جنوب میں رومانیہ اور مالدووا کے ساتھ ملتی ہیں۔ اس کی آبادی 41.2 ملین ہے۔ اس لحاظ سے یہ آبادی کےلحاظ سے یورپ کا آٹھواں بڑا ملک ہے۔ دارالحکومت کا نام کیف ہے جسے یوکرین کا سب سے بڑا شہر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔۔
یہ بھی دیکھئے:
یوکرین سابق سوویت یونین کا حصہ تھا لیکن 1991 میں جب سوویت یونین کا خاتمہ ہوگیا تو 14 آزاد ریاستیں قائم ہوئیں جن میں یوکرین بھی شامل تھا۔ آزاد ریاست بننے کے بعد روس اور یوکرین کے درمیان گہرے روابط تو قائم تھے لیکن یوکرین نے نیٹو میں موجود ممالک سے بھی روابط بڑھانا شروع کردیے۔جس پر یوکرین کے نیٹو میں شامل ہونے کے امکانات بڑھ گئے گئے۔دونوں ممالک کے درمیان جاری کشیدگی کی وجہ بھی روس کا یہ خوف تھا کہ کہیں یوکرین نیٹو میں شامل ہو کر خود ماسکو کے لیے خطرہ نہ بن جائے۔یہ روس کے لیے ناقابل قبول بات تھی کہ جو یوکرین کبھی سابق سوویت یونین کا حصہ ہوا کرتا تھا اب نیٹو کا حصہ بن کر نیٹو فورسز کو ماسکو کی سرحد تک رسائی دے دے۔روس اس چیز کو ماسکو کی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتا ہے۔
روس نے جب 2014 میں باغیوں کی مدد کے لیے اپنی افواج وہاں اتاریں تو ملک گیر احتجاج شروع ہوگیا۔پارلیمنٹ میں روس نواز صدر یانو کووچ (جنھوں نے روس سے بہتر تعلقات کی غرض سے یورپی یونین سے منسلک ہونے والا معاہدہ ختم کردیا تھا) کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ پاس کردیا گیا۔جس کے نتیجے میں روس نواز صدر وکٹر یانو کووچ کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا۔یہ روس کے لیے ایک دھچکہ سے کم نہ تھا۔
روس کافی عرصہ سے یوکرین کی سرحد پر روسی افواج کے دستوں میں اضافہ کررہا تھا جس پر مغربی ممالک نے کافی تشویش کا اظہار کیا اور روس پر الزام لگایا کہ وہ جنگ کا ارادہ رکھتا ہے لیکن روس مغربی ممالک کے اس خدشے کو جھٹلاتا رہا۔لیکن پھر روس نے اچانک ہی جمعرات کے روز یوکرین کے ڈونباس خطے میں ملٹری آپریشن شروع کردیا۔روسی صدر نے اس حوالے سے مقامی ٹیلی ویژن پر خطاب کرتے ہوئے پوٹن کا کہنا تھا کہ یہ آپریشن امن بحال رکھنے کے لیے کیا گیا ہے۔روس نے یوکرین کی حکومت کو اپنے ہی لوگوں کے خلاف نسل کشی سے روکنے کے لیے خصوصی فوجی آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
یاد رہے کہ روسی صدر کے ترجمان دمتری پیسکوف کی طرف سے دعوی کیا گیا تھا کہ ڈونیٹسک اور لوگانسک کے علیحدگی پسند رہنماؤں نے ولادیمیر پیوٹن کو علیحدہ علیحدہ خط بھیجے، جن میں ان سے کہا گیا تھا کہ وہ یوکرین کی جارحیت کو پسپا کرنے میں ان کی مدد کریں۔روس نے خطاب کے دوران ہی پوٹن نے مداخلت کرنے والے ممالک کو سنگین نتائج کی دھمکی بھی دے ڈالی۔ملٹری آپریشن سے دو روز قبل ہی روس نے یوکرین کے دو علیحدگی پسند علاقوں ڈونٹسک اور لوہانسک کی آزاد حیثیت تسلیم کرلی تھی جس کا مطلب یہ تھا کہ اب روس ان دونوں علاقوں کو یوکرین کا حصہ نہیں مانتا بلکہ وہ ان دونوں علاقوں کو آزاد ریاست کے طور پر دیکھتا ہے۔روس نے اپنی فوج کو ان دونوں علاقوں میں داخل ہونے کے احکامات بھی جاری کیے تھے۔ جس پر امریکہ نے شدید ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ روس کا یہ قدم یوکرین پر حملہ کا آغاز ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
عدم اعتماد نہیں، عمران خان پر ان کا کھیل الٹنے کی ضرورت ہے
جب صدر رفیق تارڑ کے سامنے جنرل مشرف کو زبان کھولنے کی ہمت نہ ہو سکی
اے پشاور! آخری کوشش ہے یہ، اسحٰق وردگ کی شاعری پر ایک نظر
گوکہ پوری دنیا نے روسی حملے کی سخت الفاظ میں مذمت کی۔ روس پر سخت پابندیاں لگانے کا عندیہ دیا۔عالمی سطح پر روس کو ہٹلر جیسے القابات سے نوازا گیا لیکن کوئی ملک بھی زبانی کلامی سے آگے نہ بڑھ سکا۔جس پر یوکرین کے صدر نے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ “پوری دنیا نے ہمیں اکیلا چھوڑ دیا ہے”۔ نیٹو نے فوجیں بھیجنے سے انکار کردیا ہے اور امریکہ بھی اب تک سوائے بڑھک مارنے کے کچھ نہیں کرپایا۔اور غالب امکان یہی ہے کہ امریکہ اس جنگ میں کودنے کی حماقت نہیں کرے گا۔اس وقت امریکہ کے لیے اصل چیلنج روس نہیں بلکہ چین کی بڑھتی ہوئی قوت ہے۔
امریکہ کا افغانستان سے نکلنا،عراق سے اپنی فوجیں نکالنا،یہ سب اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ امریکہ اس وقت اپنی ساری توجہ صرف اور صرف چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کو روکنے کے لیے مرکوز رکھنا چاہتا ہے۔وہ کسی نئی جنگ میں کود کر اپنے وسائل کو ضائع نہیں کرنا چاہے گا۔اگر امریکہ یوکرین اور روس کے تنازعے میں کود پڑتا ہے تو دو ممالک کے درمیان جاری کشیدگی تیسری عالمی جنگ میں تبدیل ہوسکتی ہے۔پھر امریکہ کے پاس اپنے وسائل اس جنگ میں جھونکنے کے سوا کوئی آپشن نہیں بچے گا۔ چائنہ اس صورتحال کا فائدہ اٹھا کر تائیوان پر حملہ کر سکتا ہے۔جس کا امریکہ بہرحال متحمل نہیں ہوسکتا۔
