کراچی میں پی ڈی ایم کے جلسے کی کئی خاص باتیں ہیں۔ کراچی میں مریم نواز استقبال سے لاہور اور کراچی فرق ختم ہو گیا اور اس شہر میں مریم چاروں صوبوں کی آواز کے نام سے متعارف ہوئیں۔ کراچی میں مسلم لیگ کی نئی قیادت کا یہ پہلا بڑا ٹاسک تھا جسے اس نے بڑی عمدگی سے حاصل کیا۔ نئی ٹیم میں فتاح اسمٰعل، ناصر الدین محمود اور علی اکبر گجر سمیت بعض دیگر نوجوان راہنما شامل ہیں۔
اس جلسے کے میزبان بلاول بھٹو زرداری جن کی سیاست کا مرکز اندرون سندھ میں ہے، کراچی کے مسائل پر آواز بلند کی اور اعلان کیے گئے کراچی پیکج کی عدم فراہمی پر وفاقی حکومت کو تنید کا نشانہ بنایا۔ یہ ایسی بات تھی جسے کراچی کے عوام خاص طور پر سننا چاہتے تھے۔
اس جلسے کی سب سے نمایاں بات مولانا فضل الرحمان کا خطاب ہے جس سے ثابت ہوا کہ وہ ایک بڑے مدبر اور مستقبل بین سیاست دان ہیں۔ کراچی میں ان کے خطاب میں پاکستان جیسی ریاست کو درپیش داخلی اور خارجی، تمام مسائل کا بھرپور تجزیہ اور ان کے حل کے لوازم موجود تھے۔
مولانا فضل الرحمن نے اپنے خطاب میں ملک کے اقتصادی معاملات کا بھرپور جائزہ پیش کیا۔ ملک کے تمام آئینی مسائل بشمول صوبائی خود مختاری جیسے بڑے مسائل کا جائزہ پیش کیا۔ ان کے خطاب کا اہم ترین نکتہ آزاد کشمیر کے آئین کی تیرھویں ترمیم سے متعلق تھا جو پاکستان کی اٹھارویں ترمیم کے بعد وجود میں آئی جس کے تحت آزاد کشمیر کی حکومت کے اختیارات میں اضافہ کیا گیا۔ انھوں نے انکشاف کیا کہ اس ترمیم کی واپسی کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے لیک یہ بھی خبر دار کیا کہ ایسا نہیں کرنے دیا جائے گا۔
کراچی جلسے کی ایک خاص بات حکومت کے اتحادی سردار اختر مینگل کااس سے خطاب تھا، حزب اختلاف کی احتجاجی تحریک کے ایک اہم جلسے میں حکومت کے اتحادی کی شرکت ایک غیر معمولی پیش رفت ہے۔
کراچی کا جلسہ مجموعی طور پر کامیاب رہا۔ اس جلسے سے میاں نواز شریف کا خطاب نہیں ہوا لیکن محمود خان اچکزئی کے علاوہ مولانا فضل الرحمٰن، بلاول اور مریم کی تقاریر دراصل ان ہی کی تقاریر کی بازگشت معلو ہوئیں تاہم اتحاد میں شامل جماعتوں کے درمیان ابھی مزید قربت کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