یہ 20 ستمبر 1958 کی بات ہے۔ پاکستان کے پہلے صدر میجر جنرل سکندر مرزا نے ایک آرڈیننس جاری کیا جس کے تحت سرکاری وکلا کے لیے یہ گنجائش پیدا ہو گئی کہ حکومت کی ملازمت جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ اسمبلی کی رکنیت بھی برقرار رکھ سکیں گے۔
یہ قانون کتنا اہم اور کتنا متنازع تھا، اگلے ہی روز جب ڈھاکہ میں مشرقی پاکستان اسمبلی کا اجلاس ہوا، اس کا اندازہ ہو گیا۔
اجلاس شروع ہوتے ہی حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کے درمیان کشیدگی پیدا ہو گئی جس کی ابتدا عمومی روایت کے مطابق نعرے بازی سے ہوئی جو تھوڑی ہی دیر میں ہلڑ بازی اور دھینگا مشتی میں بدل گئی۔
اجلاس شروع ہوا تو مسلم لیگ کے پارلیمانی لیڈر ہاشم الدین نے پوائنٹ آف آرڈر پر یہ نکتہ اٹھایا کہ ایوان میں چھ اجنبی افراد موجود ہیں۔ انھوں نے سپیکر عبدالحکیم سے مطالبہ کیا کہ انھیں ایوان سے نکالا جائے کیونکہ رولز آف بزنس کے مطابق اسمبلی کی کارروائی کے دوران ایوان میں کسی غیر رکن کی موجودگی کی گنجائش نہیں ہے۔
ہاشم الدین کا اشارہ عوامی لیگ کے ان چھ اراکین اسمبلی کی طرف تھا جنھیں صوبائی حکومت نے چند ہی روز قبل سرکاری وکیل تعینات کیا تھا۔ حزب اختلاف اس معاملے کو الیکشن کمیشن میں لے گئی جس نے صورتحال اور قواعد کا جائزہ لینے کے بعد ان اراکین کو نااہل قرار دے کر اُن کی اسمبلی رکنیت ختم کر دی تھی۔
یہی وہ چھ افراد تھے جن کی رکنیتیں برقرار رکھنے کے لیے صدر مملکت نے آرڈیننس جاری کیا تھا۔ اس نکتہ اعتراض کے جواب میں سپیکر نے ایوان کو بتایا کہ صدر مملکت کی طرف سے آرڈیننس کے اجرا کے بعد صورتحال بدل چکی ہے، جس پر حزب اختلاف کی طرف سے مؤقف اختیار کیا گیا کہ یہ آرڈیننس مؤثر باماضی نہیں، جس پر سپیکر نے رولنگ دے کر مسئلہ حل کرنے کا اعلان کیا لیکن رولنگ کے اجرا سے قبل ایوان ہنگامہ آرائی کا شکار ہو گیا۔
فقیر ایپی، آزادی کا مجاہد، غدار اور ہیرو
جب گوادر بھارت کا حصہ بنتے بنتے رہ گیا
نواب آف بھوپال: جب ایک انڈین شہری وزیر اعظم بننے پاکستان پہنچے | فاروق عادل
اس دوران میں حزب اقتدار کے اراکین سٹیج پر چڑھ گئے اور انھوں نے سپیکر کی کرسی اٹھا کر ایوان میں پھینک دی، اسمبلی کا نشان توڑ دیا اور قومی پرچم اتار پھینکے گئے۔
ایوان میں موجود صحافیوں کے مطابق اس کارروائی کی قیادت عوامی لیگ کے سیکریٹری جنرل شیخ مجیب الرحمٰن کر رہے تھے۔ قومی پرچم کی توہین کے بھی مبینہ طور پر وہی مرتکب ہوئے تھے۔
ہنگامہ آرائی کے دوران اسمبلی کے سپیکر عبدالحکیم زخمی ہو گئے جنھیں ایوان سے ہسپتال منتقل کردیا گیا۔ ہنگامہ شروع ہوا تو صورتحال پر قابو پانے کے لیے پولیس ایوان میں داخل ہوئی لیکن عینی شاہدین کے مطابق پولیس کے افسروں اور جوانوں کو مارا پیٹا گیا جس پر وہ ایوان سے باہر چلے گئے۔

،تصویر کا ذریعہBANGLAPEDIA
اخبارات نے لکھا کہ پولیس کس کی اجازت سے ایوان میں داخل ہوئی، یہ واضح نہیں ہو سکا تاہم قائد حزب اختلاف ابو حسین سرکار نے انکشاف کیا کہ پولیس سپیکر کی ہدایت پر ایوان میں داخل ہوئی تھی لیکن خونریز ہنگامہ آرائی کے باوجود وزیر اعلیٰ کے حکم پر اسے ایوان سے باہر نکال کر ہنگامہ کرنے والوں کو کھلی چھٹی دے دی گئی۔
