آج کی خبر یہ ہے کہ عمران خان نے معراج محمد خان سے اپنے راستے جدا کیوں کیے تھے۔ وہ نسٹ گئے اور فواد چوہدری کے بنائے ہوئے اسٹنٹس کی نقاب کشائی کی۔ یہ اسٹنٹ بابرکت ثابت ہوئے کہ ان کی یادوں کی پٹاری کھل گئی اور انھوں نے بتایا کہ وہ (معراج محمد خان) صبح اٹھتے ہی سرمایہ داروں اور وڈیروں کو گالیاں دینا شروع کر دیتے تھے، بھلا بتایے، ان لوگوں کے بغیر کوئی نظام چل سکتا ہے؟
درست کہا، اس مخلوق کے بغیر کوئی کام نہیں چلتا، کبھی الیکشن سے پہلے اور کبھی اس کے بعد اس مخلوق کی ضرورت پڑ ہی جاتی ہے۔ خیر، یہ تجربہ جس کا ہے وہ جانے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اس موقع پر سرمایہ دار اور ان سے نفرت کرنے والے تو
یاد آئے لیکن مادر وطن کے ان بیٹوں کی یاد نہ آئی جنھوں نے گزشتہ روز دہشت گردوں سے مقابلے میں اپنی جانیں قربان کیں۔
کچھ فیصلوں سے، جن سے ملک کو نقصان پہنچے اور ان فیصلہ سازوں سے جن کے باعث کوئی خرابی ہو جایے، اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن ان سرفروشوں کو کیسے بھلایا جاسکتا ہے جو ملک و قوم پر اپنی زندگیاں قربان کردیں، حیرت ہوتی ہے کہ سرمایہ داروں کو ناگزیر جاننے والے کیسی ناگزیر باتیں بھول جاتے ہیں۔
دو دہائیاں بیتتی ہیں جب کارگل کا معرکہ ہوا، اس دوران میں ان سطور کے لکھنے والے کو اس محاذ کے آخری مورچے ذوالفقار پوسٹ پر جانے کا موقع ملا۔ یاد پڑتا ہے، اس جوان کا نام لیاقت تھا، میجر لیاقت جس نے پہاڑوں کی غاروں میں ہم صحافیوں کا استقبال کیا اور دیدہ و دل فرش راہ کر دیے۔ رات کے کسی پہر اس مسافر کی آنکھ کھلی تو یوں ہی پردہ اٹھا کر پڑوس کی غار میں نگاہ ڈالی تو اس لمبے تڑنگے میجر کو اپنے خالق کے حضور عاجزی کے ساتھ سر بسجود دیکھ پیار آگیا جس دیس کے بیٹے دن میں جان ہتھیلی پر لیے پھریں اور رات عبادت میں گزاریں، ان سے بہتر کون؟
لیکن کیا وجہ ہے کہ کوئی (کارگل کی صورت) انھیں موت کے منھ میں پھینک دیتا ہے اور کسی کو رات بیتے ہوئے واقعے کی یاد صبح نہیں آتی؟
ایسے حادثات کے بعد انہونیاں ہونے لگتی ہیں، بیٹیاں ڈی چوک پر رات گزارتی ہیں اور کوئی ان کی فریاد نہیں سنتا۔ حزب اختلاف اپنا حق اختلاف استعمال کرنا چاہے تو جیلوں کے دروازے کھل جاتے ہیں اور سڑکیں، راستے بند ہو جاتے ہیں۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ پیٹرول کی قیمت کم کر کے کچھ دنوں کے لیے مخلوق خدا کو آسانی فراہم کی جاسکتی ہے لیکن سنی ان سنی ہو جاتی ہے۔