ADVERTISEMENT
شاعر مشرق نے کبھی کہا تھا
مِری مشاطگی کی کیا ضرورت حسنِ معنی کو
کہ فطرت خود بخود کرتی ہے لالے کی حِنابندی
اقبال کی فکری ساخت اور ان کے مزاج کو سمجھنے کے لیے ان کی فکر جس گوشے سے چاہیں استفادہ کریں، اجالا ہو جاتا ہے لیکن انھیں سمجھنے کے لیے یہ شعر خاص طور پر اہمیت رکھتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ذات قدیم جس روح کو دنیا میں بھیجتی ہے، روز اول سے اس کی ذمے داری کا تعین بھی کر دیتی ہے اور اس ذمے داری کی بہ احسن و خوبی ادائی کے لیے اس کی تربیت و تیاری کا اہتمام بھی کر دیتی ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں تھا کہ خلد آشیانی شیخ نور محمد نے امّی ہونے کے باوجود اپنے لخت جگر کے کان میں ایسی بات کہہ دی جس کے نور سے آج بھی ہماری دنیا روشن ہے۔ اہل اللہ سے عقیدت رکھنے اور ان کی خدا داد بصیرت سے اپنے دل کی دنیا اجالنے والے اقبال کا اپنے والد گرامی سے تعلق بھی بالکل اسی نوعیت کا تھا۔ روزگار فقیر سے گواہی ملتی ہے کہ ہمارے دانائے راز کی شہرت جب عالم گیر ہو چکی تھی، وہ تب بھی اپنے والد سے راہ نمائی حاصل کرتے تھے۔ اپنے جلیل القدر والد کے نام ان کے خطوط ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔ اس صوفی منش بزرگ نے جب اپنے بیٹے سے یہ کہا ہو گا کہ بیٹا!قرآن ایسے پڑھو جیسے یہ تم پر نازل ہو رہا ہے تو کوئی شبہ نہیں کہ یہ الفاظ منشائے خداوندی کے تحت ان سے کہلوائے جا رہے تھے۔ یہ بھی محض اتفاق نے قرآن سے روشنی لینے والے درویش کی رسائی مولانا روم تک ہوئی اور وہ زبان پہلوی میں ان کی فکر رسا سے فیض یاب ہوئے، اقبال کیا ہیں اور اللہ نے انھیں جس مرتبے پر فائز کیا تھا، اس کے پس پشت یہی فکری سرمایہ کار فرما تھا لیکن شاید یہ کافی نہیں تھا۔ اقبال نے ایک بار کہا تھا
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو
کتاب خواں ہے مگر صاحب کتاب نہیں
کتاب سے استفادہ تو ہر کوئی کر سکتا ہے لیکن صاحب کتاب کے منصب عظیم تک پہنچنے کے لیے اگر کتاب کافی ہوتی تو اللہ تعالی پیغمبر اس دنیا میں نہ بھیجتے۔ پیغمبروں کا سلسلہ تو منقطع ہو چکا لیکن تربیت و راہ نمائی کا سلسلہ تو ابد تک جاری رہے گا۔ یہی انتظام ہم اقبال کے ضمن میں بھی دیکھتے ہیں۔ یہ کیا سلسلہ تھا، ہمارے بھائی ڈاکٹر زاہد منیر عامر نے ایک سو تین برس کے بعد اس کا انکشاف کر دیا ہے۔ حال ہی میں ان کی ایک کتاب شائع ہوئی ہے:
‘ اکبر بنام اقبال’
جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، یہ کتاب اقبال کے نام اکبر الہ آبادی کے خطوط پر مشتمل ہے۔ اقبال کے نام ان کے دو چار خط تو پہلے بھی مل جاتے تھے لیکن اقبال کے معتمد ترین دوست چودھری محمد حسین اور ان کے خانوادے کا یہ احسان ہے کہ انھوں نے یہ تمام فکری اثاثہ سنبھال کر رکھا اور اسے اس کام کے اہل تک پہنچا دیا جس نے اسے پوری فکری دیانت اور علمی اہتمام کے ساتھ کتابی شکل میں محفوظ کر دیا ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ خطوط کا یہ مجموعہ ہماری کیا راہ نمائی کرتا ہے؟
یہ بھی پڑھئے:
یہ عین ممکن بلکہ یقینی کے فکریات اقبال کا کوئی طالب علم ان خطوط میں زیر بحث آنے والے موضوعات کا اشاریہ مرتب کر کے جویان فکر اکبر و اقبال کے لیے آسانی کر دے گا۔ یہ کام جب بھی ہو باعث خیر ہو گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان خطوط کا قاری دوران مطالعہ ہر ہر سطر پر رک جاتا ہے اور قدرت کے انتظام پر حیرت زدہ رہ جاتا ہے کہ اس نے ایک عہد بلکہ اس کے بعد آنے والے زمانوں کے دکھوں کے علاج کے ایک حکیم حاذق کی تیاری اور تربیت کے لیے کیسا شان دار اور موزوں انتظام کیا۔
ان سطور کے لکھنے والے کے استاد گرامی پروفیسر سید ارشاد حسین نقوی مرحوم و مغفور نے ایک بار فرمایا تھا ہماری فکری تاریخ میں اکبر الہ آبادی سے زیادہ کوئی مظلوم نہیں جنھیں طنز و مزاح کا شاعر قرار دے کر نظر انداز کر دیا گیا۔ ایسا لگتا ہے کہ اکبر کے نقاد فکری ہی نہیں فنی گہرائی سے بھی محروم تھے۔ ورنہ یہ کیسے ممکن تھا کہ پروفیسر آل احمد سرور جیسا نقاد اکبر کی ظرافت کو بازاری اور سطحی قرار دیتے ہوئے یہ دعوی بھی کرتا کہ ان کا فن صرف الفاظ کے الٹ پھیر تک محدود ہے۔ ہمیں ڈاکٹر زاہد منیر عامر کا اس لیے بھی شکر گزار ہونا چاہیے کہ انھوں نے مسلم برصغیر کا یہ علمی سرمایہ ہم تک منتقل کرنے کے ساتھ ساتھ ایک مبسوط مقدمہ لکھ کر اس کے عہد کے بہت سے اہل علم اور نقادوں کی حیثیت بھی بے نقاب کر دی۔
شیخ محمد اکرام نے ‘ موج کوثر’ میں اور ممتاز مستشرق ولفرڈ کینٹ ویل اسمتھ نے اپنی کتاب ‘ ماڈرن اسلام ان انڈیا’ میں تفصیل سے بتایا ہے کہ اقبال تحریک خلافت میں دل چسپی کیوں نہیں رکھتے تھے اور تحریک مجاہدین سے لے کر 1857 جیسی لڑائیوں کے حق میں کیوں نہ تھے اور انھوں نے سر سید علیہ رحم کے ردعمل میں ابھرنے والی فکر جس میں مسلمانوں کو تعلیم و ترقی سے روک کر ماضی کی گپھا میں سانس لینے کا مشورہ دینے والی ایک قسم کی بنیاد پرستانہ سوچ کا مقابلہ کس طرح کیا۔ اقبال نے اس کے جواب میں ایک سوال تو یہ اٹھایا کہ ہم اگر ماضی میں پناہ گزیں ہو گئے تو دور جدید کے چیلنجوں سے عہدہ برا کس طرح ہوں گے؟ پھر انھوں نے حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں مسلم برصغیر کو یہ مشورہ دیا کہ دانائی مسلمان کی گم شدہ میراث ہے، جہاں سے ملے، حاصل کرو لیکن اپنی اصل سے جڑے رہو۔ یہی کام یابی کا راستہ ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اسی راستے پر چل کر نہ صرف یہ پاکستان کی معجزاتی منزل ملی بلکہ ستر کی دہائی تک دنیا میں آزادی کی بیش تر تحریکوں نے بھی اس سے استفادہ کیا۔ اقبال کی عظمت کی وجوہات بہت سی ہیں لیکن سب سے بڑی وجہ یہ ہے۔
اب آتے ہیں، اکبر کے ایک خط کی طرف جو انھوں نے 10 اکتوبر 1911 کو تحریر فرمایا۔ یہ خط تحریک خلافت سے بھی پہلے کا ہے جب یہ خطرہ پیدا ہو چکا تھا کہ ترکیہ کے حصے بخرے کر دیے جائیں گے نیز یہ کہ یہ وقت ترکیہ کی مدد کا ہے۔ ان ہی دنوں اکبر نے اس موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے اقبال کو اپنے خط میں ایک خط میں لکھا:
کجا اٹلی، کجا ٹرکی کجا تم
نحیف و ناتواں، نے علم، گم سم
اس شعر کو پڑھیے اور دیکھئے، اقبال کی فکر میں کیسے نکھار پیدا ہو رہا ہے۔ مسلم برصغیر کی قسمت پر اکبر کا یہ شعر اور اقبال کی فکر کیسے اثر انداز ہوئی، یہ تو تاریخ عالم کا ایک ناقابل تردید واقعہ لیکن ایک حقیقت اور بھی ہے۔ بیسویں اور اور اکیسویں صدی کے وہ مسلح تنازعات جن میں مسلمان کسی نہ کسی شریک ہوئے یا گھسیٹے گئے، ان میں مسلمانوں کی جو کیفیت رہی ہے، کیا اکبر کا یہ شعر اس کی عکاسی نہیں کرتا؟ بات یہ ہے اقبال کی علمی تحریک کے نتیجے میں مسلما تباہی کے جس گڑھے سے نکلے تھے، اب وہ ایک بار پھر اسی گڑھے میں ہیں۔ غزہ کی تباہی و بربادی ہو یا ایران کے حملے کا نتیجہ، اس وقت مسلمان جس صورت حال سے دوچار ہیں، یہ سب اسی مرض کی مختلف علامتیں ہیں جس کی نشان دہی اکبر اور اقبال نے بیسویں صدی کی ابتدا میں کر دی تھی۔ لمحہ موجود میں اگر اس کتاب کی اشاعت ہوئی ہے تو یہ بے سبب نہیں بلکہ یہ بھی قدرت کے اسی انتظام کے تحت ہوا جس کے تحت سیال کوٹ کے امی شیخ نور محمد نے اقبال کو قرآن خوانی کے سلیقے اور آداب سے آگاہ کیا تھا۔ اکبر کے خطوط کی اشاعت اقبال کے تعلق سے یہ یادہانی ہے کہ مسلمان آج جس آشوب میں مبتلا ہیں، اس سے نجات کا وہی ہے جس کی نشان دہی اکبر اور اقبال کرتے آئے ہیں۔ گویا اکبر کے ان خطوط نے اقبال ہی کو اقبال نہیں بنایا بلکہ یہ آج بھی انگلی پکڑ کر ہماری راہ نمائی کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں ان کا ایک خط تو آب زر سے لکھنے کے قابل ہے جس میں انھوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے تعلق سے بتایا ہے کہ اگر فتنہ و فساد پر قابو پانے کی صلاحیت تم میں نہ ہو تو کیا کرنا چاہیے۔
کالم کا دامن بھر چکا ہے اور ابھی اکبر کی فکر کا ایک ہی موتی میں چن پایا ہوں۔ یہ موتی بھی اگر چہ گنج ہائے گراں مایہ کا درجہ رکھتا ہے لیکن باقی موضوعات بھی اتنے ہی اہم ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اپنے عہد میں اقبال نے زچ ہو کر کسی کی گوش مالی کر دی تو اکبر نے انھیں نصیحت کی کہ اگر احتساب کا حق حاصل بھی ہو تو ہمیں درگزر اور نرمی سے کام لینا چاہیے۔ وہ اقبال کو لفظی بازی گری اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر لوگوں سے الجھنے سے روکتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ یہ اقبال کے شایان شان نہیں ہے۔
اقبال کا ترانہ سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا عالم گیر شہرت رکھتا ہے۔ اکبر نے اس نظم کی داد بڑے دل نشیں انداز میں دی ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ نظم نہایت عمدہ ہے لیکن اس وقت سارے عالم اسلام کا دل بڑھانا بہتر ہے۔ یہ خط اقبال کے ہندی قوم پرستی سے پان اسلام ازم کی طرف سفر کی نظریاتی بنیادوں سے ہمیں روشناس کراتا ہے۔
گاندھی جی کا تصوف ہو یا ہندوستانی سرزمین کی پراسراریت، اس چیز نے بڑے بڑے دانش وروں کی راہ کھوٹی کی ہے۔ اقبال اس فلسفے سے متاثر تھے یا نہیں لیکن اکبر نے انھیں بروقت خبر دار کیا اور نصیحت کی کہ مندر کے فلسفہ تصوف پر مسلمان ذی علم ( کبھی) قلم نہ اٹھائے گا۔ بالکل اسی طرح ان خطوط سے دو قومی نظریے کا سراغ بھی ملتا ہے۔
ان سطور میں اکبر کے خطوط کی کہانی اب تک یک طرفہ رہی ہے جس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ اکبر ہی ہیں جنھوں نے اقبال کو اقبال بنایا۔ ایسا نہیں ہے۔ یہ خطوط بتاتے ہیں کہ اقبال ہی دراصل اقبال ہے اور کوئی اس کا ثانی نہیں۔ مسلم فلسفہ ، عصری علوم و معارف اور اقوام عالم کے مسائل و حوادث اور ان کے مسائل کے حل کے ضمن میں جو بصیرت اللہ نے اقبال کو ارزاں کی تھی، اکبر اپنے خطوط میں بار بار اس کا اعتراف کرتے ہیں۔
کوئی شبہ نہیں ہے کہ ڈاکٹر زاہد منیر عامر نے یہ خطوط مرتب کر کے صرف ہمیں نہیں پوری مسلم دنیا کی اس کی نظریاتی بنیادوں سے ایک بار پھر منسلک کر دیا ہے اور یہ بھی یاد دلا دیا ہے ہمارے دکھوں کا علاج کیا ہے۔ استاد گرامی پروفیسر ڈاکٹر خورشید رضوی نے بلاوجہ نہیں کہا کہ یہ کتاب ڈاکٹر زاہد منیر عامر کا سب سے بڑا علمی کارنامہ ہے۔