وہ سمرقند کی رات تھی، چاندنی میں نہائی ہوئی۔یہاں وہاں جانے کے لیے پوچھنا پڑتا تھا۔پوچھو تو سمجھو گئے۔ غلام جو ہمارا میزبان تھا،مصیبت میں پڑجاتا۔زبان سے وہ کچھ کہتا تو نہیں تھا لیکن ہمیں معلوم تھا کہ اپنے بزرگوں کے شہر میں گھومتے ہوئے دائیں بائیں جو کچھ سائے دکھائی دیتے ہیں، ان کا اہتمام وہی کرتا ہے تاکہ مسافربھٹکنے نیز کسی مصیبت میں پھنسنے سے محفوظ رہیں مگر وہ چودہویں کی رات تھی ، دودھ میں نہائے ہوئے شہر کے حسن سے آنکھیں ٹھنڈی کرنے کی خواہش منہ زور تھی۔ نوید سے میں نے کہا، شہر آرزو کی سڑکیں اور گلیاں اس سمے نہ دیکھیں تو کیا دیکھا؟ڈاکٹر نوید الٰہی اس عہد کے سب سے بڑے مسئلے یعنی بدامنی اور دہشت گردی سے نمٹنے کے عالمی شہرت یافتہ ماہر سہی لیکن ان کے دل میں ایک شاعر بھی سانس لیتاہے۔میری بات سن کر انھوں نے آنکھ ماری اور کہا کہ ہاں یار، مجھے تو ٹیتھ برش بھی خریدنا ہے۔یوں اس عذر” شرعی“ نے ہوٹل زرینہ کے بند دروازے کھول دیے اور یہ مسافرامیر تیمور اور الغ بیگ کے زمانے کی دو تین پتھریلی گلیوں کے در ودیوار کو چھوتے اور ٹٹولتے ہوئے ریگستان اسکوئر جا پہنچے۔
شہر والے اس مقام کو ہونٹ گول کرکے ریجستون کہتے ہیں۔ ”ریجستون“ کا مطلب عین مین وہی ہے جو سندھ میں صحرا بلکہ صحرائے تھر اور بہاول پور میں روحی کا ہے۔یہ مقام ریت کا سمندر کبھی رہا ہوگا ، شاید اُن زمانوں میں جب شاہراہ ریشم کے اونچے نیچے راستوں پراونٹوں اور گھوڑوں پر سفر کرنے والے کاروانوں کی گھنٹیاں اور سریلے ہدی خوانوں کی تانیں سنائی دیا کرتی ہوں گی۔شہر والوں کا دعویٰ ہے کہ اُن کا یہ ریجستون صدیوں اور قرنوں سے مختلف خطوں اور تہذیبوں کو باہم ملانے والی شاہراہ ریشم کا اصل سنگم ہے جس کی رونقیں اس وقت عروج پر پہنچ جایا کرتیں جب طویل فاصلے طے کر کے پہنچنے والے قافلے یہاں پڑاؤ کرتے ، بازار سجتے، تاجروں اور ان کے کارندوں کے رنگا رنگ لباسوں اور سامان تجارت بیچنے کے لیے ان کی آوازوں اور بولیوں سے کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی۔ان ہی رونقوں اور ہنگاموں کے بیچ کسی فرماں روا نے سوچا کیوں نہ اس مقام کو تعلیم کا مرکزبھی بنا دیا جائے۔ اس خیال کا آنا تھا کہ نگاہوں کو خیرہ کرنے والے منقش گنبدوں، دروازوں اور میناروں والی عمارتیں ظہور میں آگئیں۔ وہ ان ہی تعلیمی اداروں کی تعمیر کا زمانہ رہا ہوگا جب اپنے وقت کے سب سے بڑے عالم اور سائنس داں الغ بیگ تعمیرات کا جائزہ لیتے ہوئے یہاں پہنچے اورپتھروں سے تراشی ہوئی اینٹوں کے ڈھیر پر میلے کپڑوں میں ملبوس ایک بوڑھے کو بیٹھے پایا۔ممکن تھا کہ وہ اس میلے کچیلے بوڑھے کو نظر انداز کر کے گزر جاتے ہیں لیکن کوئی جملہ ان کے کان میں ایسا پڑاکہ وہ پلٹے اور ایک سوال ان کی خدمت میں پیش کیا۔ اس بڈھے نے سوال سنا، مسکراتی ہوئی نگاہ سوال کرنے والے پر ڈالی اور اپنی بات کا آغاز کیا۔بات جیسے جیسے آگے بڑھتی گئی، اپنی ایجادات سے اپنے عہد ہی نہیں اِس زمانے کو بھی حیران کر دینے والے انجینئر الغ بیگ کے کتابی چہرے پر حیرت کے آثار بڑھتے گئے، یہ بزرگ تھے، مولانا محمد ہوافی۔ ان مدرسوں میں پہلا لیکچر انھوں نے ہی دیا جسے اُس عہد کے بڑے بڑے علما نے دانتوں میں انگلیاں داب کر سناپھر وہی مولانا ان مدرسوں کے پہلے سربراہ کے منصب جلیلہ پر فائض ہوئے۔
سمرقند پہنچتے ہی غلام ہمیں لے کر یہیں پہنچا تھااور اس کے مختلف گوشوں میں گھماتے ہوئے اُس نے ایک کونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایاتھا کہ یہیں پتھروں کا وہ ڈھیر رہا ہوگا جس پر فروکش ہو کر مولانا محمد ہوافی علم کے موتی رولتے ہوں گے اور دور و نزدیک سے آنے والے طلبہ اپنی پیاس بجھاتے ہوں گے۔رات کی دودھیا چاندنی میں مولانا کی” مسند “کے گرد شہر کی حسیناؤں کا جھرمٹ تھا جو یہاں بیٹھی چہلیں کرتی اور قہقہے لگاتی تھیں۔مسافروں نے یہ منظر دیکھا اور سیاحوں کے پلیٹ فارم کے سفید جستی ریلنگ سے ٹیک لگا کر کھڑے ہوگئے۔ستاروں کے جھرمٹ کے آس پاس کچھ پروانے بھی پرواز کرتے اور موقع پا کر کوئی اشارہ، کوئی ہوائی بوسہ پھینک کر دل شاد کرتے۔ منظر آنکھوں میں بس گیا۔ریگستان کے زائر کو تاریخ کے اَن دیکھے زمانوں میں پہنچا دینے والے اس مقام پر اِس عہد کے بچوں اور نوجوانوں کی خوش خرامی نے ماضی و حال کو اس طرح یک جا کیا تو کچھ سوالات پیدا ہوگئے کہ یار، رات کے اس پہر میں اس شہر کی بیٹیاں کس اعتماد کے ساتھ یہاں گھومتی پھرتی ہیں، کیا انھیں ڈر نہیں لگتا، کیا ہوس کا کوئی غلام ان پر نگاہ غلط انداز نہیں ڈالتا، کیا رات کے اندھیرے میں کسی سنسان راستے پر کوئی دوشیزہ راستہ بھول جائے یا اس شہر کی کوئی بیٹی کسی ویرانے میں گاڑی کا پیٹرول ختم کر بیٹھے تو کیا اس کی گاڑی کا شیشہ کوئی نہیں توڑتا، اغوا کرنے کے بعد موٹر وے کا جنگلا پھلانگ کر جنگلی جھاڑیوں میں لے جا کر اسے نہیں بھنبھوڑتا؟سوالات کے دائروں کا سلسلہ دراز ہوتا چلا جاتا تھاکہ غلام بھی ٹہلتا ہوا آپہنچا، ہمیں دیکھ کر میزبانوں کی سی خوش دلی کے ساتھ کہا کہ یہ نظارہ آپ لوگوں کو تادیر اس شہر کی اور ہماری یاد دلاتا رہے گا۔”نیز ان حسیناؤں کی جو نہایت بے خوفی کے ساتھ یہاں فراٹے بھرتی ہیں“۔ میں نے لقمہ دیا۔ سمجھ دار آدمی تھا ، بات کی تہہ تک پہنچ گیا اور کہاکہ یہ لڑکیاں اگر تمام رات ہی یہاں بیٹھی رہیں، اس مقام کی رونقیں ماند پڑجائیں، کوئی ہو،چاہے نہ ہو، مجال نہیں کہ کوئی نگاہ غلط انداز ان پر ڈال جائے اور اگر کوئی ایسی غلطی کر بیٹھے تو خواہ وہ حکمران کی اولاد ہی کیوں نہ ہو، عبرت ناک سزا سے بچ نہ پائے گی ، اس لیے یہاں راوی چین لکھتا ہے اور برا سوچنے والے بھی برائی کرنے کی ہمت اپنے اندر نہیں پاتے۔”مجرم کو سزا دلانے کے لیے اندازاً کتنے مظاہرے کرنے پڑیں گے اور کتنے روز؟“ ۔ غلام نے اپنی عادت کے مطابق یہ سوال بھی خوش دلی سے سنا اور جوابی سوال کیا، مظاہرہ؟ وہ کیا ہوتا ہے؟
ارشد خرم ہمارے عہد کے ایک بڑے فن کار ہیں جنھوں نے مشرق کی روایتی خطاطی میں تجرید کی آمیزش کے تجربے سے نئے امکانات کا دروازہ کھولنے کی کوشش کی ہے۔ موٹر وے پر جنسی درندوں کی درندگی کے مظاہرے نے انھیں بے چین کیا تو دکھی لہجے میں کہا کہ جب تک ان درندوں کی لاشیں آٹھ روز تک چوراہے پر لٹکائی نہ جائیں، کوئی عبرت نہیں پکڑے گا۔ارشد خرم کے اسی دکھ نے مجھے ریگستان پہنچادیا جہاں غلام نے ازبک انگریزی اور شانت ہموار لہجے میں بات کرتے ہوئے اپنے دیس میں امن ، چادر و چار دیوواری کے تحفظ ، خاص طور پر خواتین کے اعتماد کا راز بتا یاتھا۔ممکن ہے ، ہمارے ان (ازبک) رشتے داروں کی معاشرت میں بہت سی کمزوریاں ہوں لیکن قانون کے نفاذ، خاص طور پر عورت کی حفاظت کے ضمن میں ان کے ہاں کوئی بڑا چھوٹا اور کوئی کمزور و ضعیف نہیں ہوتا، وہ ہر ایک کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکتے ہیں اور سکون پاتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ قصور کی بیٹی کے غریب مجرم کو بلا تاخیر لٹکا دینے والے سانحہ ساہی وال کے زور آور وں سے نگاہیں چرانے لگیں تو موٹر وے پر درندوں کو درندگی سے روکنا ممکن نہیں رہتا۔