فیض حمید کی گرفتاری انقلاب ہے یا انقلاب کی دیگ کا ایک بلکہ پہلا دانہ؟ بنیادی سوال تو یہی ہے لیکن ایک بات تھوڑی مختلف بھی ہے۔ چند ہفتوں کے دوران میں ہم نے بہت سی باتیں سنی ہیں جیسے بہت کچھ ہونے والا ہے۔ یہ جو ان دنوں تھوڑی خاموشی ہے، یہ طوفان سے پہلے کی ہے۔ لوگ کس طوفان کے آثار دیکھتے تھے؟ ایک تو شاید یہ تھا جو عمران خان کی زبان سے سننے کو ملا۔ انھوں نے کہا تھا کہ حکومت کے پاس دو مہینے ہیں ، میرے پاس بہت وقت ہے۔ اچھا یہ تو عمران خان نے کہا لیکن ان کے ساتھ ہمدردی رکھنے والوں نےاس سے بھی بڑھ کر کہا جیسے چودھری غلام حسین۔ انھوں نے تو دعویٰ کیا ہے کہ میاں محمد شہباز شریف ہاتھ کھڑے کر چکے ہیں اور ایوان صدر میں صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کر کے استعفیٰ بھی پیش کر چکے ہیں۔ باقی باتیں بھی اسی قسم کی تھیں جن میں آنے والے دنوں کے دوران میں موجودہ حکومت کے جان بر نہ ہونے جیسی باتیں تھیں گویا سارا ملبہ ایک طرف گرتا ہی دکھائی دیتا تھا لیکن ہوا اس کے بالکل برعکس۔ اب یہ جو کچھ ہوا ہے، اس کا پیغام کیا ہے؟
پرانے زمانے کی کہانیوں کے دیو کی جان طوطے میں ہوا کرتی تھی۔ اس کہانی کا طوطا ایک صورت حال میں ہے۔ یہ صورت حال ایک کشمکش کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے۔ اس کشمکش کے پنجے کہاں کہاں تک پھیلے ہوئے تھے یا پھیلے ہوئے ہیں؟ یہ کہانی طویل ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ نو مئی کے واقعات اس کا نتیجہ تھے تو یہ درست ہو گا۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہ جو ہمارے سیاسی میدان اور اقتصاد کے شعبے میں رہ رہ کر زلزلے کے جھٹکے آتے ہیں، ان کا تعلق بھی اسی سے ہے تو اس میں بھی کوئی غلط بات نہ ہوگی بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ہمارے نظام میں نئی اور پرانی سوچ کے درمیان ایک کشمکش جاری ہے۔ اس وقت ہم اسی کشمکش کے مختلف مناظر دیکھ رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:
اگست بلوچستان کو مہنگا کیوں پڑتا ہے؟
ہمارے آئین کا ”بنیادی تقاضا”__ اور برطانوی عدالتیں
ایک فتنے کی محبت میں پاکستان میں مداخلت
اسماعیل ہنیہ کی شہادت، حکومت اپنا رویہ تبدیل کرے
یہ کشمکش کیا ہے؟ یہ کشمکش ہے 2022ء سے پہلے اور بعد والے پاکستان کے مختلف کرداروں کی۔ لیجیے بات تحریک عدم اعتماد تک آ پہنچی۔ جن دنوں تحریک عدم اعتماد ہوئی، اس سے کچھ عرصہ پہلے اور کچھ بعد ایک بات ہم نے تواتر کے ساتھ سنی کہ پاکستان دیوالیہ پن کے دہانے پر آن کھڑا ہوا ہے۔ اس دیوالیہ پن کا ایک تعلق تو ان مالیاتی اعداد و شمار کے ساتھ تھا جس کی بنیاد پر عمران خان کے چیئرمین ایف بی آر نے تکرار کے ساتھ کہا کہ پاکستان دیوالیہ ہو چکا ہے لیکن ایک تعلق ایک احساس کے ساتھ بلکہ ایک خاص احساس کے ساتھ تھا۔ احساس یہ تھا کہ اس ملک اور اس کے عوام کو ظالم جتنا لوٹ سکتے تھے، لوٹ چکے۔ اب اس ملک اور اس کے عوام کی سکت ختم ہو چکی۔ یعنی بس، اب اور نہیں۔ یہ سبب تھا جس کی وجہ سے تحریک عدم اعتماد کی نوبت بھی آئی اور بہت سے دیگر اقدامات بھی ہوئے۔ ان اقدامات کو ریاست کے اندر ایک نئے سوشل کنٹریکٹ کا نام بھی دیا جا سکتا ہے ۔ یہی سوشل کنٹریکٹ تھا جس کے خلاف بغاوت کی گئی۔ اس بغاوت کا چہرہ عمران خان تھے لیکن وہ تنہا نہیں تھے، ان کے پیچھے بہت سے لوگ کھڑے ہیں، آج ان میں سے ایک شخص کا نام اس کی گرفتاری کی صورت میں سامنے آ چکا ہے۔
عام طور پر کہا جاتا ہے کہ فوج اپنے لوگوں کو پکڑتی ہے اور نہ ان کے خلاف کوئی کارروائی کرتی ہے۔ پھر یہ کیوں ہوا کہ فیض حمید کو پکڑ لیا گیا؟ فیض حمید کی گرفتاری اور ان کے خلاف کورٹ مارشل جنرل کی کارروائی یہ بتاتی ہے کہ نئے سوشل کنٹریکٹ کے خاتمے کے لیے سرگرم عمل عناصر کی جڑیں نظام میں بہت گہری پیوست ہیں۔ 9 مئی کے واقعات کے خلاف کارروائیوں کے نتیجے میں بہت سے ایسے لوگ گرفت میں بھی آ چکے ہیں لیکن اب بھی شاید ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کچھ لوگ گڑ بڑ میں مصروف ہیں۔ انھیں یہ پیغام دینے کی ضرورت تھی کہ پانی سر سے اونچا ہو چکا۔ اب کچھ برداشت نہیں کیا جائے گا۔ فیض حمید پر گرفت کر کے یہ پیغام دے دیا گیا ہے۔ قبلہ مجیب الرحمٰن شامی صاحب درست کہتے ہیں کہ اس گرفتاری کے اثرات صرف ایک ادارے تک محدود نہیں رہیں گے۔ دور دور تک پہنچیں گے۔ فیصل واؤڈا کو کوئی پسند کرے نہ کرے، ان کی خبر بہرحال وزن رکھتی ہے۔ ان کی خبر یہ ہے کہ اب پاکستان کو ترقی کرنے سے کوئی روک نہیں سکتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نظام کو اندر سے بریکیں لگانے والوں کے ہاتھ میں اب اسٹیرنگ یا کوئی بھی پرزہ نہیں رہے گا۔ اب جسے جو سمجھنا ہے، سمجھ لے، ریاست اپنا رخ متعین کر چکی ہے اور اب اس کی راہ میں آنے کی اجازت کسی کو نہیں دی جائے گی۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ کشمکش ختم ہو چکی، اس کا مطلب یہ ہے کہ دشمن کا اہم ترین مورچہ زیر ہو چکا۔