سپیکر نے ہنگامہ آرائی کے دوران اجلاس ملتوی کرنے کا اعلان کر دیا تھا لیکن اجلاس اس کے باوجود جاری رہا۔
سپیکر کے ایوان سے باہر جانے کے بعد ڈپٹی سپیکر شاہد علی نے کرسیِ صدارت پر بیٹھنے کی کوشش کی جسے حزبِ اختلاف نے ناکام بنا دیا۔ وہ سپیکر کی کرسی پر نہ بیٹھ سکے تو انھوں نے قائد ایوان کی نشست سنبھال کر سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد پڑھ دی اور اس کی منظوری کا اعلان کر دیا۔ یوں چھ اراکین اسمبلی کی نااہلی کے تنازع کے بعد ایوان ایک اور تنازع کا شکار ہو گیا۔
اس واقعے سے پہلے بھی صوبہ مشرقی پاکستان کی حکمراں جماعت اور سپیکر کے درمیان کشیدگی کے اشارے مل رہے تھے۔ یہ اختلافات زیادہ کھل کر اس وقت سامنے آئے جب الیکشن کمیشن کی طرف سے نااہل قرار دیے جانے کے بعد سپیکر نے عوامی لیگ کے چھ اراکین کی ایوان ہی نہیں اسمبلی کے احاطے میں بھی داخلے پر پابندی عائد کر دی۔
لیکن اخباری اطلاعات کے مطابق اس سے بھی چند روز پہلے یعنی 17 ستمبرکو صوبائی حکومت نے ایک حیرت انگیز اعلان کیا تھا جس کے مطابق سپیکر کے اختیارات میں کمی کر دی گئی تھی اور ان کا یہ اختیار سیکریٹری اسمبلی کو تفویض کر دیا گیا تھا کہ اگر سپیکر کے خلاف عدم اعتماد کی کوئی قرارداد آتی ہے تو وہ سپیکر کو اعتماد میں لیے بغیر اسے ایجنڈے میں شامل کرنے کے مجاز ہوں گے۔
21 ستمبر کے ہنگامے کے بعد کشیدگی میں مزید اضافہ ہو گیا اور عوامی لیگ نے سپیکر پر دو الزامات عائد کیے۔ پہلا الزام پرانے الزامات کی بازگشت تھا کہ وہ غیر جانب داری سے کام لینے کے بجائے حزب اختلاف کا ساتھ دیتے ہیں۔

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
ان پر دوسرا الزام یہ عائد کیا گیا کہ ان کا دماغی توازن بگڑ چکا ہے جس کے سبب وہ ایوان کی کارروائی چلانے کے اہل نہیں رہے، لہٰذا انھیں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ان کے منصب سے ہٹانا ضروری ہو گیا ہے۔
عوامی لیگ نے ایک بیان میں انھیں گرفتار کرنے کا ارادہ بھی ظاہر کیا، اخباری اطلاعات کے مطابق انھیں گرفتار کرنے کی تیاری بھی شروع کر دی گئی۔ ان ہی دنوں یہ اطلاعات بھی سامنے آئیں کہ حکومت کی طرف سے سپیکر کو حاصل مراعات بھی واپس لے لی گئی ہیں۔
اس کے ردعمل میں حزب اختلاف کی طرف سے کہا گیا کہ حکمراں عوامی لیگ رولز آف بزنس اور پارلیمانی روایات کو روند کر ڈپٹی سپیکر شاہد علی کو سپیکر بنانا چاہتی ہے لیکن قانونی پوزیشن یہ ہے کہ سپیکر اس وقت تک اپنے منصب پر برقرار رہیں گے جب تک ایوان میں رائے شماری نہیں ہو جاتی۔ حزب اختلاف نے دھمکی دی کہ عوامی لیگ نے اگر حکومتی طاقت کے بل بوتے پر ایسا کرنے کی کوشش کی تو نتیجہ خون خرابے کی صورت میں نکلے گا۔
عوامی لیگ اس معاملے پر اتنی حساس کیوں تھی؟
اس کا اندازہ ایوان کی پہلے روز کی کارروائی کے دوران ہی ہو گیا تھا جب حزب اختلاف کے رکن ہاشم الدین نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے چھ ارکان کی نااہلی کے بعد عوامی لیگ اکثریت سے محروم ہو چکی ہے اور اب اس کی حکومت کا قائم رہنا ممکن نہیں، ایک روز قبل جب آرڈیننس کے اجرا کی خبریں شائع ہوئی تھیں، اس موقع پر بھی یہ اطلاع سامنے آئی تھی کہ صدر مملکت نے وفاق میں اپنی اتحادی جماعت کی صوبائی حکومت کو برقرار رکھنے کے لیے جلد بازی میں یہ قانون جاری کیا ہے۔
