ADVERTISEMENT
جماعت اسلامی کی حکمت عملی کیا ہونی چاہئے؟ اس سوال پر سیاسی حلقوں میں بات چیت رہتی ہے حال ہی میں ایک دوست نے بھی اس موضوع پر تفصیل سے اظہار خیال کیا ہے۔ مجاہد ؐخٹک ایک سنجیدہ اور کثیرالمطالعہ صحافی ہیں، قومی امور پر وہ جب بھی اظہار خیال کرتے ہیں، اس میں اختلاف کے پہلو ہونے کے باوجود غور و فکر کے پہلو بھی ہوتے ہیں۔
حال ہی میں انھوں نے دریافت کیا ہے کہ جماعت اسلامی نے چوں کہ پانامہ لیکس میں آنے والے تمام ناموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا تھا، اس لیے پاکستانی عوام نے یہ سمجھا کہ وہ شریف خاندان کی حمایت کر رہے ہیں(ویسے یہ منطق بھی خوب ہے) یہی سبب ہے کہ جماعت کا بیشتر ووٹ تحریک انصاف کو مل گیا۔ اس وقت جماعت کے لب و لہجے میں تحریک انصاف کے لیے تلخی کا یہی سبب ہے۔ ان کی تحریر سے یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ جماعت اگر یہی بیانیہ برقرار رکھے گی تو مزید سکڑے گی کیونکہ عوام کی نگاہ میں یہ طرز عمل شریفوں کی حمایت ہے، اس لیے پسندیدہ نہیں۔ انھوں نے جماعت کو مشورہ دیا کہ اگر وہ عوامی سیاست میں واپسی کی خواہش مند ہے تو وہ شریف خاندان کو اپنا ہدف بنائے۔
اب یہ تو جماعت کی دانش پر ہے کہ وہ اس طرح کا کوئی مشورہ قبول کرتی ہے یا نہیں لیکن سیاست کی تاریخ اور سیاسی بیانئے کی روائت بتاتی ہے کہ اگر کسی بڑے سیاسی گروہ نے کوئی مخصوص بیانیہ اختیار کر رکھا ہو اور اسی بیانئے کو کوئی چھوٹا گروہ اختیار کر لے تو اس کا فایدہ بڑے گروپ ہی کو پہنچتا ہے۔ اس کی بہترین مثال پانامہ کیس ہے جس میں سراج الحق سب سے پہلے سپریم کورٹ گئے لیکن اس ساری تگ و دو کا سیاسی فائدہ تحریک انصاف کو پہنچا کیونکہ سیاست کے میدان میں یہ بیانیہ عمران خان کا تھا۔ لوگوں نے سراج الحق کے اس موقف کو عمران خان کی حمایت سمجھا اور یہ سوچا کہ عمران کے مؤقف کی تائید کرنی ہے تو عمران ہی کا ساتھ کیوں نہ دیا جائے۔ مجاہد خٹک کے مشورے پر عمل ہو گیا تو اس کا نتیجہ ایک بار پھر یہی نکلے گا۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جماعت اس حال کو پہنچی کیوں کر؟ اس سوال کا جواب بھی تاریخ سے لینا چاہئے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جب یہ تاثر پختہ ہو گیا کہ جماعت کا جھکاؤ جمہوری کے بجائے غیر جمھوری طاقتوں کی طرف ہو گیا ہے تو اس کے نتیجے میں اس کے ہمدردوں میں مایوسی پیدا ہوئی، وہ لوگ گھروں میں جا بیٹھے یا انھوں نے اپنے ووٹ کا حق دار کسی اور کو سمجھ لیا۔
یہ تاثر درست ہے کہ جماعت کے نوجوان وابستگان کی ایک بڑی تعداد تحریک انصاف کی طرف گئی ہے لیکن ان میں سے بیشتر وہ لوگ ہیں، نوے کی دہائی میں جن لوگوں کا مقابلہ ایم ایس ایف وغیرہ سے رہا ہے۔ یہ لوگ اس زمانے کی تلخی سے نجات حاصل نہیں کر پائے، لہذا فطری طور پر انھوں نے شریفوں کی مخالفت میں عمران کے پکڑے میں اپنا وزن ڈال دیا لیکن جماعت کے وہ لوگ جو بحالی جمہوریت کے سلسلے میں مولانا مودودیؒ کی جدوجہد سے آگاہ ہیں، وہ اب بھی طوہا و کرہاً جماعت ہی میں ہیں، گوشہ نشین ہو گئے ہیں یا پھر جمہوری قوتوں کے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں۔ جماعت کے سیاسی احیا کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے جمہوریت کے ساتھ غیر متزلزل وابستگی اور جمھوری راستے سے اسلامی نظریہ حیات کی بالادستی کے لیے جدوجہد اور وہ بھی مولانا مودودی کے افکار کی روشنی میں، یہی جماعت کی اصل پہچان ہے۔ جماعت اپنی یہ شناخت بحال کر لے گی تو اس کی عظمت رفتہ بحال ہو جائے گی۔