ابو نثر یعنی احمد حاطب صدیقی بس یوں ہی سے آدمی ہیں۔ یہ بات کہنے کو تو میں کہہ بیٹھا ہوں لیکن وہ چوں کہ معوذ اسد صدیقی کے چچا ہیں، اس لیے ان کے ساتھ اتنی بے تکلفی کی ہمت میں نہیں کر سکتا کہ معوذ کے رشتے سے وہ میرے بھی چچا ہی ہوئے۔
یونیورسٹی کے دنوں کی بات ہے، ابلاغ عامہ کے طالب علم کی حیثیت سے ہم لوگوں کی ذہنی کیفیت بس ایسی ویسی ہی تھی، بڑے بڑے نام ور صحافیوں کا نام سنتے یا اخبارات میں تسلسل کے ساتھ شائع ہونے والے کالم نگاروں کو پڑھ کر مرعوب ہو جاتے۔ یہ لوگ ہمیں کسی دوسری دنیا کی مخلوق لگتے جن کے ذہن میں خیالات ہمہ وقت بارش بن کر برستے ہیں اور وہ کوئی منفرد سی بات یوں آسانی کے ساتھ کہہ دیتے ہیں جیسے راہ چلتے چلتے بیری سے پتہ توڑ لیا جائے۔ احمد حاطب صدیقی کے بارے میں بھی میرے تصورات کچھ ایسے ہی تھے کہ ایک حادثہ ہو گیا۔
محمد طارق صدیقی میرا ہم جماعت تو نہیں البتہ ہم سال یعنی سیشن فیلو تھا۔ یہ طاہر علوی تھا جس کی معرفت میری اس سے دوستی ہوئی اور وہ میری محبت میں وقت سے پہلے جامعہ پہنچتا اپنی اماں کے ہاتھ کے بنے ہوئے خستہ پراٹھے لاتا تاکہ میں ہاسٹل میں رہنے والوں کی طرح بھوکے پیٹ کیمپس نہ پہنچ جاؤں۔ ایک روز وہ اور میں اکٹھے ایک بجے کے پوائنٹ پر سوار ہوئے تاکہ ساحل کی ہوا کھاتے ہوئے پان چبا سکیں۔ جامعہ کے پوائنٹس میں عام طور پر کھڑے ہونے کی جگہ بھی مشکل سے ملا کرتی تھی ۔ ہم دونوں چھت پر لگی ریلنگ کو تھامے جھکے کھڑے تھے تاکہ باہر سے آنے جانے والوں کی تاکا جھانکی بھی کی جا سکے۔ جامعہ کی نستعلیق زبان میں اسے بھُونڈی بھی کہا جا سکتا ہے۔ اللہ کی شان کہ اسی نظارے کے دوران میں طارق ذرا سے جوش کے ساتھ بولا، وہ رہے احمد حاطب چچا۔ میں نے دیکھا کہ ایک سانولا سا دھان پان سا آدمی کچھ کاغذ بغل میں دبائے سر جھکائے چلا آتا ہے۔
‘ کون ہیں یہ صاحب ؟’
میں نے طارق سے پوچھا تو کہنے لگا کہ یار یہ وہی ابو نثر ہیں جن کے کالموں کا تم ذکر کرتے رہتے ہو۔ میرے ارمانوں پر اوس پڑ گئی۔ میرے ساتھ اور میرے ساتھ ہی کیا، اس زمانے میں اخبارات سے دل چسپی رکھنے والے ہر نوجوان کا خیال عام طور پر ایسا ہی ہوا کرتا تھا کہ یہ لکھنے والے بڑے خاص لوگ ہوتے ہیں۔ یہ کچھ ایسی ہی بات تھی جیسے قصے کہانیوں میں ہوا کرتا تھا کہ فلاں بادشاہ سونے کا نوالہ کھاتا اور چاندی کی اینٹوں پر چلا کرتا تھا۔ کالم نگاروں کے بارے میں کم از میرا خیال یہی تھا لیکن چچا کو دیکھ کر یہ خوب صورت خواب پریشاں ہو گیا۔ پہلی بار احساس ہوا کہ یہ لوگ ہمارے جیسی ہی مخلوق ہیں جنھیں کہیں جانے کے لیے بس کے پیچھے بھاگنا پڑتا ہے اور دھوپ سے بچنے کے لیے ہاتھ کا چھجا بنا کر پیشانی پر رکھنا پڑتا ہے۔ یہ جو چچا کو میں نے یوں ہی سا آدمی کہا ہے، اس کا پس منظر یہ ہے ورنہ وہ ہیولا جو میرے ذہن میں تھوڑا مختلف تھا۔
یہ بھی پڑھئے:
بلوچ راجی مچی, خوشحال بلوچستان اور مضبوط پاکستان کی نوید
غدّاران وطن اور جارُوب کَش بیانیہ
استاد جس نے بالٹیاں اور لوٹے بنائے اور بیچے