امریکہ اس وقت اپنے وسائل کو چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کیخلاف خلاف استعمال کرنا چاہتا ہے۔ آکوس معاہدہ اس کی تازہ ترین مثال ہے۔لیکن امریکہ اس جاری تنازعہ میں بالکل خاموش کھلاڑی کا کردار ادا نہیں کرے گا۔وہ روس پر پابندیاں بھی لگائے گا اور یوکرین کو امداد اور ہتھیار بھی فراہم کرے گا ۔افغانستان سے شکست کھا کر نکنے کے بعد دنیا میں امریکہ کے سپر پاور کے امیج کو کافی دھچکا پہنچا ہے۔برطانوی وزیر دفاع نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ہم کسی ایسے ملک کو سپر پاور نہیں مان سکتے جو اپنے وعدے پر قائم نہ رہے سکتا ہو۔لہذا امریکہ اس وقت روس کو معاشی طور پر کمزور کر کے عالمی سطح پر یہ باور کروانا چاہے گا کہ اس کا کردار آج بھی جنگل میں شیر کی طرح کا ہے لیکن امریکہ سامنے آ کر نہیں لڑے گا۔
عقلمندی کا تقاضہ یہی تھا کہ یوکرین اس وقت امریکہ اور اتحادی ممالک کی طرف دیکھنے کی بجائے اور جذباتی فیصلے کرنے کی بجائے مصلحت پسندی کی راہ پر چل کر ماسکو کو مذاکرات کی پیشکش کرتا۔اپنا دفاع کرنا ہر ملک کا بین الاقوامی حق ہے لیکن اگر مذاکرات سے مسائل حل ہوسکتے ہیں تو پھر جنگ ہی کا آپشن کیوں استعمال کیا جائے۔اسلام آباد کا بھی یہی موقف ہے کہ مذاکرات کے ذریعہ تنازع کو حل کیا جائے۔پاکستان نے روسی ٹیلیویژن آر ٹی کو انٹرویو دیتے وقت واضح الفاظ میں کہا کہ فوجی کاروائی کسی مسئلے کا حل نہیں ہوسکتے۔پرامن تصفیے کے لیے مذاکرات کی میز پر آنا پڑتا ہے۔
یوکرین نے روس کو مذاکرات کی پیشکش کر کے عقلمندی کا فیصلہ کیا ہے۔یوکرین نے فوری جنگ بندی اور انخلا کا مطالبہ کیا ہے۔اب یہ روس کے اوپر ہے کہ وہ کیا فیصلہ کرتا ہے؟ان مذاکرات میں کامیابی کا رارومدار روس پر ہے۔
ماسکو کو یہ سمجھنا ہوگا کہ وہ تن تنہا یوکرین کو سرینڈر کرنے پر مجبور تو کرسکتا ہے لیکن عالمی پابندیاں اس کی معیشت کو ضرب کاری لگا سکتی ہیں۔گوکہ یہ طے شدہ ہے کہ یوکرین روس کے مقابلے میں ایک کمزور ملک ہے وہ جلد ہی یہ جنگ ہار جائے گا،کئی ماہرین کے نزدیک تو یوکرین یہ جنگ ہار چکا ہے۔لیکن جنگ میں اگر کمزور ہارتا ہے تو نقصان طاقتور کا بھی ہوتا ہے۔کمزور فریق اگر سرینڈر کرتا ہے تو طاقتور کی کمر پر بھی بل آتا ہے۔لیکن ہار جیت کی اس جنگ میں بہت سے معصوم لوگ اپنی جانوں کا نذرانہ دے دیتے ہیں۔۔انسانیت کے ناطے ہی سہی لیکن ماسکو کو یوکرین کا مطالبہ قبول کر کے امن کی جانب قدم بڑھانا ہوگا۔جنگ بند کرنی ہوگی۔انسانی خون بہانا بند کرنا ہوگا۔
طاقت کے زعم میں مبتلا ہو کر امریکہ کے نقش قدم پر چلنے کی بجائے اپنی سمت بدلنی ہوگی۔اور ماسکو یہ کر سکتا ہے۔بدلے میں وہ یوکرین سے نیٹو میں شامل نہ ہونے کا حلف لے سکتا ہے۔۔یہی انسانیت کے لیے بھی بہتر ہے اور خود ماسکو کے لیے بھی۔۔
“جنگیں انسانی جانوں کا ضیاع چاہتی ہیں۔طوالت چاہتی ہیں۔لیکن اس جنگ کا ایندھن بننے والے معصوم لوگ امن کا مطالبہ کرتے ہیں.”
روس اور یوکرین کےمابین جاری جنگ کو ایک ہفتے سے زاید ہوچکا ہے۔کشیدگی میں کمی آنے کی بجائے اضافہ ہورہا ہے۔روسی حملے تیز ہورہے ہیں۔یوکرینی عوام میں خوف و ہراس شدت سے پھیل رہا ہے۔لاکھوں بے گھر ہوچکے،ہزاروں یورپ کی جانب نقل مکانی کرچکے ہیں۔
یوکرین مشرقی یورپ میں واقع ہے۔ رقبے کے لحاظ سے یورپ کا دوسرا بڑا ملک ہے۔اس کی سرحدیں شمال میں بیلا روس کے ساتھ ملتی ہیں۔ مغرب میں پولینڈ،سلوواکیہ اور ہنگری کے ساتھ،جنوب میں رومانیہ اور مالدووا کے ساتھ ملتی ہیں۔ اس کی آبادی 41.2 ملین ہے۔ اس لحاظ سے یہ آبادی کےلحاظ سے یورپ کا آٹھواں بڑا ملک ہے۔ دارالحکومت کا نام کیف ہے جسے یوکرین کا سب سے بڑا شہر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔۔
یہ بھی دیکھئے:
یوکرین سابق سوویت یونین کا حصہ تھا لیکن 1991 میں جب سوویت یونین کا خاتمہ ہوگیا تو 14 آزاد ریاستیں قائم ہوئیں جن میں یوکرین بھی شامل تھا۔ آزاد ریاست بننے کے بعد روس اور یوکرین کے درمیان گہرے روابط تو قائم تھے لیکن یوکرین نے نیٹو میں موجود ممالک سے بھی روابط بڑھانا شروع کردیے۔جس پر یوکرین کے نیٹو میں شامل ہونے کے امکانات بڑھ گئے گئے۔دونوں ممالک کے درمیان جاری کشیدگی کی وجہ بھی روس کا یہ خوف تھا کہ کہیں یوکرین نیٹو میں شامل ہو کر خود ماسکو کے لیے خطرہ نہ بن جائے۔یہ روس کے لیے ناقابل قبول بات تھی کہ جو یوکرین کبھی سابق سوویت یونین کا حصہ ہوا کرتا تھا اب نیٹو کا حصہ بن کر نیٹو فورسز کو ماسکو کی سرحد تک رسائی دے دے۔روس اس چیز کو ماسکو کی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتا ہے۔
روس نے جب 2014 میں باغیوں کی مدد کے لیے اپنی افواج وہاں اتاریں تو ملک گیر احتجاج شروع ہوگیا۔پارلیمنٹ میں روس نواز صدر یانو کووچ (جنھوں نے روس سے بہتر تعلقات کی غرض سے یورپی یونین سے منسلک ہونے والا معاہدہ ختم کردیا تھا) کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ پاس کردیا گیا۔جس کے نتیجے میں روس نواز صدر وکٹر یانو کووچ کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا۔یہ روس کے لیے ایک دھچکہ سے کم نہ تھا۔
روس کافی عرصہ سے یوکرین کی سرحد پر روسی افواج کے دستوں میں اضافہ کررہا تھا جس پر مغربی ممالک نے کافی تشویش کا اظہار کیا اور روس پر الزام لگایا کہ وہ جنگ کا ارادہ رکھتا ہے لیکن روس مغربی ممالک کے اس خدشے کو جھٹلاتا رہا۔لیکن پھر روس نے اچانک ہی جمعرات کے روز یوکرین کے ڈونباس خطے میں ملٹری آپریشن شروع کردیا۔روسی صدر نے اس حوالے سے مقامی ٹیلی ویژن پر خطاب کرتے ہوئے پوٹن کا کہنا تھا کہ یہ آپریشن امن بحال رکھنے کے لیے کیا گیا ہے۔روس نے یوکرین کی حکومت کو اپنے ہی لوگوں کے خلاف نسل کشی سے روکنے کے لیے خصوصی فوجی آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
