• Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں
No Result
View All Result
10 °c
Islamabad
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • شوبز
  • کھیل
  • کھانا پینا
  • سیاحت
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • شوبز
  • کھیل
  • کھانا پینا
  • سیاحت
No Result
View All Result
آوازہ
No Result
View All Result
Home محشر خیال فاروق عادل کے خاکے

دماغ کا کام دل سے لینے والے سراج منیر

صلاح الدین صاحب نے عینک اتار کر میز پر رکھتے ہوئے کہا، بلا کا ذہین ہے یہ شخص۔ لحظہ خاموش رہے پھر کہا، سمجھ میں نہیں آتا کہ علم وادب کی دنیا سے اس کی مراجعت سیاست کی طرف کیوں ہو گئی؟ | فاروق عادل کے قلم سے

ڈاکٹر فاروق عادل by ڈاکٹر فاروق عادل
September 26, 2021
in فاروق عادل کے خاکے
0
دماغ کا کام دل سے لینے والے سراج منیر
Share on FacebookShare on TwitterShare on LinkedinShare on Whats app
ADVERTISEMENT
Ad (2024-01-27 16:32:21)
  • دماغ کا کام دل سے لینے والے

  • سراج منیر مرحوم سے ملاقات کا تودل دعویٰ نہیں البتہ دو ایک بار ان کی تقریر اور کچھ نجی وہ غیر نجی محفلوں میں انھیں سننے کا اتفاق ہوا۔ ہم لوگ میڑک کر چکے تھے اور انٹرمیڈیٹ میں ہاتھ پاوں مار رہے تھے۔ اشفاق احمد کاشف فیصل آباد میں ہوتے تھے اور میں سرگودھا میں، اس کے باوجود دانت کاٹے کی دوستی تھی۔ محمد حمید شاہد سے بھی دوستی تھی لیکن وہ عمر میں کچھ بڑے تھے اور علم میں بڑے تو تھے ہی اس لیے آوارہ گردی کے منصوبے بناتے ہوئے ہم انھیں خبر کرنا مناسب نہ سمجھتے۔ گرمیوں کی چھٹیاں ہو چکی تھیں۔لاہور یاترا کے لیے ماحول ساز گار تھا، بس پھر کیا تھا، پروگرام بن گیا اور یوں ہم لاہور جا پہنچے۔ لاہور میں ہم لوگ سارا دن لور لور پھرتے لیکن شام کو پاک ٹی ہاؤس جا پہنچتے یا چائنیز لنچ ہوم۔ کچھ ایسا یاد پڑتا ہے کہ وہ شام ہم نے چائنیز لنچ ہوم میں گزاری جہاں ڈاکٹر تحسین فراقی کے حلقہ ادب کا اجلاس تھا۔

یہ اجلاس اس ریسٹورنٹ کے تہہ خانے میں ہوا کرتا تھا۔ یہ چائے خانہ ہے تو شاہراہ قائد اعظم (مال روڈ) پر لیکن اس کا محل وقوع اس شاہراہ کے دیگر حصوں سے خاصا مختلف ہے کیونکہ سڑک اور عمارت کے درمیان لوہے کے جنگلے والا ایک قطعہ سبز حائل ہے پھر اس قطعے کے بعد ایک راہداری سی ہے جو پاک ٹی ہاؤس سے لے کر انار کلی بازار تک پھیلی ہوئی ہے جس پر اس زمانے میں ادیب شاعر سیگریٹ کے سوٹے لگاتے یہاں سے وہاں مٹر گشت کیا کرتے۔

ان مناظر نے اس قطعے کو سکون کی ایک ایسی کیفیت عطا کردی تھی جس کی یاد آج بھی ذہن کو طراوت بخشتی ہے۔ یوں لگتا تھا کہ قدرت نے اس پر سکون مقام کا نقشہ بڑے پیار سے مرتب کیا ہوگا۔ اب بھی میں جب کبھی لاہور جاتا ہوں تو گاڑی سے گردن باہر نکال کر دیر تک اس مقام کو دیکھا کرتا ہوں۔ اس دور کی یاد آئی تو یاد ماضی نے یلغار کی اور یہ قصہ تھوڑا طویل ہو گیا۔ خیر، لوگ باگ اس چائے خانے میں داخل ہوتے تو ناک کی سیدھ تہہ خانے کی سیڑھیوں کا رخ کرتے جن کی دیوار جیسی ریلنگ ادیبوں کے نوٹس بورڈ کا کام دیتی۔ اسی نوٹس بورڈ سے معلوم ہوا کہ آج یہاں سراج منیر مضمون پڑھنے والے ہیں۔ انھوں نے کیا مضمون پڑھا، کس موضوع پر پڑھا، یہ تو بالکل یاد نہیں لیکن تین باتیں ایسے یاد ہیں جیسے یہ کل ہی کی بات ہو۔