سارا الزام محکمہ موسمیات کو کیوں؟
چچا کی شاعری کا علم تو مجھے بعد میں ہوا، پہلے ان کی نثر سے واسطہ پڑا۔ میری نسل کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے اپنا لڑکپن اور نوجوانی اس زمانے میں گزاری جسے اردو مزاح کا عہد زریں کہا جاتا ہے۔ لاہور میں مخدومی عطا الحق قاسمی کا طوطی بولتا تھا اور کراچی میں خلد آشیانی مشفق خواجہ کا جو خامہ بگوش کے قلمی نام سے لفظوں سے موتی پروتے تھے۔ پھر نصر اللہ خان مرحوم تھے، شاعر کبیر حضرت احمد ندیم قاسمی عنقا کے پردے میں تبسم بکھیرتے تھے اور عبد القادر حسن اپنے طنز میں بھی رنگوں کی ایسی پچکاری چھوڑتے تھے کہ مسکراہٹ روکنا مشکل ہو جاتی۔ اسی طرح شاعری میں حضرت سید ضمیر جعفری، دلاور فگار اور عنایت علی خان کا طوطی بولتا تھا۔ رنگوں کی اس کہکشاں میں کسی نئے لکھنے والے کا رنگ جمانا کوئی آسان کام نہیں تھا لیکن سچ یہی ہے کہ وہ اپنا رنگ جمانے میں کامیاب رہے۔ میرے ذہن میں ان کی تصویر کچھ ایسی تھی کہ بھرے ہوئے جسم کا ایک اونچا لمبا سا شخص ہو گا، کلے میں جس کے پان ہو گا اور وہ منھ پکا کر کے چلتے چلتے نک سک سے درست کرخنداری زبان میں پھلجھڑیاں چھوڑتا رہتا ہو گا مگر انھیں دیکھ کر وہ بات ذہن میں آئی جسے آسانی کے ساتھ پھکڑ پن کے زمرے میں رکھا جا سکتا ہے۔ اہل پنجاب کہا کرتے ہیں کہ کراچی والوں کو کیا معلوم کہ گندم کا درخت ہوتا ہے یا پودا۔ خیر اس اجمال کی تفصیل ذرا خطرناک ہے اس لیے بہتر یہی ہے کہ ان کی شاعری پر بات کی جائے اور شاعری میں بھی بچوں کی شاعری پر۔
شاعری میں نظموں کا مطالعہ میں ذرا سنبھل کر کرتا ہوں۔ اب یہ کوئی میرا قصور ہی ہو گا کہ جیسے نثر کو میں گھنٹوں بیٹھ کر بلا تکان پڑھ سکتا ہوں، میرے تعلق سے نظمیں اتنی خوش نصیب نہیں ہیں۔ اس طرح کی کتابیں جہاں تہاں سے پڑھتا ہوں، لطف آنے لگے تو دوسری بار پڑھتا ہوں پھر زبان کے اس چسکورے کی طرح جو کوئی خوش ذائقہ چیز کھا لینے کے بعد منھ کا ذائقہ برقرار رکھنے کے لیے دیر تک کلی نہیں کرتا، میں بھی کچھ نہیں پڑھتا اور اگر توفیق ارزانی ہو جائے تو دو ایک مصرعے دیر تک گنگناتا رہتا ہوں۔
اب کوئی مبالغہ نہ جانے تو احمد حاطب چچا کی یہ خوش نصیبی ہے کہ شروع میں ہی ان کی کوئی ایسی نظم مجھے پڑھنے کو ملی جس کی سادگی بلکہ بھولپن نے مجھے پکڑ لیا۔ بھولپن کا ذکر ہوا ہے تو اب کچھ ذکر بچوں کی معصومیت کا بھی ہو جائے۔ یہ جو بچے ہمیں پیارے لگتے ہیں اور ہم ان کی باتوں کو دل ہی دل میں مزے لے کر دہراتے رہتے ہیں، اس کا سبب ان کا بھول پن ہوتا ہے جس میں اکثر اوقات شرارت ہوتی ہے جسے فی الاصل بدمعاشی کہنا چاہیے۔ اصل میں ہوتا یہ ہے کہ انسان جیسے جیسے بڑا ہوتا جاتا ہے، وہ بد قسمتی سے اس انداز فکر سے محروم ہو جاتا ہے جو بچے کی زبان سے ایسی کمال کی باتیں نکلوا دیتا ہے۔ احمد حاطب صدیقی کا کمال یہ ہے کہ بڑا بلکہ بوڑھا ہو جانے کے باوجود انھوں اپنی اس ذہنی ساخت کو سنبھال کر رکھا ہوا جو سننے پڑھنے والوں کے دل میں گدگدی کر سکتا ہے۔ ان کی نظم کا ایک بند ہے:
نانی کے میاں تو نانا ہیں
دادی کے میاں بھی دادا ہیں
جب آپا سے میں نے پوچھا
باجی کے میاں کیا باجا ہیں؟
وہ ہنس ہنس کے یہ کہنے لگیں
اے بھائی نہیں، اے بھائی نہیں
ان شعروں کو پڑھ کر بچوں کے بدمعاشی بھرے سوال سن کر لطف آتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی قلعہ معلیٰ کی اردو بھی تازہ ہو جاتی ہے۔ یہ سوچ کر دل مٹھی میں آ جاتا ہے کہ اب ‘ اے بھائی نہیں’ جیسی کوثر و تسنیم سے دھلی ہوئی زبان میں بات کرنے والے کتنے رہ گئے ہیں؟ تو بات یہ ہے کہ احمد حاطب صدیقی کی نظموں میں صرف معصوم سوالوں کی شیرینی ہی نہیں ہے بلکہ اردو کا وہ نادر لہجہ بھی محفوظ ہے جسے ہمیں اپنی زبان خوبی کے طور پر نہ صرف یہ کہ محفوظ
بلکہ زندہ رکھنا چاہیے۔ اچھا، اس زبان کی ایک بات اور بھی ہے۔ دلی کی اشرافیہ کی زبان کے ایک لہجے کو بیگماتی زبان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، احمد حاطب صدیقی کی زبان کا یہ انداز اسی خوب صورت لہجے کی یاد دلاتا ہے، اچھی زبان سیکھنے کے لیے جس سے استفادہ ضروری ہے۔
ان کی شاعری میں صرف اچھی اور برجستہ زبان کا لطف ہی نہیں بلکہ مقصدیت بھی اپنی چھب دکھاتی ہے۔ ان کی مقصدیت کے میری نظر میں دو پہلو ہیں۔ ایک نظریاتی، دوسرے تہذیبی۔ ہم جب ان دو پہلوؤں کی مزید تفصیل میں اترتے ہیں تو اس میں مخلوق خدا کا احترام اور سماج کو اس کی اعلیٰ سطح پر برقرار رکھنے کے لیے پاکیزہ کوشش موجزن نظر آتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے قاری کو یہ بتاتے ہیں کہ شرف انسانی کیا ہے اور اسے برقرار کیسے رکھنا ہے۔ اللہ کی بے زبان مخلوق کے حقوق کیا ہیں اور اس سلسلے میں انسان کی ذمے داری کیا ہے۔ اسی طرح وہ اپنے نوخیر قارئین کو اپنے دل چسپ انداز میں ماحولیات کی اہمیت سے آگاہ کرتے ہیں جیسے:
مسلمان ہوں مسلماں ہوں
میں رہتا صاف ستھرا ہوں
لباس و جسم کو ہر وقت
پاک و صاف رکھتا ہوں
جہاں جاؤں جہاں بیٹھوں
ہمیشہ پاک صاف رہتا ہوں
کوئی کاغذ کوئی چھلکا
کوئی پیکٹ کوئی ڈبا
زمیں یا فرش پر میں نے
کبھی ہرگز نہیں پھینکا
صفائی ہر جگہ رکھنا
مری عادت کا ہے حصہ
اس نظم میں وہ بچوں کے شعور کو مخاطب کر کے اسے بتاتے ہیں کہ عقیدے کے اعتبار سے وہ مسلمان ہیں اور مسلمان کیسا ہوتا ہے۔ اس کے جسم و جاں کیسے ہوتے ہیں اور وہ اپنے گرد و پیش کو کیسا رکھتا ہے۔ اسی طرح ان کی ایک نظم ہے، ‘میں کچھ بھی کہہ نہ پایا’۔ اس نظم میں وہ ایک گھوڑے کا ماجرا بیان کرتے ہیں جو کوچ بان کے تشدد کی وجہ سے معذور ہوا۔ وہ گھوڑے کی کیفیت اور شاعر کے ساتھ اس کا مکالمہ اس خوبی کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ منظر آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے اور کانوں کو مکالمے کی آواز صاف سنائی دیتی ہے۔
ہماری تہذیب میں مولوی اسمٰعیل میرٹھی سے لے صوفی تبسم تک بچوں کی شاعری کی بڑی تابندہ روایت ہے۔ احمد حاطب صدیقی نے اسی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے بعد آنے والے شاعر کے لیے مثال قائم کر دی ہے۔