یاد رہے کہ روسی صدر کے ترجمان دمتری پیسکوف کی طرف سے دعوی کیا گیا تھا کہ ڈونیٹسک اور لوگانسک کے علیحدگی پسند رہنماؤں نے ولادیمیر پیوٹن کو علیحدہ علیحدہ خط بھیجے، جن میں ان سے کہا گیا تھا کہ وہ یوکرین کی جارحیت کو پسپا کرنے میں ان کی مدد کریں۔روس نے خطاب کے دوران ہی پوٹن نے مداخلت کرنے والے ممالک کو سنگین نتائج کی دھمکی بھی دے ڈالی۔ملٹری آپریشن سے دو روز قبل ہی روس نے یوکرین کے دو علیحدگی پسند علاقوں ڈونٹسک اور لوہانسک کی آزاد حیثیت تسلیم کرلی تھی جس کا مطلب یہ تھا کہ اب روس ان دونوں علاقوں کو یوکرین کا حصہ نہیں مانتا بلکہ وہ ان دونوں علاقوں کو آزاد ریاست کے طور پر دیکھتا ہے۔روس نے اپنی فوج کو ان دونوں علاقوں میں داخل ہونے کے احکامات بھی جاری کیے تھے۔ جس پر امریکہ نے شدید ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ روس کا یہ قدم یوکرین پر حملہ کا آغاز ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
عدم اعتماد نہیں، عمران خان پر ان کا کھیل الٹنے کی ضرورت ہے
جب صدر رفیق تارڑ کے سامنے جنرل مشرف کو زبان کھولنے کی ہمت نہ ہو سکی
اے پشاور! آخری کوشش ہے یہ، اسحٰق وردگ کی شاعری پر ایک نظر
گوکہ پوری دنیا نے روسی حملے کی سخت الفاظ میں مذمت کی۔ روس پر سخت پابندیاں لگانے کا عندیہ دیا۔عالمی سطح پر روس کو ہٹلر جیسے القابات سے نوازا گیا لیکن کوئی ملک بھی زبانی کلامی سے آگے نہ بڑھ سکا۔جس پر یوکرین کے صدر نے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ “پوری دنیا نے ہمیں اکیلا چھوڑ دیا ہے”۔ نیٹو نے فوجیں بھیجنے سے انکار کردیا ہے اور امریکہ بھی اب تک سوائے بڑھک مارنے کے کچھ نہیں کرپایا۔اور غالب امکان یہی ہے کہ امریکہ اس جنگ میں کودنے کی حماقت نہیں کرے گا۔اس وقت امریکہ کے لیے اصل چیلنج روس نہیں بلکہ چین کی بڑھتی ہوئی قوت ہے۔
امریکہ کا افغانستان سے نکلنا،عراق سے اپنی فوجیں نکالنا،یہ سب اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ امریکہ اس وقت اپنی ساری توجہ صرف اور صرف چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کو روکنے کے لیے مرکوز رکھنا چاہتا ہے۔وہ کسی نئی جنگ میں کود کر اپنے وسائل کو ضائع نہیں کرنا چاہے گا۔اگر امریکہ یوکرین اور روس کے تنازعے میں کود پڑتا ہے تو دو ممالک کے درمیان جاری کشیدگی تیسری عالمی جنگ میں تبدیل ہوسکتی ہے۔پھر امریکہ کے پاس اپنے وسائل اس جنگ میں جھونکنے کے سوا کوئی آپشن نہیں بچے گا۔ چائنہ اس صورتحال کا فائدہ اٹھا کر تائیوان پر حملہ کر سکتا ہے۔جس کا امریکہ بہرحال متحمل نہیں ہوسکتا۔
امریکہ اس وقت اپنے وسائل کو چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کیخلاف خلاف استعمال کرنا چاہتا ہے۔ آکوس معاہدہ اس کی تازہ ترین مثال ہے۔لیکن امریکہ اس جاری تنازعہ میں بالکل خاموش کھلاڑی کا کردار ادا نہیں کرے گا۔وہ روس پر پابندیاں بھی لگائے گا اور یوکرین کو امداد اور ہتھیار بھی فراہم کرے گا ۔افغانستان سے شکست کھا کر نکنے کے بعد دنیا میں امریکہ کے سپر پاور کے امیج کو کافی دھچکا پہنچا ہے۔برطانوی وزیر دفاع نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ہم کسی ایسے ملک کو سپر پاور نہیں مان سکتے جو اپنے وعدے پر قائم نہ رہے سکتا ہو۔لہذا امریکہ اس وقت روس کو معاشی طور پر کمزور کر کے عالمی سطح پر یہ باور کروانا چاہے گا کہ اس کا کردار آج بھی جنگل میں شیر کی طرح کا ہے لیکن امریکہ سامنے آ کر نہیں لڑے گا۔
عقلمندی کا تقاضہ یہی تھا کہ یوکرین اس وقت امریکہ اور اتحادی ممالک کی طرف دیکھنے کی بجائے اور جذباتی فیصلے کرنے کی بجائے مصلحت پسندی کی راہ پر چل کر ماسکو کو مذاکرات کی پیشکش کرتا۔اپنا دفاع کرنا ہر ملک کا بین الاقوامی حق ہے لیکن اگر مذاکرات سے مسائل حل ہوسکتے ہیں تو پھر جنگ ہی کا آپشن کیوں استعمال کیا جائے۔اسلام آباد کا بھی یہی موقف ہے کہ مذاکرات کے ذریعہ تنازع کو حل کیا جائے۔پاکستان نے روسی ٹیلیویژن آر ٹی کو انٹرویو دیتے وقت واضح الفاظ میں کہا کہ فوجی کاروائی کسی مسئلے کا حل نہیں ہوسکتے۔پرامن تصفیے کے لیے مذاکرات کی میز پر آنا پڑتا ہے۔
یوکرین نے روس کو مذاکرات کی پیشکش کر کے عقلمندی کا فیصلہ کیا ہے۔یوکرین نے فوری جنگ بندی اور انخلا کا مطالبہ کیا ہے۔اب یہ روس کے اوپر ہے کہ وہ کیا فیصلہ کرتا ہے؟ان مذاکرات میں کامیابی کا رارومدار روس پر ہے۔
ماسکو کو یہ سمجھنا ہوگا کہ وہ تن تنہا یوکرین کو سرینڈر کرنے پر مجبور تو کرسکتا ہے لیکن عالمی پابندیاں اس کی معیشت کو ضرب کاری لگا سکتی ہیں۔گوکہ یہ طے شدہ ہے کہ یوکرین روس کے مقابلے میں ایک کمزور ملک ہے وہ جلد ہی یہ جنگ ہار جائے گا،کئی ماہرین کے نزدیک تو یوکرین یہ جنگ ہار چکا ہے۔لیکن جنگ میں اگر کمزور ہارتا ہے تو نقصان طاقتور کا بھی ہوتا ہے۔کمزور فریق اگر سرینڈر کرتا ہے تو طاقتور کی کمر پر بھی بل آتا ہے۔لیکن ہار جیت کی اس جنگ میں بہت سے معصوم لوگ اپنی جانوں کا نذرانہ دے دیتے ہیں۔۔انسانیت کے ناطے ہی سہی لیکن ماسکو کو یوکرین کا مطالبہ قبول کر کے امن کی جانب قدم بڑھانا ہوگا۔جنگ بند کرنی ہوگی۔انسانی خون بہانا بند کرنا ہوگا۔
طاقت کے زعم میں مبتلا ہو کر امریکہ کے نقش قدم پر چلنے کی بجائے اپنی سمت بدلنی ہوگی۔اور ماسکو یہ کر سکتا ہے۔بدلے میں وہ یوکرین سے نیٹو میں شامل نہ ہونے کا حلف لے سکتا ہے۔۔یہی انسانیت کے لیے بھی بہتر ہے اور خود ماسکو کے لیے بھی۔۔
“جنگیں انسانی جانوں کا ضیاع چاہتی ہیں۔طوالت چاہتی ہیں۔لیکن اس جنگ کا ایندھن بننے والے معصوم لوگ امن کا مطالبہ کرتے ہیں.”