کسی ملک میں جعفر ایکسپریس کی طرح پوری کی پوری ریل گاڑی کا اغواہو جانا معمولی واقعہ نہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کے ایک خاص حصے میں نقل و حرکت کے ذرائع اور راستے غیر محفوظ ہیں اور ریاست مخالف دہشت گردوں کے حوصلے بہت بڑھ چکے ہیں۔ تصویر کا ایک پہلو یہ ہے۔
تصویر کا دوسرا پہلو کیا ہے؟ ہمارے قومی معاملات کا یہ ایسا پہلو ہے جس پر عام طور پر توجہ کم ہوتی ہے۔ صوبائی حقوق اور وسائل پر مقامی آبادی کا حق طے شدہ اصول ہے، اس کے منافی کوئی مؤقف ہے اور نہ ہونا چاہیے لیکن بات صرف اتنی نہیں۔ دہشت گردوں نے اگر اتنے پاگل پن کا مظاہرہ کر دیا ہے تو اس کے پس پشت بھی کوئی اتنا بڑا ہی مقصد ہونا چاہیے۔
یہ مقصد کیا ہے؟ اس کا اندازہ پروپیگنڈے کی ایک حالیہ مہم سے ہوتا ہے۔ جعفر ایکسپریس کے اغوا سے متصل قبل امریکا اور بھارت کے ذرائع میں گوادر ایئرپورٹ کے بارے میں ایک خبر شائع ہوئی جس میں اس کی ناکامی کا ذکر کیا گیا ہے۔ پہلے یہ خبر امریکی ذرائع ابلاغ میں شائع ہوئی، اس کے بعد بھارتی ذرائع ابلاغ نے اس کاپی پیسٹ کر لیا۔ کیوں؟
یہ بھی پڑھئے:
شام کی حالیہ خونریزی اور ممکنہ نئی قیادت
پاپولزم کی موجِ بلاخیز اور جمہوریت
تہاڑ جیل میں رمضان کے روزے، افتخار گیلانی کے انکشافات
خالد فتح محمد نے تھوڑے سے وقت میں بہت سا کیسے لکھ لیا؟
کیا بلوچستان کا گوادر ایئرپورٹ ناکام ہو گیا ہے؟ ہرگز نہیں۔ یہ ناکام نہیں ہوا البتہ یہ فعال ہونے کے ساتھ ہی صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ ہمارے دوستوں کے لیے بھی امید کی کرن بن گیا ہے۔ ترک صدر رجب طیب اردوان نے اس خطے کو گریٹ یوریشیا سے منسلک کرنے کا تصور پیش کیا ہے جو سی پیک کی افادیت میں اضافہ کرے گا۔ اس مقصد کے لیے پاکستان ترکیہ اور آذربائیجان پر مشتمل ایک سی فریقی ڈائیلاگ میکنزم بھی قائم کر دیا گیا ہے۔ یہ پیش رفت سی پیک کی کامیابی اور استحکام کو ظاہر کرتی ہے۔ اس صورت حال میں علاقائی ترقی کی مخالف قوتیں ایک بار پھر متحرک ہوئی ہیں۔ ٹرین کے اغوا کا مقصد بھی یہی نظر آتا ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اب ہمارے لیے کرنے کا کام کیا ہے؟ کرنے کا کام یہ ہے کہ بلوچستان میں ٹیسٹ ٹیوب بیبیز کا عمل مکمل طور پر ختم کر کے فرزندان زمین کے ساتھ تعلق مضبوط بنایا جائے۔ اس کا طریقہ وہی ہے جو 2013ء میں اختیار کیا گیا تھا یعنی مالک بلوچ اور ان جیسے دیگر بلوچ قوم پرستوں کو سیاسی دھارے میں واپس لایا جائے۔
بلوچستان میں ماہ رنگ بلوچ کے عنصر نے صوبے میں وہی اثرات مرتب کیے جیسے اثرات دو ڈھائی دہائی قبل خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے نتیجے میں مرتب ہوئے تھے یعنی مقامی مؤثر افراد اور نظام کا خاتمہ۔ خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں میں مشران کو منصوبہ بندی کے ساتھ قتل کر دیا گیا تھا جب کہ بلوچستان میں انھیں غیر مؤثر کر دیا گیا ہے۔ یہ عمل نواب اکبر بگٹی کے قتل سے شروع ہوا تھا۔ یہ خلا غیر فطری ہے۔ اس کے نتیجے میں بہت بڑے مسائل پیدا ہو رہے ہیں جس کے نتیجے میں ریاست اور عوام کا رابطہ کمزور ہو رہا ہے لہٰذا اس عمل کو روک کر حقیقی اور محب وطن قوم پرستوں کے ہاتھ مضبوط کیے جائیں اور عوام کو صحیح معنوں میں یقین دلایا جائے کہ بلوچستان کے وسائل کے حقیقی مالک وہی ہیں، ان سے صرف وہی فیض یاب ہوں گے۔