سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی طرف سے جارہانہ رویہ اختیار کرنے کے بعد جمعرات کو حکومت پہلی بار بامعنی طور پر متحرک دکھائی ہے جب کہ اداروں کی طرف سے جو آل پارٹیز کانفرنس کے بعد ردعمل کے اظہار میں میں کوئی ہرج نہیں سمجھتے تھے، خاموشی اختیار کر رہے ہیں۔
عمران خان نے ندیم ملک کو انٹرویو میں نواز شریف کی مسلم لیگ کی سی سی سی کے اجلاس میں تقریر کا براہ راست جواب دیا ہے۔ انھوں نے نواز شریف پر بھارت کے مقاصد کو تقویت پہنچانے کا عاید کیا اور سوال اٹھایا کہ ڈی جی آئی ایس آئی کسی وزیر اعظم کو مستعفی ہونے کا کیسے کہہ سکتے ہیں؟ عمران خان نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ اب فوج بدل چکی ہے۔
عمران خان نے خود متحرک ہونے کے علاوہ پارٹی کو متحرک کرنے کا فیصلہ بھی کیا تاکہ نواز شریف کے بڑھتے ہوئے دباؤ کا مقابلہ کرنے کے لیے حکمت عملی تیار کیں جاسکے۔ اطلاعات کے مطابق انھوں نے ادروں کے دفاع کی حکمت تیار کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔
حکومتی فریق کی طرف سے سامنے آنے والی یہ حکمت عملی دو جانب اشارہ کرتی ہے۔ اول یہ کہ وہ توقع کرتی ہے کہ آنے والے دنوں میں دباؤ میں مزید اضافہ ہو گا اور دوم، دفاعی اداروں نے اس سیاسی لڑائی میں خاموش رہنے کا فیصلہ کر لیا۔ سیاسی محاذ آرائی میں دفاعی اداروں کی خاموشی مستحسن ہے لیکن گزشتہ چند برس سے جاری سیاسی منظر نامے میں بھرپور جلوہ آرائی کے بعد موجودہ خاموشی شاید پورے طور پر وہ نتائج نہ دے سکے جس کی توقع کی جاسکتی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ حزب اختلاف کی طرف سے موجودہ حکمرانوں کو پر اپنا حریف قرار نے دینے کے اعلان کا مطلب غیر سیاسی فریق کو اپنا حریف قرار دینا ہے۔ اس بیانیے اگر ملک کا ایک بڑا طبقہ تسلیم نہ بھی کرے، اس کے باوجود اس کے اثرات صورت حال پر بہت گہرے ہوں گے۔
شاید اسی قسم حالات کے پیش نظر عمران خان نے دھمکی دی ہے کہ اگر یہ سڑکوں پر نکلے تو وہ ایک کر کے انھیں جیلوں میں ڈالتے چلے جائیں گے۔
حزب اختلاف سڑکوں پر نکلتی ہے تو یہ اس امر کا اعلانیہ اظہار ہو گا کہ وہ کشتیاں جلا کر نکلی ہے۔ لہذا وہ گرفتاریوں کو اپنے راستے رکاوٹ سمجھنے کے بجائے اس اپنے مقاصد کی تکمیل کا ذریعہ سمجھے گی۔ حقیقت بھی یہی ہوگی کہ بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کی صورت میں حزب اختلاف کے بجائے حکومت زیادہ مشکل میں آئے گی۔ اس صورت حال کا موازنہ 2014ء سے کیا جاسکتا ہے جو دھرنے والے فریق کے مقابلے میں زیادہ دباؤ کا شکار تھی۔
حرف آخر یہ کہ حزب اختلاف کی تحریک سے نمٹنے کے لیے روایت سے ہٹ کوئی جرات مندانہ قدم اٹھانے کی ضرورت ہے کیونکہ اب ماحول بدل چکا ہے۔ بدلے ہوئے ان حالات میں ماضی کا طرز عمل کامیاب ہوسکتا ہے اور نہ خوفزدہ کرنے کی کوئی حکمت عملی۔