ایک اور چراغ اپنی مدت پوری کر کے بڑی خاموشی سے بجھ گیا۔ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے والے ڈاکٹر عبدالقدیر خان 84 سال کی عمر میں طویل علالت کے بعد اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان 27 اپریل 1936 کو بھوپال میں پیدا ہوئے میٹرک تک کی تعلیم بھوپال سے حاصل کی۔ 1947 میں پاکستان بن جانے کے بعد اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان آگئے۔ہجرت کے دوران راستے میں بہت زیادہ مٹی ہونے کی وجہ سے جب جوتوں کیساتھ سفر کرنا مشکل ہوگیا تو آپ نے جوتا اتار دیا اور ننگے پاوں پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھا۔
بیچلر کی ڈگری کراچی یونیورسٹی سے حاصل کی۔اعلی تعلیم کے حصول کے لیے جرمنی چلے گئے اور جرمنی کی شارلٹن برگ یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا وہاں سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہوں نے بلجیم کی لیون یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور ڈاکٹر آف فزیکل مئلرجی کی ڈگری حاصل کی۔ڈاکٹر عبدالقدیر کو جرمن،فرانسیسی اور انگریزی زبانوں پر مکمل عبور حاصل تھا۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے تین صدارتی ایوارڈ اور 13 طلائی تمغے حاصل کیے۔
جب بھارت نے 1974 میں ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان پر اپنی دھاک بٹھانے کی کوشش کی تو یہی وہ لمحہ تھا جب ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اپنے آپ کو پاکستان کے لیے وقف کرنے کا فیصلہ کیا۔اس وقت کے پاکستانی وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کے دفاع کو مضبوط بنانے کے لیے “پاکستانی ایٹمی پروگرام” کے نام سے ایک منصوبہ شروع کیا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ذوالفقار علی بھٹو کو ایک تاریخی خط لکھا جس میں انہوں نے اپنی خدمات فراہم کرنے کا اعلان کیا۔ذوالفقار علی بھٹو نے ان کو پاکستان آنے کی دعوت دی اور یوں ڈاکٹر عبدالقدیر خان پاکستان آگئے۔پاکستان آنے کے بعد انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقات کی اور ذوالفقار بھٹو نے ان کو تمام سہولیات دینے کی یقین دہانی کروائی۔
اپریل 1976 میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے “انجیرئنگ ریسرچ لیبارٹیز” میں پاکستانی ایٹمی پروگرام میں حصہ لیا۔بعد ازاں اس ادارے کا نام صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق نے یکم مئی 1981 کو تبدیل کر کے “ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹریز” رکھ دیا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کے دفاع کو ناتسخیر بنانے کے لیے اپنا دن رات ایک کیا۔۔کہا جاتا ہے کہ 1988 میں ایٹم بم بن چکا تھا لیکن پاکستان کسی موقعہ کی تلاش میں تھا کہا جاتا ہے کہ جب ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے جنرل ضیاءالحق کو بتایا کہ ایٹم بم تیار ہے تو جنرل ضیاءالحق نے فرط جزبات سے آپ کا ماتھا چوم لیا۔۔جب انڈیا نے 1998 میں ایٹمی دھماکے کیے تو پاکستان کو موقع مل چکا تھا.
اس وقت کے آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت نے انڈین دھماکوں کے ردعمل میں کہا کہ حکومت پاکستان موجودہ حالات کا نوٹس لے اور بھارت کے ایٹمی دھماکوں کا جواب دے۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اس موقعہ پر کہا کہ “ہم جواب دینے کے لیے تیار ہیں”۔
بھارت نے جب ایٹمی دھماکے کیے تو تقریبا تمام عالمی طاقتوں نے اس کی مذمت کی اور بھارت پر پابندیاں عائد کر دی گئیں اور بھارت کی فوجی امداد بھی روک دی گئی کیونکہ ان دنوں دنیا کو اسلحے سے پاک کرنے کی مہم بڑے زور شور سے چل رہی تھی۔انڈیا کے دھماکے کرنے سے عالمی سیاست پر یہ تاثر پیدا ہوگیا تھا کہ بھارت نے ایٹمی اسلحہ کو دنیا سے پاک کرنے کی کوششوں پر ضرب کاری لگائی ہے۔جاپان میں تو باقاعدہ انڈیا کے خلاف مظاہرے بھی ہوئے۔
یہ پاکستان کے لیے بہت مشکل وقت تھا کیونکہ اگر پاکستان ایٹمی دھماکے کرتا تو پاکستان کو بھی سخت پابندیوں کا سامنا کرنا پڑسکتا تھا۔پاکستان کشمکش میں مبتلا تھا لیکن پھر ایک عجیب واقعہ ہوا۔جی ایٹ اجلاس میں جرمنی نے دعوی کردیا کہ پاکستان نے ایٹمی دھماکہ کردیا ہے۔دنیا بھر میں کھلبلی مچ گئی۔بھارتی وزیر اعظم واجپائی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ہمارے پاس ایٹم بم ہے ہم شرارتی پڑوسیوں پر گرا دیں گے۔امریکی صدر بل کلنٹن نے وزیر اعظم نواز شریف کو فون کر کے دھمکی دی کہ اگر پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے تو امریکہ پاکستان پر پابندیاں عائد کردے گا۔امریکی پابندیاں پاکستان کے لیے بہت سارے معاشی مسائل پیدا کرسکتی تھی۔ لیکن اس وقت کے پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے دباو کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ایٹمی دھماکے کرنے کی اجازت دے دی۔اجازت ملتے ہی چاغی کے گرد 100 کلومیٹر کا علاقہ پاک فوج نے گھیرے میں لے لیا۔چاغی کی فضا میں فائٹر جیٹ پرواز کرنے لگے۔میزائل نصب کر کے بھارت کے کئی شہروں کو نشانہ پر رکھ لیا گیا کہ اگر بھارت کوئی چھیڑخانی کرتا ہے تو اس کا فوری جواب دیا جاسکے۔اور پھر 28 مئی 1998 کو دوپہر 3 بج کر 16 منٹ پر چاغی کے پہاڑ 5 ایٹمی دھماکوں سے گونج اٹھے۔30 مئی کو ایک اور تجربہ کیا گیا۔
5 بھارتی ایٹمی دھماکوں کے بدلے میں پاکستان نے 6 ایٹمی دھماکے کر کے اپنے دفاع کو ناقابل تسخیر بنالیا۔اور یوں پاکستان دنیا کا ساتواں اور اسلامی دنیا کا پہلا ایٹمی ملک بن گیا۔اور یہ سب اللہ کے بعد ڈاکٹر عبدالقدیر کی بدولت ممکن ہوا تھا۔
مسلم دنیا میں اس واقعہ کا جشن اتنی خوشی سے منایا گیا کہ مٹھائیاں تک بانٹی گئیں۔لیکن کچھ طاقتوں کی جانب سے اسے اسلامی بم بھی کہا گیا۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اس اعزاز کو بڑی خوشی سے قبول کیا۔
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہا کہ میرا ایٹم بم کو بنانے کا مقصد پاکستانی عوام کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔میں چاہتا تھا کہ پاکستان دفاع کی طرف سے بے فکر ہو جائے اور معاشی ترقی پر دھیان دے۔لیکن اس خواب کی تعبیر ڈاکٹر عبدالقدیر خان اپنی زندگی میں نہیں دیکھ پائے۔
31 جنوری 2004 کو مشرف کی حکومت نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر یہ الزام لگایا کہ انہوں نے ایٹمی ٹیکنالوجی کو دوسرے ممالک میں منتقل کیا ہے۔کہا جاتا ہے کہ امریکہ کے ہاتھ ایسے ثبوت لگے تھے جن سے یہ ثابت ہوگیا تھا کہ پاکستان نے ایٹمی ٹیکنالوجی کوریا،ایران اور لیبیا کو فرخت کی۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو گرفتار کرلیا گیا۔4 فروری کو پاکستان ٹیلی ویژن پر انہوں نے اپنے بیان میں مشرف کے دباو میں آکر اس الزام کو قبول کیا۔اگلے دن پرویز مشرف نے انہیں معافی دینے کا اعلان کردیا لیکن 2009 تک ان کو نظر بند رکھا گیا۔گوکہ 2009 میں ان پر سے پابندیاں اٹھا لی گئیں تھیں مگر غیر اعلانیہ پابندی کا سامنا انھیں ساری زندگی کرنا پڑا۔مشرف دور میں تو ان پر اس قدر پابندیاں تھیں کہ اخبار اور ٹی وی پر ان کا نام آنا بھی بین تھا۔ڈاکٹر عبدالقدیر نے انتہائی سادہ زندگی بسر کی اس کے باوجود ان پر الزام لگا کہ سن کے بیرون ملک خفیہ اکاونٹس اور جائیدادیں ہیں۔کسی نے یہاں تک کہا کہ ان کے اسلام آباد میں 23 پلاٹس ہیں۔ان الزامات کے جواب میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ایک دفعہ انتہائی افسردگی سے کہا تھا کہ اس ملک میں جھوٹ بولنا اور دروغ گوئی عام ہے یہاں چور اور ڈاکوؤں پر الزام نہیں لگا کرتے۔جب یہ ثابت ہوگیا کہ ان الزامات میں کوئی صداقت نہیں تو ان کے لیے انتہائی قلیل پینشن کا آغاز کردیا گیا۔
2010 میں جیو نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے جب ان سے پوچھا گیا کہ “آپ کو زندگی میں کسی بات کا پچھتاوا ہے؟تو ان کا جواب پاکستانی قوم کے منہ پر طمانچہ تھا۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا کہنا تھا کہ مجھے پاکستانی قوم کے لیے کام کرنے کا پچھتاوا ہے۔بعض اوقات میں سوچتا ہوں مجھے کچھ اور کرنا چاہیے تھا۔مجھے تعلیم پر توجہ دے کر پروفیسر بن جانا چاہیے تھا۔ میرے پاس کافی پیشکشیں تھیں لیکن جب ہندوستان نے ایٹمی دھماکے کیے تو مجھے لگا کہ پاکستان کا وجود خطرے میں پڑگیا ہے۔لہذا میں سب کچھ چھوڑ کر پاکستان آگیا۔لیکن مجھے اس کا بہت برا صلہ ملا۔میں پاکستانی عوام سے ناراض نہیں ہوں،البتہ احسان فراموشوں سے ناراض ہوں۔
ایک محب وطن شخصیت کو گرفتار کرنا،پھر زبردستی ان سے ٹیلی ویژن پر معافی منگوانا پرویز مشرف کا ایک ایسا اقدام تھا جس کو تقریبا تمام پاکستانیوں نے انتہائی ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا۔ پاکستانی عوام کو یہ احساس تھا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ انتہائی نامناسب سلوک کیا گیا۔اس چیز کو لے کر کئی پاکستانی ان سے شرمندہ بھی تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی عوام نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ محبت تو کی۔انھیں اپنا محسن اور ہیرو تو مانا لیکن ان کے حق کے لیے کھڑی نہ ہوئی، ان کی بازیابی کے لیے کوئی تحریک نہ چلائی اور نہ ہی حکومت پر دباو ڈال کر مطالبہ کیا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر سے غیر اعلانیہ پابندی کا خاتمہ کیا جائے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ رکھا گیا یہ سلوک اس تلخ حقیقت کی عکاسی کرتا ہے بحیثیت قوم ہم انتہائی بے حس واقع ہوئے ہیں۔ہم کسی کا احسان تو مان سکتے ہیں،اس سے محبت کا دعوی بھی کرسکتے ہیں لیکن اسے وہ رتبہ اور وہ حیثیت نہیں دے سکتے جو اسکا حق ہے۔ہمارے پڑوسی ملک بھارت نے اپنے ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام کو اپنے ملک کا صدر بنادیا لیکن ہمارے اپنے ملک ہمارا ایٹمی سائنسدان آخری عمر میں عدالت سے گزارش کرتا ہے میری عمر 84 برس ہے اور آج بھی میرا حال یہ ہے کہ میں آزادانہ کسی سے مل نہیں سکتا، اپنے کالج اور یونیورسٹی کے طالب علموں سے مل نہیں سکتا۔لہذا میرے اوپر سے آزادانہ میل جول کی پابندی اٹھائی جائے۔ ہماری حکومت کا حال یہ ہے کہ وہ اپوزیشن پر کیچڑ اچھالنے میں اتنا مصروف رہی کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے جنازے پر شرکت بھی نہ کی۔پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے والے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی وفات کے موقعہ پر ایک روزہ سوگ کا اعلان بھی نہ کیا۔
البتہ تنظیم اساتذہ پاکستان کی طرف سے معلم آزادی کانفرنس کے آخر میں یہ قرارداد پیش کی گئی ہے جس میں حکومت پاکستان سے چند مطالبات کیے گئے ہیں:
1:ان کے نام کی یونیورسٹی قائم کی جائے۔
2:ان کے نام کی چئیر ہر یونیورسٹی میں قائم کی جائے۔
3:ملک کی کسی ایک اہم شاہراہ کو ان کے نام سے منسوب کیا جائے۔
4:ان کی خدمات کو پاکستان کے یکسان نصاب تعلیم میں شامل کیا جائے۔
میری حکومت پاکستان سے درخواست ہے کہ وہ ان مطالبات کو منظور کرے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان ایک ایسا کردار تھے جو تاریخ کے صفحات پر صدیوں تک جگمگانے کے لیے آئے تھے۔شاید ہم ان کے احسانات کو بھلا دیں لیکن تاریخ کبھی نہیں بھولے گی۔ان کے احسانات کو تاریخ ایک ورثہ کی طرح اپنے دامن میں سنبھال کر رکھے گی۔۔۔
ہمیں جو تمھارا سہارا نہ ملتا
بھنور میں ہی رہتے کنارہ نہ ملتا۔
میں اپنے اللہ کے حضور دعا گو ہوں کہ اللہ تعالی ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی مغفرت فرمائے اور ان کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے۔