اس صورتحال نے حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان پہلے سے موجود کشیدگی میں مزید اضافہ کر دیا۔
معاملات جب اس طرح قابو سے باہر ہو گئے تو وزیر اعلیٰ عطاالرحمٰن اور قائد حزب اختلاف ابو حسین سرکار نے گورنر سلطان الدین احمد سے ملاقات کی۔ گورنر کا تعلق بھی اگرچہ عوامی لیگ ہی سے تھا لیکن درمیان کا راستہ تلاش کر لیا گیا اور فیصلہ کیا گیا کہ جب تک اس تنازع کو سلجھا نہیں لیا جاتا سپیکر اور ڈپٹی سپیکر دونوں ایوان میں نہیں آئیں گے۔
حکومت اور صوبائی اسمبلی کے سپیکر کے درمیان اس کشمکش کے نتیجے میں ایوان کی کارروائی مکمل طور پر معطل ہو کر رہ گئی۔ تصادم سے اگلے روز سپیکر اور ڈپٹی سپیکر دونوں ایوان میں نہیں تھے، اس لیے پینل آف چیئرمین کے رکن عزیز الحق کی زیر صدارت اجلاس ہوا جو صرف دس منٹ تک جاری رہ سکا۔ اس سے اگلے روز بھی صورتحال مختلف نہ تھی۔
اس کشمکش میں تین دن گزر گئے جب کہ چوتھا دن فیصلہ کُن ثابت ہوا۔ سپیکر عبدالحکیم جیسے ہی اپنے دفتر میں پہنچے، پولیس نے اسے گھیرے میں لے لیا۔ دفتر میں محصور ہونے کی وجہ سے سپیکر اجلاس کا وقت شروع ہونے کے باوجود ایوان میں نہ پہنچ سکے، اس طرح ان کی عدم موجودگی میں ڈپٹی سپیکر شاہد علی کو اجلاس کی صدارت کرنے کا موقع مل گیا۔
اجلاس شروع ہونے پر قائد حزب اختلاف نے سپیکر کو یرغمال بنا کر ایوان میں داخل ہونے سے روکنے کی مذمت کی اور ڈپٹی سپیکر شاہد علی سے مطالبہ کیا کہ وہ سپیکر کی کرسی خالی کر دیں لیکن ڈپٹی سپیکر نے حزب اختلاف کے مطالبے کو نظرانداز کرتے ہوئے کارروائی جاری رکھی جس پر حزب اختلاف نے احتجاج شروع کردیا جو جلد ہی ہنگامے میں بدل گیا۔
اسی دوران کسی نے ایوان میں سے پیپر ویٹ ڈپٹی سپیکر کو دے مارا جس سے ان کے چہرے پر زخم آئے اور منھ سے خون جاری ہو گیا۔ ہنگامہ آرائی کے دوران حکومت اور اپوزیشن کے بہت سے ارکان باہم گھتم گتھا ہو گئے جس سے ڈپٹی سپیکر شاہد علی کے علاوہ عزیز الحق، موہن میاں، پنیر الدین اور عبداالطیف بسواس زخمی ہو گئے۔
جس دوران ایوان کے اندر ہنگامہ آرائی جاری تھی، ایوان کے باہر پولیس نے لاٹھی چارج کر دیا جس سے دوسروں کے علاوہ حزب اختلاف کے کئی اراکین بھی زخمی ہوگئے حالانکہ ایک روز قبل گورنر کے ساتھ ملاقات میں فریقین کے درمیان طے پایا تھا کہ اسمبلی کے احاطے میں کوئی غیر متعلقہ شخص داخل نہیں ہو گا، صرف ارکان اسمبلی ہی کو داخلے کی اجازت ہوگی اور وہ بھی کارڈ دکھا کر لیکن اس کے باوجود اسمبلی کے احاطے میں بھی غیر معتلق افراد کی بڑی تعداد موجود تھی۔

،تصویر کا ذریعہBANGLAPEDIA
مشرقی پاکستان کے ڈپٹی سپیکر شاہد علی جو سپیکر کا منصب سنبھالنے کے لیے بے چین تھے، دو روز تک بے ہوش رہنے کے بعد 26 ستمبر 1958 کو انتقال کر گئے۔ یوں اقتدار پر قابض رہنے کی یہ بے رحمانہ لڑائی جس میں سیاسی، جمہوری اور پارلیمانی، تمام روایات کو پامال کر دیا گیا تھا اپنے افسوسناک انجام کو پہنچی۔
ایوان کے اندر ’سپیکر‘ کا قتل پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک عبرت ناک واقعے کے طور پر اب بھی یاد کیا جاتا ہے لیکن اس کی تفصیلات سے عدم واقفیت کی وجہ سے مرنے والے کو ہمیشہ سپیکر کہا گیا جبکہ اس افسوسناک واقعے کی وجوہات کبھی زیر بحث نہ آ سکیں۔
