پاکستان کی ملت اسلامیہ بلکہ خود پورا عالم اسلام اس وقت جس بحران سے دوچار ہے، وہ اخلاقی اور روحانی نوعیت کا ہے، اسی بحران سے دوسرے سارے المیے اور مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ جب معاشرے میں پاکیزہ اخلاقی اقدار سے بغاوت کی فضا عام ہوگی، نفسا نفسی کا رنگ غالب ہوگا، حب جاہ وحب مال کی نفسیات کا غلبہ ہوگا، لوٹ مار کے ذریعے دولت مند بننے کا رجحان عام ہوگا تو اہل اقتدار واہل سیاست سے لے کر عام سرکاری ملازم اور عام فرد تک ہر شخص دولت کی پرستش کے مرض میں مبتلا ہوگا۔ غریب افراد کی پرسان حالی کا نظام ختم ہوگا تو اس سے معاشرہ ہمہ گیر وہمہ جہت اخلاقی بحران ہی سے دوچار ہوگا۔ اس طرح کے معاشرے کو اچھے سے اچھا قانون اور بہتر سے بہتر عدالتی نظام بھی انارکی، خلفشار، بےچینی، انتشار اور فساد سے بچانے میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اس لئے کہ یہ اخلاقی بحران خالص روحانی نوعیت کے بحران سے تعلق رکھتا ہے، جب افراد کی روح بھوکی وپیاسی ہوگی، اسے کم سے کم بھی خوراک نہ ملے گی تو ظاہر ہے ایسے افراد پر نفسی قوتیں ہی غالب ہوں گی، جو مادی دنیا پر فریفتہ ہو کر، درندوں کی طرح ایک دوسرے کو مارنے اور چیر پھاڑ میں مصروف ہوں گی اور ملت اور ریاست کی تباہی کا موجب ہو گی۔
مغربی قوموں نے اپنے اخلاقی وروحانی بحران کو عقلیت کے ذریعے قانونی حکومت اور قومی اخلاق کے نام سے پُر کرنے کی کوشش کی ہے اور عام لوگوں کو نظام تعلیم کے ذریعے قومی اخلاق کی تربیت دے کر، ان کو معاشرے کے لیے ایک حد تک بہتر اور مفید بنانے کی کوشش کی ہے، اس لیے ان کے ہاں روحانی تسکین کا انتظام نہ ہونے کے باوجود انتظامی وعدالتی سطح پر انصاف موجود ہے اور ایک خود کار نظام ہے، جس کے تحت لوگوں کی روزہ مرہ زندگی کے سارے کام آسانی سے ہوجاتے ہیں اور انہیں رشوت اور دوسری پریشانیوں سے دوچار ہونا نہیں پڑتا، جب کہ ہمارے یہاں نہ تو قومی اخلاق کے نام سے کوئی نظام موجود ہے، نہ ہی نفسی قوتوں پر روح کی لطافت کو بیدار کرنے اور طاقتور بنانے کا انتظام موجود ہے، اس سلسلے میں ہمارے یہاں صدیوں سے جو خانقاہی نظام موجود تھا، وہ زوال پذیر ہے۔ معاشرے کے افراد کی بڑی اکثریت (اٹھانوے فیصد آبادی) اس خانقاہی نظام سے روحانی قوتوں کی بیداری کے سلسلہ میں رجوع ہونے کے لئے تیار ہی نہیں۔