• Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں
No Result
View All Result
10 °c
Islamabad
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • شوبز
  • کھیل
  • کھانا پینا
  • سیاحت
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • شوبز
  • کھیل
  • کھانا پینا
  • سیاحت
No Result
View All Result
آوازہ
No Result
View All Result
Home محشر خیال

بلوچستان کی روح عمار مسعود کےقلم سے

اگر بلوچستان کی روح کو سمجھنا ہے تو کیا کچھ جاننا ضروری ہے، بلوچستان کے لوگوں کا وہ کیسا تجربہ ہے جو ملک کے دیگر حصوں کو نہیں۔ یہ سب بتا دیا ہے معارف مسعود نے اپنی کتاب' میر ہزار خان مری' میں

ڈاکٹر فاروق عادل by ڈاکٹر فاروق عادل
November 17, 2024
in محشر خیال
0
بلوچستان کی روح عمار مسعود کےقلم سے
Share on FacebookShare on TwitterShare on LinkedinShare on Whats app
ADVERTISEMENT
Ad (2024-01-27 16:32:21)
ہمارے کوئٹہ پر ایک بار پھر آتش آہن کی بارش ہے ۔ہمارے بہن بھائی اور بچے خاک اور خون میں لوٹ رہے ہیں اور بتایا ہے بتانے والوں نے کہ دہشت گردوں کو انسانی جانوں سے کھیلنے کی اجازت نہیں جائے گی۔ایسی باتیں سنتے اور پڑھتے ہوئے اپنا ایک سفر کوئٹہ یاد آگیا۔ اکتوبر 1980 میں پہلی بار کوئٹہ جانا ہوا، یوں احساس ہوا کہ یہ ایک حساس خطہ ہے۔ کسی خطے کی حساسیت کیا ہوتی ہے اور کیسے اس کے مظاہر ہوتے ہیں، ایسا کوئی اندازہ قطعاً نہیں تھا سوائے کچھ سنی سنائی باتوں کے اور کچھ تعصبات کے۔ سنی سنائی بات کچھ ایسی نہ تھی جس کا کوئی وجود نہ ہو۔ یہ ایک واقعہ تھا جسے المیہ مشرقی پاکستان کے نام سے لوگ جانتے ہیں۔ دوسری بات کا تعلق سندھ سے تھا۔ کہا جاتا تھا کہ جیسے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے لیے بعض بیرونی قوتوں نے کردار ادا کیا تھا، اسی طرح سے سندھ کے بارے میں بھی کوئی سازش وجود رکھتی ہے۔ بلوچستان کے بارے میں تو ایسی کوئی کہانی بھی کان میں نہیں پڑی تھی لیکن پھر بھی حساسیت کی خبر مجھے تھی۔ اس واقعے کے بیس بائیس برس کے بعد اس خطے میں جانا ہوا۔ پہلی یاترا کے بر عکس زمانہ طالب علمی بیت چکا تھا اور صحافت کی دنیا میں قدم رکھ چکا تھا۔ آدمی صحافی ہو اور نیا نیا ہو تو بڑی گڑ بڑ ہو جاتی ہے۔ معلومات ہوں یا نہ ہوں، اعتماد کا پارہ ساتویں آسمان پر رہتا ہے۔ بس، اسی اعتماد کے سہارے میں نے خود کو ماہر امور بلوچستان جانا اور اس کے بلند و بالا پہاڑوں ، اس کی وادیوں اور پر اسرار غاروں سے کوئی ایسی دھانسو کہانی نکال کے لاؤں کہ تہلکہ مچ جائے۔ ایک نہیں، دو نہیں بہت سی کہانیاں میں نکال کر لایا بھی اور تہلکہ بھی مچا لیکن چند روزگزرنے کے بعد اسی معاملے اور اسی واقعے کے بارے میں کچھ نئے  حقائق سامنے کھڑے میرا منھ چڑا رہے تھے۔ تب سمجھ میں آیا کہ بلوچستان کو سمجھنے کے دعوے داروں کی مثال اس مرد دانا کی سی ہے جو آنکھوں پر کھوپرے چڑھائے ہاتھی کی تلاش میں نکلا۔ ہاتھ ٹانگوں پر جا پڑا تو بتایا کہ ہاتھی ستون جیسا ہوتا ہے۔ سونڈ ہاتھ میں آئی تو سانپ کے مماثل قرار دے لیا، علی ہذا القیاس۔
