• Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں
No Result
View All Result
10 °c
Islamabad
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • شوبز
  • کھیل
  • کھانا پینا
  • سیاحت
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • شوبز
  • کھیل
  • کھانا پینا
  • سیاحت
No Result
View All Result
آوازہ
No Result
View All Result
Home اہم خبریں تصویر وطن

شہباز شریف کو امت مسلمہ کی نمائندگی کے بعد کیا کرنا چاہیے؟

مشرق وسطیٰ کی اسی قسم کی صورت حال میں میاں نواز شریف نے کیا کارنامہ انجام دیا تھا، اب وزیر اعظم شہباز شریف کو کیا کرنا چاہیے؟ بتاتے ہیں ڈاکٹر فاروق عادل

ڈاکٹر فاروق عادل by ڈاکٹر فاروق عادل
October 5, 2024
in تصویر وطن
0
شہباز شریف کو امت مسلمہ کی نمائندگی کے بعد کیا کرنا چاہیے؟
Share on FacebookShare on TwitterShare on LinkedinShare on Whats app
ADVERTISEMENT
Ad (2024-01-27 16:32:21)
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے وزیر اعظم محمد شہباز شریف کے خطاب نے میاں محمد نواز شریف کے مشرق وسطیٰ امن مشن کی یاد تازہ کر دی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ 33 برس کے بعد مشرق وسطی ایک بار پھر تباہی کے اُسی دہانے پر جا کھڑا نہیں ہوا بلکہ اس کی تباہ کاری اور سنگینی میں ہزار گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ وہ اگست 1991 کے دن تھے۔ ان دنوں مشرقِ وسطی پر آتش و آہن کی برسات تھی۔ فضا میں میزائل اڑتے تھے اور جہاز بم برساتے تھے، وزیر اعظم نواز شریف نے ان ہی حالات میں چھ ملکوں کا دورہ کیا جس کے نتیجے میں بھڑکتی ہوئی آگ بہ تدریج ٹھندی پڑ گئی اور وہ مسلم امّہ میں ہیرو بن کر ابھرے۔ اب پاکستان کے وزیر اعظم ان کے بھائی ہیں، مشرق وسطیٰ اس سے بھی بڑھ کر بے چین ہے اور کوئی نہیں ہے جواِس بھڑکتی ہوئی آگ پر پانی ڈال سکے۔ اس مشکل صورت حال میں عالم اسلام کے دکھوں اور فرزندانِ اسلام کی نمائندگی کا اعزاز وزیر اعظم شہباز شریف کے حصے میں آیا۔ اقوام متحدہ میں انھوں نے مسلم دنیا کے احساسات کی نمائندگی اس جذبے کے ساتھ کی کہ ان کی تقریر کا شمار دنیا میں سب سے زیادہ سنی جانے والی تقریروں میں کیا گیا۔ یہ بھی ایک اعزاز ہے، ایک ایسا اعزاز جس کا حصول زور بازو سے نہیں قسمت سے ملتا ہے۔ اقبال نے غلط نہیں کہا تھا ع
جس کا عمل ہے بے غرض، اس کی جزا کچھ اور ہے۔
لوگ اپنی دانست میں عالم اسلام کے لیڈر بنتے رہ گئے لیکن قدرت نے عزت کسی اور کو بخش دی۔ اس کے بعد میاں شہباز شریف صاحب کی ذمے داریوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔ اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ پاکستان کے داخلی حالات ان دنوں سازگار نہیں ہیں۔ یہ صرف پی ٹی آئی اور اس کے بانی نہیں ہیں جو اپنے سیاسی مفادات اور اقتدار کی خاطر ہر حد سے گزر جانے پر تلے بیٹھے ہیں بلکہ ان کج ادائیوں میں کچھ ایسی بیرونی طاقتیں بھی شامل ہو چکی ہیں جنھیں پاکستان کی ترقی اور خوش حالی ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ پاکستان جب بھی اپنی آزمائشوں پر قابو پا کر جست بھرنے کو تیار ہوتا ہے، یہ طاقتیں کسی نہ کسی طرح دام ہم رنگ زمیں بچھا دیتی ہیں جیسے احتساب اور ترقی کے دھوکے میں 2014  ء میں دھرنے ابتدا کی گئی۔ اس کے بعد پاکستان کی قسمت میں پتھر پڑتے ہی چلے گئے۔
یہ بھی پڑھئے:
آرٹیکل تریسٹھ اے فیصلہ، حامد خان نے نقاب کیوں اتاری؟
اسرائیل پر ایرانی حملہ، کیا عالمی جنگ شروع ہوگئی؟
اکبر بنام اقبال: ڈاکٹر زاہد منیر عامر کا سب سے بڑا علمی کارنامہ کیسے ہے؟
تفصیلی فیصلہ: ہیجان خیز معجون مرکب
اب اتنے طویل عرصے کے بعد پاکستان کے عوام نے اپنے عزم و استقلال سے اپنی مشکلات پر کسی قدر قابو پایا ہے اور وہ آنے والے دنوں میں اپنے خوابوں کی تعبیر دیکھ رہی ہے تو یہی قوتیں ایک بار اپنے پرانے مہروں کے ساتھ آکھڑی ہوئی ہیں۔ آٹھ دس برس پہلے یہ مہرے جب اقتصادی راہ داری کا منصوبہ لپیٹ دینے کے لیے کھڑے کیے گئے تھے، اس زمانے میں یہ طاقتیں اتنی تنگی ہو کر سامنے نہیں آئی تھیں بلکہ کسی قدر پردے میں تھیں لیکن اس بار یہ پردہ بھی اٹھا دیا گیا ہے۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ عین اس وقت جب اسرائیل غزہ کے مظلوموں کے علاوہ لبنان، شام اور یمن جیسے ملکوں پر چڑھائی کر رہا ہے، عین اسی وقت اسرائیلی اخبارات عمران خان کے حق میں بھی مہم چلا رہے ہیں اور عالمی طاقتوں پر زور دے رہے ہیں کہ ہمارے منصوبوں کی تکمیل کے لیے یہ شخص ناگزیر ہے لہٰذا ، اقتدار میں اس کی واپسی کے سر دھڑ کی بازی لگا دی جائے۔
ایسی صورت حال میں وزیر اعظم پاکستان محمد شہباز شریف پر دوہری ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ ایک یہ کہ وہ عالمی سازشوں سے پاکستان کو بھی محفوظ رکھیں اور دوسرے مشرق وسطیٰ کے عوام کو اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کی چیرہ دستیوں سے بھی بچائیں۔ یہ گویا چومکھی لڑائی ہے۔ پاکستان اور مشرق وسطی کے دشمنوں میں اب کوئی فرق نہیں رہا ۔
یہ درست ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر غزہ کی جنگ کے سلسلے میں اسلامی دنیا اور اسرائیلی جارحیت کو بین الاقوامی فورموں خاص طور پر بین الاقوامی عدالت انصاف میں بے نقاب کرنے والے ملکوں کے اجلاس ہوئے ہیں اور انھوں نے اس ضمن میں اکٹھے پیش رفت کرنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن ان سرگرمیوں کو مہمیز دینے کی ضرورت ہے۔ قدرت نے یہ ذمے داری شہباز شریف کے سپرد کر دی ہے۔ توقع رکھنی چاہیے کہ وہ آئندہ ڈیڑھ دو ہفتوں میں داخلی سیاسی چیلنجوں سے نبرد آزما ہونے کے بعد بالکل میاں نواز شریف صاحب کی طرح امن مشن پر نکلیں گے۔ ایران کے میزائل حملے کے بعد تو یہ مزید ضروری ہو گیا ہے تاکہ جنگ مزید پھیل کر خطے کو  جھلسا نہ دے۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ ایران کے ردعمل نے واضح کر دیا ہے کہ اب خطے کی طاقتیں جیسے کو تیسا کہ ذہنی کیفیت میں جا چکی ہیں جب ایسا ہو جاتا ہے تو فہم و فراست رخصت ہو جاتی ہے۔ پاکستان اس کا متحمل ہے ہو سکتا ہے اور نہ اس کا یہ مزاج ہے ۔ وزیر اعظم کو چاہیے کہ وہ او آئی سی کے اجلاس کی ریکوزیشن دیں۔ ممکن ہو سکے تو یہ اجلاس پاکستان میں ہی بلایا جائے تا کہ مسلم امہ پوری یک سوئی کے ساتھ امن عالم کو تہہ و بالا کر دینے والے مسئلے سے نمٹنے کے لیے پورے اتحاد کے ساتھ اقدامات کر سکے۔ اقوام متحدہ سے خطاب سے وزیر اعظم تقریر سے جو امن مشن شروع ہوا ہے، اس کا اگلا اور منطقی مرحلہ یہی ہے تاکہ اسرائیل کے خلاف ایک بین الاقوامی محاذ تشکیل دیا جا سکے۔ یہ سرگرمی مشرق وسطیٰ کی بگڑتی ہوئی صورت حال کے لیے تو ضروری ہے ہی لیکن بانی پی ٹی آئی کے ساتھ اسرائیل کے اظہار یک جہتی کے بعد یہ پاکستان کے استحکام کے لیے بھی ضروری ہو گیا ہے۔
Screenshot 2024-02-07 at 2.46.36 AM
Tags: آوازہشہباز شریفغزہفاروق عادمشرق وسطیٰنواز شریف
Previous Post

آرٹیکل تریسٹھ اے فیصلہ، حامد خان نے نقاب کیوں اتاری؟

Next Post

قاسمی صاحب کے ‘ معاصر ‘ کا طلوع نو

ڈاکٹر فاروق عادل

ڈاکٹر فاروق عادل

فاروق عادل صحافی ہیں یا ادیب؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا فیصلہ ابھی تک نہیں ہو سکا، ان کی صحافت میں ادب کی چاشنی ہے اور ادب میں تحقیق کی آمیزش جس کے سبب ان کی تحریر کا ذایقہ ذرا مختلف ہو گیا ہے۔ بعض احباب اسے اسلوب قرار دیتے ہیں لیکن "صاحب اسلوب"کا خیال ہے کہ وہ ابھی تک اپنی منزل کی تلاش میں ہیں۔

Next Post
قاسمی صاحب کے ' معاصر ' کا طلوع نو

قاسمی صاحب کے ' معاصر ' کا طلوع نو

ہمارا فیس بک پیج لائیک کریں

ہمیں ٹوئیٹر ہر فالو کریں

ہمیں انسٹا گرام پر فالو کریں

Contact Us

[contact-form-7 id=”415″ title=”Contact form 1″]

Categories

  • Aawaza
  • Ads
  • آج کی شخصیت
  • اہم خبریں
  • تاریخ
  • تبادلہ خیال
  • تصوف , روحانیت
  • تصویر وطن
  • ٹیکنالوجی
  • خطاطی
  • زراعت
  • زندگی
  • سیاحت
  • شوبز
  • صراط مستقیم
  • عالم تمام
  • فاروق عادل کے خاکے
  • فاروق عادل کے سفر نامے
  • فکر و خیال
  • کتاب اور صاحب کتاب
  • کھانا پینا
  • کھیل
  • کھیل
  • کیمرے کی آنکھ سے
  • لٹریچر
  • محشر خیال
  • مخزن ادب
  • مصوری
  • معیشت
  • مو قلم

About Us

اطلاعات کی فراوانی کے عہد میں خبر نے زندگی کو زیر کر لیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روح ضعیف ہو گئی اور جسم و جاں یعنی مادیت کا پلہ بھاری ہو گیا "آوازہ" ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو خبر کے ساتھ نظر کو بھی اہمیت دے گا۔ اس پلیٹ فارم پر سیاست اور واقعات عالم بھرپور تجزیے کے ساتھ زیر بحث آئیں گے لیکن اس کے ساتھ ہی روح کی غذا یعنی ادب و ثقافت اور روحانیت سمیت بہت سے دیگر لطیف موضوعات بھی پڑھنے اور دیکھنے والوں کو لطف دیں گے۔
  • Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں

© 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions

No Result
View All Result
  • Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں

© 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions