گوجرانولہ کی سڑکوں پر “تبدیلی” ڈھیر ہوئی پڑی ہے۔ پنجاب کے اس بڑے صنعتی شہر میں متحدہ حزب اختلاف پی ڈی ایم اپنا پہلا جلسہ کرنے جارہی ہے۔
جمہوری رویہ تو یہی ہوتا کہ حکومت جیسا اعلان کرتی رہی ہے کہ اسے حزب اختلاف کے کسی جلسے سے کوفرق نہیں پڑتا، وہ کھلے دل کے ساتھ اسے جلسہ کرنے کی اجازت دیتی جیسے ماضی کی حکومتیں خود تحرک انصاف کو یہ آزادی دیتی رہی ہیں لیکن موجودہ حکومت نے اس جلسے کے ضمن میں انتہائی بچگانہ طرز عمل اختیار کیا۔ جلسے کی اجازت دینے میں بے انتہا تاخیر سے کام لیا گیا۔
حزب اختلاف کی جماعتوں خصوصاً ن لیگ کی طرف سے لگائے گئے بینر اور ہورڈنگ بھی اتار دیے گئے حالاں کہ ان بینروں وغیرہ کے لگانے کے لیے حکومت کی طرف سے ادائیگی کا جو مطالبہ کیا گیا تھا، اسے بھی پورا کر دیا گیا تھا۔ اس کے باوجود حکومت اس سلسلے میں اپنا دل بڑا نہیں کر سکی اور گزشتہ روز رات گئے تک بینرز اتارنے کاسلسلہ جاری رہا۔
اس طرز عمل نے حکومت کا چہرہ خوش نما نہیں بنایا بلکہ اس کا تاثر مزید خراب کیا ہے۔ ان دنوں پیر پنجر نامی کوئی بزرگ مسلسل عمران خان کے حق میں بات کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں ملک میں صدارتی نظام ہو گا اور صرف ایک جماعت کو کام کرنے کی اجازت ہوگی اور وہ پی ٹی آئی ہوگی۔ ہمیں نہیں معلوم کہ پیر پنجر کتنے باخبر ہیں اور روحانیت کے کس درجے پر فائز ہیں لیکن وہ جو کچھ فرما رہے ہیں، حکومت اسی راستے پر چلتی دکھائی دیتی ہے۔ گوجرانولہ کے واقعات نے ان کے انکشافات کی تائید کی ہے۔
پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور عوام کو آمرانہ حکومتوں سے نبرد آزما ہونے کا تجربہ بہت پرانا ہے، اگر عمران خان اس راستے پرچلیں گے تو سب سے زیادہ خسارے میں وہی رہیں گے۔ گوجرانولہ کی سڑکوں پر گزشتہ چند روز کے دوران جو کچھ ہوا ہے، جمہوریت اور اس حکومت کے اچھے مستقبل کی نشان دہی نہیں کرتا۔ حکومت کے غیر جمہوری رویوں کے بدنما آثار گوجرانولہ جیسے خوب صورت شہر کے گلی میں بڑی بدصورتی سے بکھرے پڑے ہیں۔ تبدیلی اس شہر کے گلی کوچوں میں بال کھولے رو رہی ہے۔