ایک زمانہ تھا جب پاکستان پر علم و ادب کی حکمرانی تھی۔ اس قلمرو کی قیادت بلند قامت ادیبوں کے پرچے کیا کرتے تھے۔ فنون، اوراق، سیپ اور بہت سے دوسرے جلیل القدر ادبی پرچے۔ کچھ بزرگ ادیب اس دنیا سے کیا اٹھے، ہمارے ادبی منظر نامے پر غبار چھا گیا۔ ایسا نہیں ہے کہ ادب نے بھی آخری سانس لے لی۔ ادیب اور شاعر سخت جان ہوتے ہیں۔ زمانے کی کج ادائی جتنی بھی بڑھ جائے، وہ اپنی فکر کا دیا جلائے رکھتے ہیں۔ صرف ان ادیبوں کی آواز دب چکی تھی کیوں کہ انھیں پلیٹ فارم مہیا کرنے والے پرچے نہیں رہے تھے۔ مخدومی عطا الحق قاسمی ہماری اسی ادبی روایت کا ستون ہیں جنھوں نے اپنی بھاری بھرکم شخصیت اور کالم نگاری جیسی صحافتی صنف میں بلند مقام رکھنے کے باوجود ادب کے ساتھ رشتے کو کبھی کمزور نہیں ہونے دیا۔ ان کا سہ ماہی ادبی پرچہ ‘ معاصر’ ان کی شخصیت کے اسی پہلو کی ترجمانی کرتا ہے۔
قاسمی صاحب نے یہ پرچہ قد آور پرچوں کے زمانے میں جاری کیا اور اسے منفرد شناخت دی۔ ماضی میں’ معاصر’ کا چاند کی طرح طلوع و غروب رہا ہے لیکن حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ اس کی زندگی برقرار رہی۔ دو تین برس ہوتے ہیں، قاسمی صاحب نے پرچے کی اشاعت نو کی تھی لیکن کچھ ملک کے حالات ایسے تھے اور کچھ معیشت کی زبوں حالی تھی، ایک پرچے کی اشاعت کے بعد یہ سلسلہ رک گیا۔ پرچے کی اشاعت رکی ضرور لیکن قاسمی صاحب کا جذبہ جواں رہا۔ یہ ان کے اسی عزم کا نتیجہ ہے کہ ‘ معاصر’ آج پھر ہمارے ہاتھوں میں ہے۔ پرچہ صرف صوری اعتبار سے ہی دیدہ زیب نہیں ہے بلکہ معنوی اعتبار سے بھی غیر معمولی ہے۔ اس محنت میں انھیں ممتاز شاعر اور نقاد اقتدار جاوید صاحب اور ڈاکٹر عائشہ عظیم صاحبہ کی بہ طور مدیر اور نائب مدیر خدمات حاصل رہی ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ صرف قیادت ہی قد آور نہیں ہے بلکہ پوری ٹیم ہی ‘ معاصر’ کے شایان شان ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
شہباز شریف کو امت مسلمہ کی نمائندگی کے بعد کیا کرنا چاہیے؟
آرٹیکل تریسٹھ اے فیصلہ، حامد خان نے نقاب کیوں اتاری؟
اسرائیل پر ایرانی حملہ، کیا عالمی جنگ شروع ہوگئی؟
اکبر بنام اقبال: ڈاکٹر زاہد منیر عامر کا سب سے بڑا علمی کارنامہ کیسے ہے؟
‘ معاصر ‘ میں احمد جاوید، محمد حمید شاہد ، ڈاکٹر انوار احمد، ڈاکٹر ضیا الحسن اور ناصر عباس نیئر جیسے ادیبوں سمیت بہت سے نامور ادیبوں اور شاعروں کی تخلیقات شامل ہیں۔ قاسمی صاحب کچھ عرصے سے وقفے وقفے سے اپنی آپ بیتی لکھ رہے ہیں۔ پرچے میں اس آپ بیتی کا ایک باب بھی شامل ہے۔ اس تحریر میں قاسمی صاحب کے قلم شگفتگی تو شامل ہے ہی لیکن اس کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ اس میں ایک عہد سے دوسرے عہد تک پہنچتی ہوئے اقدار کی شکست و ریخت اوران کی سخت جانی کا ماجرا پڑھنے کو ملتا ہے۔ یوں یہ ماجرا ایک، فرد یا ایک ادیب کی آپ بیتی نہیں رہتی، جگ بیتی بن جاتی ہے۔ پاکستان میں گزشتہ پون صدی میں کیا کچھ ہوتا رہا ہے، یہ آپ بیتی یہی ماجرابیان کرتی ہے۔ ‘ معاصر’ کے تازہ پرچے میں شامل تخلیقات کا شاندار معیار اپنی جگہ، اس سے بڑی خوشی کی بات یہ ہے کہ اب ادیبوں اور شاعروں کو اپنی تخلیقات کے لیے ایک مؤثر اور ممتاز پلیٹ فارم مل گیا ہے۔ اللہ تعالی قاسمی صاحب کا سایہ سلامت رکھے، ادب کی شمع ان کے دم سے فروزاں ہے۔