کیا امریکا کے منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ بانی پی ٹی آئی عمران خان کو رہا کرائیں گے؟ سابق وزیر اعظم کی طرف سے اس معاملے میں کوئی باضابطہ مؤقف تو اختیار نہیں کیا گیا لیکن اس جماعت کے حامی اس بارے میں پر امید رہے ہیں۔ ان لوگو نے اس بارے میں سوشل میڈٰا پر کھلے عام اظہار خیال کیا ہے جب امریکا میں مقیم پاکستانی جو پی ٹی آئی سے ہمدردی رکھتے ہیں، وہ بھی اس سلسلے میں پر امید تھے اور انھوں نے اس امید پر صدر ٹرمپ کو ووٹ بھی دیا ہے۔ امریکی انتخابات کے موقع پر پاکستانی ذرائع ابلاغ کی خصوصی ٹرانسمشنوں میں پاکستانی نژاد صحافیوں نے بھی یہی بات کہی ہے۔ ڈونلڈ ترمپ بھاری اکثریت کے ساتھ منتخب ہو چکے ہیں، اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ بعض پاکستانیوں کی اس امید پر پورا اتریں گے؟
کوئی ملک کسی دوسرے ملک کے قانونی اور سیاسی معاملات میں مداخلت کرے، عام طور پر ایسا نہیں ہوتا۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا ہے کہ کوئی بیان دے دیا جائے۔ یہ ممکن ہے کہ ٹرمپ بھی ایسا کریں لیکن کیا وہ دباؤ بھی ڈالیں گے؟ اس سوال کا جواب مشکل ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا نعرہ ‘ سب سے پہلے امریکا’ ہے۔ عمران خان کے معاملے میں مداخلت ان کی امریکا فرسٹ پالیسی کے خلاف ہو گا، اس طرح وہ اپنے داخلی معاملات پر توجہ دینے کے بہ جائے بیرونی معاملات میں الجھ جائیں گے۔
یہ بھی پڑھئے:
منحصر’’ڈونلڈ‘‘ پہ ہو جس کی امید
پاکستان ہاکی نائب کپتان کے آپریشن میں رکاوٹ کیا ہے؟
ایک معزز جج کی خودنوشت کا ایک ورق
ایک جماندرو مزاح نگار کا سفر نامہ حج
بعض صورتوں میں کچھ ملک دوسرے ملکوں کے معاملات میں دخل دیتے ہیں لیکن ایک ایسی صورت میں اگر متعلقہ ملک کی قیادت کے کسی دوسرے ملک کی قیادت کے ساتھ انتہائی ذاتی نوعیت کے گہرے تعلقات ہوں جیسے جنرل مشرف کے زمانے میں سعودی عرب میاں نواز شریف کی رہائی میں کردار ادا کیا تھا۔ کیا عمران خان اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان بھی اسی نوعیت کے تعلقات ہیں؟ اس سوال کا جواب آسان نہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ عمران خان ہی کی طرح اکل کھرے انسان ہیں جو تعلقات کے ضمن میں زیادہ جذباتی نہیں ہوتے۔ عمران خان کے ضمن میں یہی توقع ہے لیکن یہ عین ممکن ہے کہ وہ اپنے پاکستانی ڈونرز کے اطمینان کے لیے لپ سروس کا مظاہرہ کریں لیکن وہ اس سلسلے میں پاکستان کے ساتھ امریکا کے تعلقات کو خطرے میں نہیں ڈالیں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی عمران خان کی رہائی میں دل چسپی کے سوال پر غور کرتے ہوئے مسلمز فار ٹرمپ گروپ کے سربراہ ساجد تارڑ کا بیان ضرور ذہن میں رکھنا چاہئے جس میں انھوں نے عمران خان پر شدید تنقید کی تھی اور کہا تھا کہ ملکوں کے تعلقات ملکوں کے ساتھ ہوتے ہیں، افراد اہمیت نہیں رکھتے۔