یہ بھی پڑھئے:
اقبال؛ اقبال کیسے بنے؟ زاہد منیر عامر کی تاریخی فکری دریافت
کیا ڈونلڈ ٹرمپ عمران خان کو رہا کرائیں گے؟
پاکستان ہاکی نائب کپتان کے آپریشن میں رکاوٹ کیا ہے؟
منحصر’’ڈونلڈ‘‘ پہ ہو جس کی امید
میری بلوچستان شناسی کا سفر بھی اسی طرح جاری رہتا اگر بیچ میں عمار مسعود نہ آ جاتے۔ عمار مسعود نے خالد فرید کے ساتھ مل کر ایک کتاب لکھی ہے۔  ‘ میر ہزار خان مری ‘ یہ صاحب وڈو مری کے نام سے بھی جانے جاتے تھے۔ یہ ان ہی کی سوانح اور جدو جہد کی کہانی ہے۔ بلوچستان کی تاریخ ، مسائل اور کسی حد تک شخصیات پر بہت سی کتابیں میری نگاہ سے گزری ہیں لیکن ایسی کوئی کتاب اب تک دیکھنے کو نہیں ملی جو کہانی تو ایک فرد کی ہو لیکن اس میں ماجرا ایک خطے، ایک تہذیب اور کئی نسلوں کا بیان ہو جائے۔ ایسی بہت سی کتابیں پڑھنے کو اور گفتگوئیں سننے کو ملتی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ بلوچستان والے ناراض کیوں ہیں لیکن یہ بتانے والا آج تک کوئی نہیں ملا کہ ا س ناراضی نے بلوچوں کی نفسیات پر کیا اثر ڈالا؟
ہم اہل پاکستان کے پرکھوں نے ہجرت کی ہے۔ ایک ایسی ہجرت جسے پون صدی گزرنے کے باوجود آج بھی دنیا کی سب سے بڑی اور اذیت ناک ہجرت تسلیم کیا جاتا ہے لیکن یہ تجربہ ہمارے بزرگوں پر بیتا ہے۔ ہمارے عہد میں ا س پر سیاست اور دانش وری تو ہوتی ہے لیکن کم ایسے لوگ ہوں گے جن کی روح پر اس ہجرت کے زخموں کی ٹیس آج بھی اسی طرح اٹھتی ہو جیسا درد ہمارے بزرگوں نے محسوس کیا لیکن کیا ہم جانتے ہیں کہ عین اسی زمانے میں جس میں ہم جیتے اور سانس لیتے ہیں بلوچستان میں ایسے بہت سے لوگ موجود ہیں جو در بہ در ہوئے جنھوں نے اپنے بیوی بچوں، دوستوں اور ہزاروں افراد پر مشتمل قبیلوں کے ساتھ افغانستان ہجرت کی ہو؟ وہاں جا کر مسلح لشکر ترتیب دیے ہوں، سوویت جرنیلوں نے جن سے سلامی لی ہو اور ان لشکروں کے نظم و ضبط ، تربیت سخت جانی جو دیکھ کر حیرت سے انگلیاں منھ میں داب لی ہوں؟ یہ خبر شاید اب بھی ہم تک پہنچ نہ ہاری اگر عمار مسعود نے یہ کتاب نہ لکھی ہوتی۔
عمار نے یہ کتاب لکھی تو معلوم ہوا کہ یہ جو ہمارے بلوچ ہیں، خفا ہو کر افغانستان گئے تو ان پر کیا بیتی۔ دیار غیر میں ان کی اولادیں پیدا ہوئیں تو ان کے احساسات کیا تھے اور جب سوویت یونین شکست کھا کر واپس پلٹا تو کیسے راتوں رات افغانستان ان کے لیے اجنبی ہو گیا اور کس کسمپرسی میں  انھیں بے یار و مددگار اس قریے سے نکلنا پڑا۔ کیسے انھیں اور ان کی اولادوں کو بے شناخت ہو جانے کے خطرے سے دوبار ہونا پڑا۔ ذرا سوچیے کہ وہ لوگ جنھیں شناخت کے نام پر گھر سے بے گھر کیا کیا تھا اور انھیں اپنے ہی وطن کے خلاف ہتھیار اٹھانے کے لیے تیار کیا گیا تھا، بے چہرگی کا خطرہ ایک بار پھر ان کے سامنے آکھڑا ہوا ہو گا تو انھوں نے کیا سوچا ہو گا؟ اس آزمائش میں جب کسی غیر ملکی طاقت نے انھیں بار پھر ورغلانے کی کوشش کی ہوگی یا کچھ نئے خواب دکھائے ہوں گے تو  ان کے قدم پیچھے ہٹے ہوں گے یا آگے بڑھے ہوں گے؟ پھر جب وہ اپنی غلطیوں کا بھگتان بھگتنے کے بعد اپنے دیس واپس لوٹے ہوں گے اور انھوں نے دیکھا ہو گا کہ ان کی گھروں اور زمینوں پر تو جانے کون کون اجنبی قابض ہو چکا ہے تو ان پر کیا بیتی ہو گی؟ اپنی زمین پر واپس قدم ٹکانے کے لیے انھیں کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑے ہوں گے  اور کس کس نے ان سے وعدہ خلافی کی ہوگی؟ پھر ایسا کیا ہوا کہ پاکستان کے خلاف بنائی جانے والی اس فوج کے کمانڈر انچیف کی آنکھیں کھلیں اور اس نے اپنی سر زمین پر سجدہ کرنے کے بعد سبز ہلالی پرچم کو سلامی دی اور تن من دھن سے اس کے ساتھ وفاداری کا اعلان کیا۔ زندگی اور موت کی گھاٹیوں کے نشیب و فراز سے گزرنے والی اس کہانی میں ازمنہ وسطیٰ کے جنگ جوؤں جیسی ناقابل یقین کہانی بیان ہوئی ہے۔ یہ ایک ایسی کہانی ہے جس کے ہر موڑ اور ہر کردار سے ایک نئی کہانی جنم لیتی ہے۔ بہ ظاہر یہ کہانی تین ساڑھے تین سو صفحات میں ختم نہیں ہو جاتی بلکہ ہزار داستان جیسی نہ ختم ہونے والی داستان کا نکتہ آغاز ہے۔ کیا ہمارا عمار مسعود اور ان کا ساتھی خالد فرید یہ مہم سر کرنے کے بعد اصل داستاں بھی کہنا شروع کرے گا یا نہیں؟ نہیں معلوم لیکن مجھے اس کا انتظار رہے گا۔
یہ داستان صرف اتنی نہیں کہ اس میں ان برگزیدہ بے وفاؤں کی وفائی کا ماجرا بھی ہے جن کی کی خاطر جان دا ؤپر لگائی گئی لیکن وہی جان کے دشمن ہو گئے۔ عمار مسعود کی لرزا دینے والی اس کتاب سے یہ سراغ بھی ملتا ہے کہ آج کے فراری اور مسلح علیحدگی پسندوں کو اسلحہ کہاں سے ملا۔ وہ کون ہے جو آج بھی جنگ کی آگ کو بھڑکا رہا ہے؟ میر ہزار خان مری کی اس کہانی سے ان رازوں سے بھی پردہ اٹھتا ہے اور کچھ ایسی باتوں کی خبر بھی ہوتی ہے جو مصنفین نے لکھی نہیں ہوتیں۔ کوئی صاحب نظر ان بے لکھی سطور کو بڑھ سکے تو میں شرطیہ کہتا ہوں کہ وہ نہ صرف آج کی بے چینی کے اسباب و رموز کو سمجھ سکے گا بلکہ یہ بھی جان جائے گا کہ ان مسائل سے نمٹنا کیسے ہے؟ ویسے تو بالکل نہیں جیسے آج کل نمٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر انسانی جانوں کے لوتھڑے اڑے تو سمجھ میں آیا کہ بلوچستان کو سمجھنے کے لیے اس کی روح کو سمجھنا ضروری ہے۔ عمار مسعود کی کتاب یہی کام کرتی ہے۔
Screenshot 2024-02-07 at 2.46.36 AM
Tags: آوازہبلوچستانپاکستانعمار مسعودفاروق عادلکوئٹہمیر ہزار خان مری
Previous Post

