میں نے بریگیڈیئر صولت رضا ریٹائرڈ سے سوال کیا:
‘ بریگیڈیئر صاحب! جنرل مشرف صدارت چھوڑنے پر مجبور کیوں ہوئے؟’
یہ سوال سن کر بریگیڈیئر صاحب نے داڑھی میں خلال کرتے کرتے ہاتھ روک کر قہقہہ لگایا اور کہا:
‘ میرا مشورہ سن کر۔’
اس واقعے کا پس منظر دل چسپ ہے۔ بریگیڈیئر صاحب کا شمار پاکستان کے ان فوجی افسروں میں ہوتا ہے جنھوں نے وردی اور مزاح کو پہلو بہ پہلو چلایا۔ ابھی جونیئر افسر ہی تھے جب ‘ کاکولیات’ کے عنوان سے کیڈیٹ کے روز و شب قلم بند کیے۔ یہ کتاب بلاک بسٹر ثابت ہوئی۔ اس کے اب تک نہ جانے کتنے ہی ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد کچھ عرصہ تخلیے میں گزارا پھر اخبار میں کالم لکھنا شروع کر دیا۔ یہ 14 اگست 2008ء کی بات ہے، بریگیڈیئر صولت رضا کا کالم اخبار میں شائع ہوا جس میں انھوں نے مشورہ دیا کہ مائی ڈیئر جنرل پرویز مشرف! آپ کو اب مستعفی ہو جانا چاہیے۔ کیوں مستعفی ہو جانا چاہیے؟ اپنے کالم میں انھوں نے اس سوال کا جواب بھی دیا اور بتایا کہ انھیں اس لیے مستعفی ہو جانا چاہیے کیوں کہ اب ان کے پاس یہ منصب سنبھالے رکھنے کا اخلاقی جواز ختم ہو گیا ہے۔ اتنا لکھ کر ان کا قلم رکا نہیں۔ انھوں نے ایک بات اور بھی ریکارڈ پر لانی ضروری سمجھی۔ یہ کہ منصب صدارت پر قبضہ جمائے رکھنے کا حقیقی جواز تو اس روز ختم ہو گیا تھا جس روز صدر جنرل پرویز مشرف نے ایک حکم نامے کے ذریعے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل پرویز مشرف کو 64 برس کی عمر میں ریٹائر کر دیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اردو رسم الخط پڑھنے کی صلاحیت نہ رکھنے والے جرنیل نے یہ کالم پڑھوا کر سنا اور اسے سنتے ہوئے ان کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھی گئی۔ اس مسکراہٹ سے طاقت کا غرور جھلکتا تھا، بے چارگی جھانکتی تھی یا کسی کے بے خبری پر طنز، راوی اس بارے میں خاموش ہے۔
یہ عین وہی دن تھے جب کچھ حلقے انھیں ڈٹ جانے کا مشورہ دے رہے تھے۔ یہ مشورہ دینے والوں میں کئی سیاسی چہرے بھی شامل تھے جن میں سے بیشتر کا تعلق مسلم لیگ ق سے تھا جس کی تشکیل بہ قول بریگیڈیئر صاحب کے ایجینسیوں کے زیر سایہ ہوئی تھی۔ انھوں نے لکھا کہ ایسا مشورہ دینے والے ایک طرف آپ کو ڈٹ جانے کا کہہ رہے ہیں اور دوسری طرف وہی لوگ اس دہلیز پر سجدہ ریز ہو چکے ہیں جو خود آپ کی اپنی بنائی ہوئی ہے۔ بہ الفاظ دیگر کالم نگار یہ کہہ رہے تھے کہ آپ نے وردی اتار کر طاقت جہاں منتقل کی ہے، سورج مکھی کے پھول کا رخ بھی اسی جانب ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
کیا ارشد ندیم کی کامیابیوں کو تسلسل برقرار رہے گا؟
بنگلا دیش: خون کے دھبے اب دھلیں گے اتنی برساتوں کے بعد
یہ واقعہ دو مزید واقعات کی یاد تازہ کرتا ہے۔ نومبر 2007ء کی اس چمکتی ہوئی دوپہر کو گزرے بہت سے ماہ و سال بیت چکے ہیں لیکن ٹیلی ویژن پر اس روز دکھائی دینے والا منظر آج بھی لوگوں کی یادوں میں تازہ ہے جب خود کو ریٹائر کر دینے والے حکمراں اپنی طاقت کی حقیقی بنیاد کی علامت یعنی سپہ سالار کی جادوئی چھڑی اپنے جانشین کے حوالے کرنے لگے تو اس وقت ان کے ہاتھ کانپ گئے۔ یوں ان کے جانشین نے اپنے پیش رو کی مدد کر کے چھڑی خود کو دلوائی۔ خود کو دلوانے والا جملہ اگر چہ دل چسپ ہے لیکن حقیقت واقعہ یہی ہے۔ جنرل مشرف کے کانپتے ہوئے ہاتھ دیکھ کر پاکستان کے کروڑوں لوگ آج بھی یقین رکھتے ہیں کہ یہ کام انھوں نے اپنی مرضی سے نہیں کسی جبر کے تحت کیا۔
ممتاز صحافی عظیم چودھری جو اس زمانے میں پاکستان مسلم لیگ ق کے آرگنائزنگ سیکرٹری تھے، کہتے ہیں کہ یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ جنرل مشرف وردی اتارنا نہیں چاہتے تھے۔ وہ بالکل اتارنا چاہتے تھے کیوں کہ انھوں نے عدالت کے ساتھ یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ فوج کی وردی میں رہتے ہوئے صدارت کا انتخاب لڑیں گے پھر انتخاب جیتنے کے بعد وردی اتار دیں گے۔
ایک ڈکٹیٹر کی طاقت کی بنیاد اس کی وردی ہی ہوتی ہے۔ وردی اتر جائے تو اس کے ہاتھ پاؤں کٹ جاتے ہیں۔ پاکستان میں پہلی بار تو ایسا نہیں ہو رہا تھا۔ ان سے پہلے ایوب خان بھی وردی اتار کے بے دست و پا ہو چکے تھے۔ جنرل مشرف نے اس کے باوجود ایسا کیا تو اس کا بھی ایک سبب تھا۔ پاکستان مسلم لیگ ق کے سربراہ چودھری شجاعت حسین نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ وہ وردری اتار دیں گے تو انھیں مسلم لیگ کا صدر بنا دیا جائے گا اور یہ مسلم لیگ ق نہیں ہو گی بلکہ آل پاکستان مسلم لیگ ہو گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن کے سوا مسلم لیگ کے نام سے متحرک تمام دھڑے اس میں شامل ہوں گے لیکن ایک حادثہ ہو گیا۔ حادثہ بڑا دلچسپ تھا۔ عظیم چودھری بتاتے ہیں:
‘ یہ جنرل مشرف کے مستعفی ہونے کے بعد کی بات ہے، طے پایا کہ چودھری شجاعت حسین جنرل مشرف سے ملنے کے لیے تشریف لائیں گے لیکن وہ نہیں آئے۔ ان کی جگہ چودھری پرویز الٰہی اور چودھری وجاہت حسین پہنچ گئے۔’
جنرل مشرف کے استعفے کے بعد اس واقعے کی زیادہ اہمیت نہیں ہے لیکن اس سے یہ ضرور واضح ہو جاتا ہے کہ ان کے ساتھ جو وعدے کیے گئے تھے، وہ پورے نہیں کیے گئے۔
‘ کیا یہ کوئی پھندا تھا، بوڑھا ڈکٹیٹر جس میں الجھ کر مات کھا گیا؟’
ان واقعات پر بہت سے سوالات پیدا ہوتے ہیں اور کئی ان کے جواب بھی دیے جاتے ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ وہ شخص چند ہفتے قبل نظام جس کے اشارے پر چلتا تھا، آج خود ہی کوئی اشارہ اس کی دنیا اندھیر کر چکا تھا۔ انھوں نے فوج کی قیادت کیا چھوڑی، اقتدار کے کوچے سے بھی ان کے نکلنے کا سامان کر دیا گیا۔
یہاں ایک اور سوال بھی سر اٹھاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ وردری کا اترنا ہی قیامت ڈھا گیا یا اس کے پس پشت کوئی اور کہانی بھی موجود تھی؟ بریگیڈیئر صولت رضا کہتے ہیں کہ یہ وکلا کی تحریک تھی جس نے جنرل مشرف کے پاؤں تلے سے قالین کھینچا۔ کیسے؟ اس سوال کا جواب مجھے عظیم چودھری نے دیا۔ اصل میں ان سے میں نے پوچھا یہ تھا کہ یہ تو درست ہے کہ جسٹس افتخار محمد چودھری کے حرف انکار کو اس ضمن میں مرکزی حیثیت حاصل ہے لیکن یہ فرمایے کہ کیا اس حرف انکار کو کہیں اور سے بھی کوئی توانائی ملی؟
وہ کہتے ہیں کہ اس مشکل سوال کا جواب تو مجھے شاید معلوم نہ ہو لیکن ایک اور واقعہ میرے علم میں ہے۔ ممکن ہے کہ اس سے کچھ راہ نمائی ملے۔
سنی سنائی بات تو یہ ہے کہ ایوان صدر کی اس میٹنگ میں جس میں جسٹس افتخار محمد چودھری پر دباؤ ڈالا گیا، کوئی ایسا بھی موجود تھا جس نے انھیں اشارہ کیا تھا کہ یہ دب جانے کا نہیں ڈٹ جانے کا وقت ہے۔ ایسا ہوا تھا یا نہیں اور اگر ایسا ہوا تھا تو ایسا کرنے والا کون تھا؟ اس سلسلے میں کی کوئی مصدقہ بات کسی کے علم میں شاید نہ ہو سکا یہ کہ وہ خود ہی زبان کھول دے۔ ہاں البتہ ایک بات ضرور ریکارڈ پر ہے۔ وکلا تحریک کے دوران میں جب سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی چل رہی تھی، اس موقع پر یہ حلف دینے کی نوبت آئی کہ کیا دباؤ ڈالنے کا واقعہ رونما ہوا تھا یا نہیں۔ اس موقع پر واقعہ کے ایک گواہ نے حلف نامہ داخل کرا دیا اور ایک نے نہیں کرایا۔ حلف نامہ جمع کرانے والے لیفٹیننٹ جنرل اعجاز ندیم تھے جو اس وقت ڈائریکٹر جنرل ملٹری انٹیلیجنس ( ایم آئی) تھے جب کہ حلف نامہ جمع نہ کرانے والے بعد میں فوج کے سربراہ بنے۔ اس وقت آئی ایس آئی ان کی قیادت میں کام کر رہی تھی۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ وکیلوں اور عوام کا سڑکوں پر نکلنا اپنی جگہ لیکن اقتدار کے مراکز میں رونما ہونے والے واقعات پہلے ہی ڈکٹیٹر کی قسمت کا فیصلہ کر چکے تھے۔ نسبتاً کم معروف شاعر قابل اجمیری کا ایک بہت ہی معروف شعر ہے:
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
جنرل مشرف کے زوال کے اسباب پر نگاہ ڈالیں تو بات عین اس شعر جیسی دکھائی دیتی ہے لیکن اس کے باوجود صدر تو وہ منتخب ہو ئے لیکن انتخاب صرف صدارت کا تو نہیں ہوا تھا، عام انتخابات بھی ہوئے تھے جنھوں نے ان کے زوال پر مہر ثبت کر دی۔ سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف ہوں یا صدر آصف علی زرداری، ہر دو اقتدار کے ایوان سے ان کی رخصتی چاہتے تھے۔ یہ رخصتی کیسے ممکن تھی؟ ایک آسان طریقہ تو یہ ہو سکتا تھا کہ وہ خود مستعفی ہو جائیں لیکن وہ مستعفی کیوں ہوتے؟ یہی سبب تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن، دونوں نے اتفاق رائے کے ساتھ ایک حکمت عملی تیار کی اور اعلان کیا کہ جنرل مشرف کا مواخذہ کیا جائے گا۔ اس سطح کے کسی منصب دار کا مؤاخذہ کرنے کے لیے کوئی ٹھوس بنیاد ضرور ہونی چاہیے۔ اعجاز مہر نے اس سلسلے میں دو باتیں لکھی ہیں۔
انھوں نے لکھا ہے کہ صدارتی انتخاب سے قبل جب ان کی اہلیت کو چیلنج کیا تھا، اس وقت جنرل مشرف نے عدالت کو یقین دلایا تھا کہ وہ منتخب ہوتے ہی پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ لیں گے۔ وہ منتخب تو گئے لیکن انھوں نے اعتماد کا ووٹ نہیں لیا۔ اس کے علاوہ انھوں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کا آئینی تقاضا بھی پورا نہیں کیا تھا۔
ڈوئچے ویلے کے ایک نشریے کے مطابق ان پر چند اور الزام بھی تھے۔ ان الزامات میں سے ایک یہ تھا کہ وہ بجلی کے سنگین بحران کے ذمے دار ہیں جس کی وجہ سے معیشت کو بے پناہ نقصان پہنچا۔ دوسرے ان کے غیر دانش مندانہ اقدامات کی وجہ سے وفاق پاکستان خطرے سے دوچار ہوا ہے۔ یہ اشارہ نواب اکبر بگٹی کے بہیمانہ قتل کی طرف تھا۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ میں گندم کے بحران کے علاوہ جمہوریت کے خلاف سازشوں کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔
عظیم چودھری ان میں سے کسی بات سے بھی اتفاق نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس زمانے میں حکمراں اتحاد کے ذمے داران وفاقی وزیر شیری رحمٰن کے گھر جمع ہو کر اس بات پر غور کیا کرتے تھے کہ جنرل مشرف کے مواخذے کے لیے کیا بنیاد بنائی جائے لیکن وہ کوئی ٹھوس بنیاد تلاش کرنے میں ناکام رہے تھے۔ اس کا سبب یہ تھا کہ اس وقت تک سپریم کورٹ اور پارلیمان نے جنرل مشرف کی طرف سے لگائی گئی ایمرجنسی پلس کو نہ درست قرار دیا تھا اور نہ غلط۔ لہٰذا یہ بنیاد نہیں بن سکتی تھی۔
مواخذے کی راہ میں چند اور بھی بڑی ٹھوس رکاوٹیں حائل تھیں۔ پہلی سب سے بڑی رکاوٹ تو یہ تھی کہ اس وقت تک اٹھارویں ترمیم آئین کا حصہ تھی۔ جنرل مشرف اس اختیار کو استعمال کرتے ہوئے اسمبلیاں تحلیل کر سکتے تھے۔ یہ سوال جب میاں نواز شریف سے پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ یہ اسی اور نوے کی دہائی کا زمانہ نہیں ہے کہ جس کا جی چاہے اسمبلیاں توڑ ڈالے۔ آصف علی زرداری نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ آج نہ جمہوریت کمزور ہے اور نہ اتحادی حکومت۔
مواخذے کی راہ میں ایک اور بڑی رکاوٹ ووٹوں کی تعداد تھی۔ عوامی نیشنل پارٹی اور جمیعت علمائے اسلام ف نے بھی اگرچہ مواخذے کی حمایت کر دی تھی لیکن اس کے باوجود ووٹ پورے نہیں تھے۔ حکمراں اتحاد اس کے باوجود پر اعتماد کیسے تھا۔ اس سوال کا جواب واضح نہیں لیکن اس ضمن میں دو باتیں بہت اہم ہیں۔ ووٹوں کے بارے میں تو حکمراں اتحاد نے دعویٰ کیا کہ پارلیمنٹ میں موجود نوے فیصد ارکان مواخذے کے حق میں ووٹ دیں گے۔ اس دعوے کی آزمائش سے قبل حکمراں اتحاد نے جنرل مشرف کے اعصاب کو توڑنے کے لیے ایک اور حکمت عملی ظاہر کی۔ اعلان کیا گیا کہ ملک کی چاروں صوبائی اسمبلیوں سے جنرل مشرف کے خلاف قراردادیں منظور کرائی جائیں گی۔ یہ بالکل ممکن تھا اور ایسا ہو جاتا تو جنرل مشرف پر دباؤ میں مزید اضافہ ہو جاتا لیکن اس قبل ہی مضبوط اعصاب کی شہرت رکھنے والے ڈکٹیٹر نے 18 اگست 2008 کو مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا۔
کیا ان کے اعصاب جواب دے گئے تھے؟ عظیم چودھری کہتے ہیں کہ یہ بھی ہو گا لیکن اس علاوہ بھی ایک کام ہوا۔ ریاست کا کاروبار رک گیا۔ ریاست میں جب ایسی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے، کسی نہ کسی کو جانا پڑتا ہے۔ گویا یہ وہ آخری تنکا تھا جس نے اونٹ کی کمر توڑ دی اور جنرل مشرف نے بہ حیثیت صدر قوم سے آخری خطاب کے دوران میں یہ کہتے ہوئے کہ ‘ پاکستان کا خدا حافظ ‘ مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا۔
ایوان صدر سے ان کی رخصتی کے موقع انھیں گارڈ آف آنر دیا گیا جس پر بہت اعتراض کیا جاتا ہے۔ الیکشن کمیشن کے سابق سیکرٹری کنور دل شاد کہتے ہیں کہ ایسا ایک مفاہمت کے تحت ہوا تھا۔ وہ لکھتے ہیں کہ جنرل مشرف نے امریکا اور بعض خلیجی دوستوں سے کہا تھا کہ پیپلز پارٹی این آر او کے تحت طے پانے والی شرائط کے خلاف میرے خلاف مواخذے کی تحریک لا رہی ہے لہٰذا میں پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے کا حق رکھتا ہوں۔ ایسی صورت میں بحران مزید سنگین ہو جاتا چناں چہ بیرونی دوست بروئے کار آئے اور انھوں نے جنرل مشرف کی باعزت واپسی کی راہ ہموار کر دی۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ امریکی وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس بھی اس صورت حال کی براہ راست مانیٹرنگ کر رہی تھیں۔