کیا ڈپٹی سپیکر شاہد علی ایوان میں زخمی ہونے کی وجہ سے ہی ہلاک ہوئے؟
مشرقی پاکستان کے جنرل آفیسر کمانڈنگ میجر جنرل امراؤ خان اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ وہ اپنی یاداشتوں ’ایک جرنیل کی سرگزشت‘ میں دعویٰ کرتے ہیں کہ شاہد علی کو کوئی مہلک زخم نہیں آیا تھا۔
ان کے علاج کے لیے ایک میڈیکل بورڈ قائم کیا گیا جس میں دو پاکستانی ڈاکٹر شامل تھے لیکن عوامی لیگ کے رہنما شیخ مجیب الرحمٰن نے کلکتہ سے ایک ہندو ڈاکٹر کو مدعو کر لیا تھا، اسے بھی بورڈ میں شامل کر لیا گیا۔
بورڈ نے پورے اتفاق سے اعلان کیا کہ شاہد علی کو کوئی ایسا زخم نہیں لگا جو ان کے لیے کسی خطرے کا باعث بن سکے۔ ان کے جسم کی ہڈیوں، خاص طور پر پسلیوں کے ایکسرے کیے گئے جس سے معلوم ہوا کہ ان کے جسم کی تمام ہڈیاں درست حالت میں تھیں۔ اُن کے مطابق وہ چونکہ ذیابطیس کے مریض تھے، اس لیے سنبھل نہ سکے اور بے ہوشی کی حالت میں انتقال کر گئے۔

مرحوم شاہد علی کی ہڈیاں کیسے ٹوٹیں؟
اس سوال کا ایک جواب تو جنرل امراؤ یہ دیتے ہیں کہ پوسٹ مارٹم سے قبل لاش رات بھر شیخ مجیب کے لوگوں کی تحویل میں رہی، اس دوران لاش کے ساتھ کیا ہوا؟ کوئی نہیں جانتا۔
ایک اور انکشاف انھوں نے یہ کیا ہے کہ مارشل لا کے نفاذ کے بعد ایک کرنل کی زیر نگرانی میں تحقیقات کرائی گئیں تو معلوم ہوا کہ شاہد علی کی پسلیاں موت اور پوسٹ مارٹم کے درمیانی عرصے میں توڑی گئی تھیں، اسی لیے شیخ مجیب پوسٹ مارٹم پر اصرار کر رہے تھے تاکہ مخالفین کے خلاف قتل کا مقدمہ قائم کیا جا سکے۔
اس مقدمے کے ضمن میں جنرل امراؤ خان نے ایک اور دلچسپ انکشاف بھی کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ شاہد علی کے مقدمہ قتل میں کرشک سرامک پارٹی کے دو ارکان اسمبلی یوسف علی اور عزیز الحق کو نامزد کیا گیا لیکن جیسے ہی سنہ 1958 کا مارشل لا نافذ ہوا، یہ الزام واپس لے لیا گیا۔
ایسا کیوں کیا گیا اس سوال کا جواب جنرل امراؤ نے اپنی یاداشتوں میں نہیں دیا البتہ ایک اور دلچسپ بات یہ بتائی ہے کہ بعد میں جسٹس اسیر کی زیر قیادت اس واقعے کی عدالتی تحقیقات کرائی گئیں تو ٹربیونل نے اس تمام تر واقعے کی ذمہ داری شیخ مجیب پر عائد کی۔
جنرل امراؤ کے خیال میں ان حالات میں یہ ایک جرات مندانہ فیصلہ تھا کیونکہ بقول جنرل صاحب اس زمانے میں عوامی لیگ کے خلاف کوئی بات کہنا موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں فیصلہ کن حیثیت ادا کرنے والے اس واقعےکی ذمہ داری صرف جنرل امراؤ نے ہی شیخ مجیب پر نہیں ڈالی بلکہ اس زمانے کے اخبارات میں شیخ مجیب ہی کو یہ کہتے ہوئے اس واقعے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے کہ اگر عوامی لیگ کو ایوان میں اکثریت حاصل ہوتی تو وہ یوں تشدد سے کام نہ لیتی۔
اس پس منظر میں اس واقعہ کے بارے میں شیخ مجیب کا مؤقف سامنے آنا ضروری ہو جاتا ہے۔
