ڈاکٹر اشفاق احمد ورک سے ایک ملاقات تو ہے لیکن سرسری سی۔ اس ملاقات کا ہونا نہ ہونا برابر رہتا اگر بیچ میں علامہ عبد الستار عاصم نہ آ جاتے۔ یہ کریڈٹ صرف علامہ کو جاتا کہ ڈاکٹر صاحب کی جو کتاب بھی شائع ہوتی ہے، پہلی فرصت میں مجھے ارسال کرتے ہیں اور یاد رکھتے ہیں کہ کتاب بھیجی تھی۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اس پریشانی میں مصنف شریک نہیں ہوتے۔ خیر، اس وقت مصنف اور ناشر کا یاد آنا بے سبب نہیں ہے۔ مصنف یوں یاد آئے کہ انھوں نے حج کیا اور سوچا کہ اس مبارک سفر میں کیوں نہ اپنے احباب اور قارئین کو شریک کیا جائے تو خبر یہ ہے کہ ڈاکٹر ورک کے سفر نامہ حج ‘ تیرے عفو بندہ نواز میں’ شائع ہو چکی ہے اور ان دنوں شہرت حاصل کر رہی ہے۔
عبادت اور خاص طور سفر حرمین انسان کا ذاتی معاملہ ہے کیوں کہ اس کا تعلق مالک اور بندے کے ساتھ ہے۔ بندے کے اپنے مالک کے ساتھ کیا راز و نیاز ہوتے ہیں، یہ سلسلہ عمومی عبادت میں بھی ہوتا ہے لیکن حرمین شریفین میں اس کی نوعیت اور ماہیت بدل جاتی ہے۔ گہرے لوگ اس کی خبر کسی اور کو تو کیا خود اپنے آپ کو بھی نہیں ہونے دیتے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ ڈاکٹر ورک کا بھی ہے، وہ اپنے قاری کو ہوٹل کی لابی، کمرے، ریستوران زم زم کی ٹونٹیوں اور صاف دکھائی دینے والے دیگر مظاہر اور ان کی دل کشی میں الجھا کر چوری چوری اپنا کام کرتے رہتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:
اسلام آباد میاں نواز شریف کا منتظر کیوں ہے؟
وومن کرکٹ ورلڈ کپ، گرلز بوائز سے بہتر کیوں ہیں؟
قاسمی صاحب کے ‘ معاصر ‘ کا طلوع نو
سرزمین حرمین کے سفر نامے لکھنے والوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ خود بھی عقیدت میں ڈوبے دکھائی دیتے ہیں اور انھیں اپنے دائیں بائیں جو لوگ بھی ملتے ہیں وہ بھی اسی قسم کے ہوتے ہیں۔ ممکن ہے کہ اس میں دیکھنے والی آنکھ کا قصور ہو یا لکھنے والے کے قلم کا لیکن ہمارے اس مصنف نے اپنا یہ سفر بہ قائمی ہوش و حواس کیا ہے اور اسے ملنے والے لوگ بھی اس کے مزاج سے ہم آہنگ ہیں۔ مثلآ یہ کہ انھیں اردو کے ادیب ملے، بھولے بسرے پاکستان یعنی مشرقی پاکستان کے باشندے ملے، یہاں تک کہ سرگودھا کے جاٹ زمیندار بھی ملے۔ مصنف کے مزاج کا کمال دیکھیے کہ ادیبوں سے وہ ادیبوں کی طرح ملے، مشرقی پاکستان والوں کی نصیحت کو پلے سے باندھا اور سرگودھا کے جاٹ سے یہ جانا کہ ہمارے سیاست دان عمران خان کو اگر شکست دے سکتے ہیں تو کیسے۔ اسی طرح اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے اور ملتے ملاتے ان کے اندر کا مزاح نگار چادر اوڑھ کر ہوٹل کے کمرے میں سویا نہیں رہ جاتا، ساتھ ساتھ چلتا ہے لہٰذا ان کا قاری اس مبارک سفر کے احوال ان کی آنکھ سے دیکھنے کے ساتھ ساتھ ان کے مزاح سے بھی مسلسل فیض یاب ہوتا رہتا ہے۔ کسی جماندرو مزاح نگار کو ایسا ہی ہونا چاہیے۔
چلتے چلتے آخری بات یہ کہ ڈاکٹر اشفاق احمد ورک اردو مزاح کی نئی دریافت ہیں لیکن اس تھوڑی سی مدت میں ان کی فتوحات بہت سی ہیں گویا ان کا سفر جاری ہے۔ سفر کا جاری رہنا زندگی کی علامت ہے۔ انھیں اُس پاک سر زمین سے دو بار بلاوا آ چکا ہے اور دو بار ہی انھوں نے اپنے مشاہدات قلم بند کیے ہیں۔ اللہ کرے ان پر نوازشوں کا سلسلہ جاری رہے۔ ایسی صورت میں ممکن ہے کہ ان کی تحریر میں ہمیں اس مبارک سفر کچھ دوسرے رنگ بھی دیکھنے کو ملیں۔