سیکریٹری حلقہ نے جب انھیں مضمون پڑھنے کی دعوت دی تو خاموشی چھا گئی گویا سانس روک لیے گئے۔ لوگوں کا سانس اس وقت ٹوٹا جب مضمون ختم ہوا۔ مضمون مکمل ہوا تو اس پر بحث شروع ہو گئی۔ مجھے یاد ہے، اجلاس کے اس حصے میں تھوڑی دیر پہلے کی خاموشی کی ساری کسر نکل گئی لیکن حیرت اس بات پر ہوئی کہ یہ لاوا جس تیزی سے ابلا تھا، اسی تیزی سے رک بھی گیا۔ میں نے دیکھا، سراج منیر اس تند و تیز بحث کے دوران بیٹھے مسکراتے رہے۔

تیسری یاد کا تعلق اس وقت سے ہے جب یہ اجلاس ختم ہوا، عطا الحق قاسمی لپک کر صاحب مضمون کی طرف بڑھے اور مسکراتے ہوئے کہا،

”سراج! ایہہ مضمون میرے حوالے کر دے“۔

Ad (2024-01-27 16:31:23)

اور سراج منیر نے تہہ کیے ہوئے صفحات قاسمی صاحب کے حوالے کر دیے اس کے بعد ایک قہقہہ لگایا۔ مجھے بالکل یاد نہیں کہ سراج منیر اس وقت سگرٹ پی رہے تھے یا نہیں یا وہ سگریٹ پیتے بھی تھے یا نہیں لیکن ان کے بے تکلف اور بلند آہنگ قہقہے کے دوران جب میں نے ان کے چہرے کی طرف دیکھا جہاں ان کے گہرے سانولے ہونٹوں کے بیچ چمکتے ہوئے دانتوں کے ساتھ مختصر سی جھلک مسوڑھوں کی بھی دکھائی دے گئی اور میں نے طے کر لیا یہ شخص بلا کا سگریٹ نوشی ہے۔

اللہ مجھے معاف کرے، یہ لکھتے ہوئے مجھے کسی قدر شرمندگی بھی ہو رہی ہے کہ اس روز میرے ذہن میں یہ خیال کیوں آیا تھا، شاید اس وجہ سے کہ اس قہقہے میں یاس کی ایک عجیب، بے نام سی جھلک مجھے دکھائی دی، ایک ایسی نادرجھلک جو قدرت کی مہربانی سے کسی داستان گو کو اس کی زندگی میں بس ایک آدھ بار ہی دکھائی دیتی ہے۔

سراج منیر سے متعلق دوسری یاد کا تعلق دفتر تکبیر سے ہے جہاں وہ صلاح الدین صاحب سے ملنے آئے تھے۔ اس زمانے کو نوے کی دہائی کی سیاست کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے جب بے نظیر بھٹو وزیراعظم اور میاں نواز شریف وزیراعلیٰ پنجاب ہوا کرتے تھے۔ سیاست میں تلخی تھی اور برداشت کا خانہ کچھ ایسے ہی خالی تھا جیسے ان دنوں سوشل میڈیا بھیجے سے خالی ہے۔

صلاح الدین صاحب میاں صاحب کے طرف دار تھے اور ان کے مہمان یعنی سراج منیر میاں صاحب کے نفس ناطقہ۔ شہید صلاح الدین صاحب کے دفتر میں اس روز جو باتیں ہوئیں، ان کی تفصیل کا تو یہ موقع نہیں، البتہ اتنا کہنے میں کوئی ہرج بھی نہیں کہ پیپلزپارٹی کے بارے میں سراج منیر کی گفتگو سن کر صلاح الدین صاحب بہت راضی ہوئے جن کی صحافت کا ایک بڑا مقصد ہی یہی تھا کہ جس طرح سے بھی ہو، بھٹو کی باقیات کا خاتمہ ہو جائے۔

سراج منیر کے جانے کے بعد دفتر میں دیر تک ان کا تذکرہ رہا پھر گفتگو کا رخ سیاست کی طرف پھر گیا لیکن اس سے پہلے کہ موضوع بدلتا صلاح الدین صاحب نے عینک اتار کر میز پر رکھتے ہوئے کہا، بلا کا ذہین ہے یہ شخص۔ لحظہ خاموش رہے پھر کہا، سمجھ میں نہیں آتا کہ علم وادب کی دنیا سے اس کی مراجعت سیاست کی طرف کیوں ہو گئی؟سیاست کے جھمیلے ہم سے ایک ہونہار ادیب چھین لیں گے۔ سراج منیر اپنے اس میزبان کے سامنے بائیں جانب کرسی ٹیڑھی کر کے بے تکلفی یا یوں کہہ لیجئے کہ تھوڑا پسر کر بیٹھے تھے اور تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد میرے جانے پہچانے قہقہے لگا رہے تھے۔ میرے ذہن میں ایک بار پھر ویسے ہی خیالات رینگنے لگے، اگر یہ شخص سگریٹ پیتا ہو گا تو کون سا سگریٹ پیتا ہوگا؟

سراج منیر سے متعلق تیسری یاد دل غم سے بھر دینے والی ہے۔ ایک صبح جب میں یونیورسٹی پہنچا تو حسب عادت استاد محترم پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود کے دفتر پر نگاہ ڈالی۔ دروازہ کھلا تھا، اندر داخل ہوا تو دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ہمیشہ خوش و خرم رہنے والے استاد محترم اداس بیٹھے تھے۔ میرے بیٹھنے پر انھوں نے ٹھنڈی آہ بھری اور مرحوم کو یاد کیا پھر ان کے ایک نجی فیصلے کا ذکر دکھ کے ساتھ کیا اور کہا بس، اسی بلا نے تو ہم سے ہمارا دوست چھین لیا، آہ!

Screenshot 2024-02-07 at 2.46.36 AM
Tags: اشاق احمد کاشفآوازہخاکہڈاکٹر طاہر مسعودسراج منیرفاروق عادل کے خاکےمحمد حمید شاہد
Previous Post

حاضرسائیں، عمرے کے سفر کادل گداز ذکرِ خیر

Next Post

پچیس ستمبر: تصوف و تقویٰ کے تاجدار ڈاکٹر غلام مصطفیٰ کی آج برسی ہے

ڈاکٹر فاروق عادل

ڈاکٹر فاروق عادل

فاروق عادل صحافی ہیں یا ادیب؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا فیصلہ ابھی تک نہیں ہو سکا، ان کی صحافت میں ادب کی چاشنی ہے اور ادب میں تحقیق کی آمیزش جس کے سبب ان کی تحریر کا ذایقہ ذرا مختلف ہو گیا ہے۔ بعض احباب اسے اسلوب قرار دیتے ہیں لیکن "صاحب اسلوب"کا خیال ہے کہ وہ ابھی تک اپنی منزل کی تلاش میں ہیں۔

Next Post
پچیس ستمبر: تصوف و تقویٰ کے تاجدار ڈاکٹر غلام مصطفیٰ کی آج برسی ہے

پچیس ستمبر: تصوف و تقویٰ کے تاجدار ڈاکٹر غلام مصطفیٰ کی آج برسی ہے

ہمارا فیس بک پیج لائیک کریں

ہمیں ٹوئیٹر ہر فالو کریں

ہمیں انسٹا گرام پر فالو کریں

Contact Us

[contact-form-7 id=”415″ title=”Contact form 1″]

Categories

  • Aawaza
  • Ads
  • آج کی شخصیت
  • اہم خبریں
  • تاریخ
  • تبادلہ خیال
  • تصوف , روحانیت
  • تصویر وطن
  • ٹیکنالوجی
  • خطاطی
  • زراعت
  • زندگی
  • سیاحت
  • شوبز
  • صراط مستقیم
  • عالم تمام
  • فاروق عادل کے خاکے
  • فاروق عادل کے سفر نامے
  • فکر و خیال
  • کتاب اور صاحب کتاب
  • کھانا پینا
  • کھیل
  • کھیل
  • کیمرے کی آنکھ سے
  • لٹریچر
  • محشر خیال
  • مخزن ادب
  • مصوری
  • معیشت
  • مو قلم

About Us

اطلاعات کی فراوانی کے عہد میں خبر نے زندگی کو زیر کر لیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روح ضعیف ہو گئی اور جسم و جاں یعنی مادیت کا پلہ بھاری ہو گیا "آوازہ" ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو خبر کے ساتھ نظر کو بھی اہمیت دے گا۔ اس پلیٹ فارم پر سیاست اور واقعات عالم بھرپور تجزیے کے ساتھ زیر بحث آئیں گے لیکن اس کے ساتھ ہی روح کی غذا یعنی ادب و ثقافت اور روحانیت سمیت بہت سے دیگر لطیف موضوعات بھی پڑھنے اور دیکھنے والوں کو لطف دیں گے۔
  • Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں

© 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions

No Result
View All Result
  • Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں

© 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions