ممتاز مفتی افسانے کی آبرو ہیں۔ ان کے بارے میں چند باتوں پر پوری اردو دنیا میں اتفاق رائے ہے۔ ایک یہ کہ انھوں نے نفسیاتی امراض کے عالمی شہرت یافتہ طریقہ علاج تحلیل نفسی کو افسانے میں برتا۔ یوں اردو افسانے کو عالمی افسانے میں ایک ایسا نمایاں مقام دلایاجس میں اس کا کوئی حریف نہیں۔ افسانے میں ان کا دوسرا بڑا کارنامہ عورت کے موضوع میں ندرت پیدا کرنا ہے۔
ممتاز مفتی صاحب کے افسانے سے قبل اردو میں عورت کو یا تو طوائف کے طور پر برتا گیا ہے یا انسانیت کی معراج سے گری ہوئی ایک ایسی عورت کے طور پر جس پر صرف رحم کھایا جاسکتا ہے۔ ممتاز مفتی نے اس روایت میں ایک نئی راہ نکالی، عورت کو انسان کے طور پر اپنا کردار بنایا۔ یوں اردو افسانے میں عورت کو ایک باوقار مقام ملا۔ سید محمد علی اسلام آباد کے ادبی حلقوں کی ایک معروف اور جانی پہچانی شخصیت ہیں جن کی حال ہی میں ‘ ممتاز مفتی کی عورت ‘ کے عنوان سے کتاب شائع ہو ئی ہے جس میں اردو افسانے کے اسی پہلو کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔
سید محمد علی نے بتایا ہے کہ ہمارے یہاں عورت کو سمجھنے کے لیے مغربی نظریات کا سہارا لیا گیا ہے۔ یہی غلطی تھی جس کی وجہ سے ہمارے یہاں عورت معمہ بن گئی۔ سید محمد علی کہتے ہیں کہ ممتاز مفتی کا سنجیدگی کے ساتھ مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک ایسی عورت کا تصور پیش کرتے ہیں جو انسانیت کو اپنے خون سے سینچتی ہے، خاندان کو بنیاد فراہم کرتی ہے اور بکھرے ہوئے سماج کو جوڑتی ہے۔ سید محمد علی نے ممتاز مفتی کے مطالعے کے ضمن قابل قدر کا م کیاہے جس کا گرم جوشی سے خیر مقدم کیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھئے:
حکومت پی ٹی آئی مذاکرات، رانا ثنا اللہ کی غیر معمولی تجویز