انسان نے ذہانت اور محنت سے بے پناہ تمدنی ترقی کی ہے٬لیکن بے لاگ انسانی جذبات وخواہشات کی وجہ سے یہ تمدنی ترقی خطرے سے دوچار ہے٬ اخلاق کی ضرورت اس لئے ہوتی ہے٬ تاکہ خواہشات کو حداعتدال میں رکھا جا سکے٬ خواہشات اور جذبات حیوانوں میں بھی پائے جاتے ہیں٬ لیکن انسان کے جذبات حیوانوں سے زیادہ پیچیدہ اور سنگین ہیں٬ انسان چیونٹیوں اور شہد کی مکھیوں کی طرح مکمل طور پر اجتماعیت پسند نہیں٬ نہ ہی وہ شیر اور چیتوں کی طرح مکمل تنہا پسند واقع ہوا ہے۔
اس کے بعض جذبات اجتماعیت ایسے ہیں٬ جو اسے اجتماعیت کا حصہ بناتے ہیں٬ جب کہ اس کے بعض جذبات انفرادیت کی طرف لے جاتے ہیں٬ چونکہ اس میں اجتماعیت پوری طرح کارفرما نہیں٬ اس لئے اجتماعی زندگی کی بہتری اور اس کی حفاظت کیلئے اسے پاکیزہ اخلاقیات کی ضرورت لاحق ہے٬ جس کی بنا پر لوگوں کے سامنے کامیاب اور بہتر زندگی کا صحیح لائحہ عمل پیش کیا جا سکے٬ اس کے مقابلہ میں شہد کی مکھیوں کیلئے کسی اخلاقی نصب العین اور معاشرتی تعاون کے نظریات پیش کرنا غیرضروری ہے کیونکہ اجتماعیت ان کی زندگی میں پوری طرح موجود ہے۔ صحیح اخلاقیات کا مقصد یہی ہے کہ وہ انسان کی اندرونی زندگی یعنی داخلی تجربات اور نفسیاتی واردات کے ساتھ ساتھ اس کی خارجی زندگی میں بھی حداعتدال پیدا کرے۔
جس طرح مچھلی سمندر کی تہہ میں بیٹھتی ہے٬ اسی طرح نیک فرد اپنے قلب کی گہرائیوں میں اتر کر خوداحتسابی سے کام لیتا ہے٬ اس خود احتسابی سے اگر اسے کوئی چیز رضائے الہٰی کے خلاف نظر نہیں آتی تو پھر اسے کس چیز کا ڈ ر ہو ٬ وہ کھانا کھاتا ہے تو بھوک کیلئے نہیں٬ وہ گھر بنا کر رہتا ہے تو آرام کیلئے نہیں٬ اس کا ہر فعل اللہ کی رضا کیلئے ہوتا ہے ۔
ایسا فرد خوف وہراس سے محفوظ ہوتا ہے اسلام میں اللہ کی اس رضا جوئی کے نصب العین کو اتنی اہمیت حاصل ہےکہ لفظ اسلام کے معنیٰ ہی اللہ کے آگے گردن جھکا دینا ہے۔
بَلٰىۗ-مَنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلّٰهِ وَ هُوَ مُحْسِنٌ فَلَهٗۤ اَجْرُهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ ۪وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ۠ ۔ (ہاں٬ جس شخص نے اللہ کے آگے سر جھکا دیا اور وہ نیکوکار بھی ہے تو اس کا اجر اپنے رب کے پاس ہے٬ اس کو نہ کوئی خوف ہے نہ رنج وملال ۔
یہ نکتہ واضح ہونا ضروری ہے کہ جب تک اللہ٬ کائنات اور انسان کے متعلق بنیادی عقیدہ صحیح نہیں٬ تب تک کسی نظام اخلاق کی کامیابی سے چلنا ممکن نہیں٬ محض بیرونی عوامل سے اخلاقی قوانین لاگو کرنے سے پائیدار اصلاح نہیں ہو سکتی٬ان قوانین کا انسانی ضمیر کی گہرائیوں میں جاگزین ہونا ضروری ہے۔
آج انسانیت ہر طرح کے خلفشار کا شکار ہے٬جرائم کی بہتات ہوگئی ہے٬ فکری انتشار میں غیرمعمولی اضافہ ہوگیا ہے٬ چھوٹے سے چھوٹے مسائل پر ایک دوسرے سے تعلقات منقطع کرنے بلکہ تصادم کی فضا عام ہوگئی ہے٬ حالانکہ قوانین بھی موجود ہیں٬ انسانیت کے پاس قومی اخلاقیات کا ایک نظام بھی موجود ہے٬ اس کے باوجود انسانیت کا بے قراری کے انگاروں پر لیٹنے کا سبب یہ ہے کہ اخلاقیات کے پاکیزہ نظام کو انسانیت کے مزاج اور اس کے روح کا حصہ بنانے سے انکار کی روش غالب ہے٬ اس کی انسانیت جتنی بھی سزا بھگتے٬ کم ہے۔