26 ستمبر 1958 کو جس روز شاہد علی کا انتقال ہوا، شیخ مجیب کا ایک بیان سامنے آیا جس میں انھوں نے تشدد کے ان واقعات کی ذمہ داری حزب اختلاف پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ شاہد علی نے پارلیمانی جمہوریت کی سربلندی کے لیے جان دی ہے جس پر ہم انھیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔
سنہ 2013 میں ان کی یاداشتیں ’ادھوری یادیں‘ کے عنوان سے شائع ہوئیں، شیخ صاحب نے اس واقعے کو اپنی یادوں کا حصہ بنانا مناسب نہیں سمجھا۔
یہ واقعہ پاکستانی سیاست پر کس طرح اثر انداز ہوا؟
جنرل امراؤ نے اسے اونٹ کی کمر پر آخری تنکا قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ شاہد علی کے قتل کے بعد جنرل ایوب کے صبر کا پیمانہ چھلک پڑا اور وہ مارشل لا لگانے پر مجبور ہو گئے۔ جنرل ایوب خان نے بھی اپنی یاداشتوں ’جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی‘ میں اس واقعے کو مارشل لا کے جواز کے طور پر پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اسمبلی نے سپیکر کو پاگل قرار دے دیا اس کے بعد دنگا فساد ہوا جس میں ڈپٹی سپیکر کو جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔
وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اسی طرح کے واقعات تھے جن کی وجہ سے لوگ اُن سے تو ملتے اور مطالبہ کرتے کہ آپ کوئی قدم کیوں نہیں اٹھاتے؟ ایوب خان نے اپنی کتاب میں اسپیکر کا ذہنی توازن خراب ہو جانے کے تعلق سے عوامی لیگ کے مؤقف کو ہی کو اختیار کیا ہے، اس تنازعے کی باقی تفصیلات کو نظر انداز کر دیا ہے۔
انھوں نے ایسا کیوں کیا؟ اس کا کوئی سبب انھوں نے بیان نہیں کیا۔ بعد کے مصنفین، خاص طور پر پاکستان کے ممتاز قانون داں حامد خان نے بھی اپنی کتاب ’کانسٹیٹیوشنل اینڈ پولیٹیکل ہسٹری آف پاکستان‘ میں صرف اتنا لکھنے پر ہی اکتفا کیا ہے کہ سپیکر پاگل ہو گئے تھے۔
یہاں ایک نکتہ نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہ اگر سپییکر کے ذہنی توازن کے بگڑنے والی بات میں کچھ وزن ہوتا تو ذرائع ابلاغ بھی اسے رپورٹ کرتے۔ اس واقعے میں عوامی لیگ کے الزام کے طور پر تو یہ بات ضرور سامنے آئی لیکن ایک امر واقعہ کے طور پر اس کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔ اسی طرح مشرقی پاکستان کے جی او سی نے بھی اپنی یاداشتوں میں اس کا ذکر نہیں کیا جس سے اس پراپیگنڈے میں وزن باقی نہیں رہتا۔

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
سنہ 1958 کے مارشل لا کے نفاذ کے سلسلے میں ایوب خان سے پہلے میجر جنرل اسکندر مرزا کا نام آتا ہے۔
اپنے اتحادیوں کو خوش کرنے کے لیے سرکاری ملازمین کو اسمبلی کی رکنیت کا اہل قرار دینے کا آرڈیننس جاری کرنے والی اس شخصیت نے اپنی یاداشتوں ’پاکستان کے پہلے منتخب صدر اسکندر مرزا کی یاداشتیں‘ میں مارشل لا کے نفاذ کا درج ذیل جواز پیش کیا:
’بنگال میں جب ستمبر میں صوبائی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا گیا تو ڈپٹی سپیکر پر حملہ ہوا اور وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہو گئے، (وزیر اعظم) سر فیروز خان نون کچھ بھی نہ کرسکے تھے۔‘
یوں، گویا انھوں نے بھی اس خون ریزی کی ذمہ داری وزیر اعظم پر عائد کر کے مارشل لا کے نفاذ کو جائز قرار دے دیا۔
(یہ تحقیقی مضمون بی سی سی اردو [bbc.com/urdu] پر بھی شائع ہو چکا ہے۔