بحرین میں اجمل سراج کی یاد میں خصوصی شمارے کی تقریبِ رونمائی

Next Post

کوئی لاش گرے، کوئی خون بہے، کوئی بات بنے

ڈاکٹر فاروق عادل

ڈاکٹر فاروق عادل

فاروق عادل صحافی ہیں یا ادیب؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا فیصلہ ابھی تک نہیں ہو سکا، ان کی صحافت میں ادب کی چاشنی ہے اور ادب میں تحقیق کی آمیزش جس کے سبب ان کی تحریر کا ذایقہ ذرا مختلف ہو گیا ہے۔ بعض احباب اسے اسلوب قرار دیتے ہیں لیکن "صاحب اسلوب"کا خیال ہے کہ وہ ابھی تک اپنی منزل کی تلاش میں ہیں۔

Next Post
کوئی لاش گرے، کوئی خون بہے، کوئی بات بنے

کوئی لاش گرے، کوئی خون بہے، کوئی بات بنے

ہمارا فیس بک پیج لائیک کریں

ہمیں ٹوئیٹر ہر فالو کریں

ہمیں انسٹا گرام پر فالو کریں

Contact Us

[contact-form-7 id=”415″ title=”Contact form 1″]

Categories

  • Aawaza
  • Ads
  • آج کی شخصیت
  • اہم خبریں
  • تاریخ
  • تبادلہ خیال
  • تصوف , روحانیت
  • تصویر وطن
  • ٹیکنالوجی
  • خطاطی
  • زراعت
  • زندگی
  • سیاحت
  • شوبز
  • صراط مستقیم
  • عالم تمام
  • فاروق عادل کے خاکے
  • فاروق عادل کے سفر نامے
  • فکر و خیال
  • کتاب اور صاحب کتاب
  • کھانا پینا
  • کھیل
  • کھیل
  • کیمرے کی آنکھ سے
  • لٹریچر
  • محشر خیال
  • مخزن ادب
  • مصوری
  • معیشت
  • مو قلم

About Us

اطلاعات کی فراوانی کے عہد میں خبر نے زندگی کو زیر کر لیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روح ضعیف ہو گئی اور جسم و جاں یعنی مادیت کا پلہ بھاری ہو گیا "آوازہ" ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو خبر کے ساتھ نظر کو بھی اہمیت دے گا۔ اس پلیٹ فارم پر سیاست اور واقعات عالم بھرپور تجزیے کے ساتھ زیر بحث آئیں گے لیکن اس کے ساتھ ہی روح کی غذا یعنی ادب و ثقافت اور روحانیت سمیت بہت سے دیگر لطیف موضوعات بھی پڑھنے اور دیکھنے والوں کو لطف دیں گے۔
  • Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں

© 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions

No Result
View All Result
  • Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں

© 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions