Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
استاد گرامی پروفیسر زکریا ساجد صاحب چلے گئے۔ ذہن کام نہیں کر رہا لیکن تصویریں ہیں کہ ایک کے بعد ایک آتی چلی جاتی ہیں۔ شعبے میں میرے داخلے کا مسئلہ تھا۔ شعبہ بنگالی کے پروفیسر محی الدین چودہری نے میرے کام کا فائل ساجد صاحب کے سامنے رکھا تو خوشی کی لہر ان کے چہرے پر آ گئی۔ انھوں نے میرا کاندھا تھپتھپایا اور کاغذ کے ایک ٹکڑے پر چودہری صاحب زندہ باد لکھ کر شیشے کے نیچے دبا دیا۔ چودہری صاحب اٹھ کر چلے گئے اور میں امید و بیم کے سمندر میں غوطے کھانے لگا۔ ایک دن کیا دیکھتا ہوں کہ ساجد صاحب کاریڈور میں کھڑے دائیں بائیں دیکھ رہے ہیں۔ مجھے آتا دیکھ کر زور سے پکارے:
‘ ادھر آ اوئے چندرے کیا نام ہے تمھارا؟’
میں بلانے کے اس انداز سے ابھی جانبر نہیں ہو پایا تھا کہ انھوں نے بازو سے مجھے پکڑا اور اپنے دفتر میں داخل ہو گئے۔ کرسی پر بیٹھ کر انھوں نے دراز سے واؤچر نکالا اور کہا:
‘ چل جا چندرے فیس جمع کرا۔’
چندرے ایک ایسا لفظ تھا، شعبہ ابلاغ عامہ جامعہ کراچی میں جس کا بڑا شہرہ تھا۔ صدر شعبہ کی حیثیت سے وہ زکریا ساجد صاحب کا آخری دن تھا جب ہم نے ان کے لیے الوداعی تقریب منعقد کی۔ متین صاحب نے اس روز اپنے خاص دھمیمے انداز میں یادیں تازہ کیں۔ کہنے لگے۔ کبھی وہ دن تھے، ساجد صاحب چندرا کہتے تھے تو دکھ ہوتا تھا اور ہم دل مسوس کر کسی کونے میں جا چھپتے تھے پھر وہ دن بھی آئے جب فخر ہونے لگا کہ یہ تو ساجد صاحب کا دیا ہوا لقب ہے۔ متین صاحب کی بات ختم ہوئی تو ساجد صاحب کی باری آئی۔ مسکراتے ہوئے روسٹرم پر آئے اور ذرا سا کھنگار کر کہنے لگے یہ خوب تم لوگوں نے لفظ پکڑا ہے۔ ہمارے مشرقی پنجاب میں چندرا چھوٹے چاند کو کہتے ہیں۔ بیٹا بڑا ہو گیا تو چاند، چھوٹا سا منا سا ہوا تو چندرا۔ بات صاف ہو گئی، کسی کے دل میں اگر کچھ تھا تو وہ بھی نہ رہا۔
ویسے یہ بھی حقیقت ہے کہ جامعہ کراچی میں ہمارا واحد شعبہ تھا جس میں دل میں بات رکھنے والا اس زمانے میں کوئی ایک بھی نہیں تھا۔ دائیں بائیں کے شعبہ جات خاص طور پر شعبہ سیاسیات میں جوڑ توڑ کی کہانیاں آئے روز سننے کو ملتیں لیکن اگر کسی شعبے کے بارے میں کچھ سننے کو نہ ملتا تو وہ ہمارا شعبہ تھا۔ دیگر شعبہ جات کے لوگ بھی رشک کرتے اور کھلے بندوں تعریف بھی۔ یہ ان ہونی کیسے ممکن ہوئی ہوگی؟ سچ پوچھیں تو اس کا کریڈٹ بس ایک ہی فرد کو جاتا ہے۔ وہ ساجد صاحب تھے۔
یہ بھی پڑھئے:
سارا الزام محکمہ موسمیات کو کیوں؟
نظریہ ضرورت سے نظریۂِ سہولت تک
مظہر کلیم کی عمران سیریز میں جنوں کی کہانیاں
تیزاب کا تالاب اور سنگدل تماش بین
شعبہ ابلاغ عامہ جامعہ کراچی میں بڑے اچھے اچھے اساتذہ گزرے ہیں۔ پروفیسر شریف المجاہد صاحب، انعام الرحمن صاحب اور سعید صاحب لیکن یہ سب پہلے کی باتیں ہیں۔ ہم اس دور کے گواہ نہیں ہیں۔ گواہی اگر کسی دور کی دی جا سکتی ہے تو وہ ساجد صاحب کا دور ہے۔ لوگ صدر شعبہ کی ریٹائرمنٹ کے دن گنتے ہیں کہ وہ جائیں تو ہماری باری آئے لیکن ساجد صاحب ایسے تھے جن کے بارے میں بغیر کسی ترغیب کے اور ان کے علم میں لائے بغیر دو بار اساتذہ نے لکھ دے دیا کہ ہم اپنی باری نہیں لینا چاہتے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ساجد کی موجودگی میں ہم صدر شعبہ بنیں۔ ان کی ریٹائرمنٹ کا وقت آیا تب اساتذہ وفد بنا کر وائس چانسلر کے پاس پہنچے اور انھیں ایکسٹینشن دینے کا مطالبہ کیا۔ دنیا میں ایسا کم کم ہوتا ہے لیکن ہمارے شعبے میں تو ایسا ہوا۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟
ایک دن کی بات ہے، بابا غفور ( نائب قاصد) ساجد صاحب کے کمرے سے نکلے اور کہا کہ ساجد صاحب تمھیں اور محمود حسین کو بلاتے ہیں۔ ہم گھبرائے کہ ایسا کیا قصور ہو گیا ہے کہ یوں طلب کیا گیا ہے۔ ڈرتے ڈرتے ان کے کمرے میں داخل ہوئے اور فائل رکھنے کے آہنی ریک کے قریب جا کر کھڑے ہو گئے۔ ہمیں دیکھتے ہی کہا:
‘ یہ لو فون نمبر۔ یہاں فون کرو اور اس کے پاس پہنچ جاؤ۔’
‘ سر، اس کے پاس جا کر کیا کرنا ہے؟’
ہم نے سوال کیا تو کہنے لگے:
‘ تم میرے بالٹیاں اور لوٹے ہو، میں نے تمھیں بیچنا ہے۔’
ہم خوش ہوئے کہ استاد ہمیں اپنی مصنوعات سمجھتا ہے۔ کچھ وقت گزرا تو سمجھ میں آیا کون ہے جو کبھی نہ کبھی اس فیکٹری کا بالٹی اور لوٹا نہیں بنا۔ لوگ جامعات میں آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں پھر وہ جانیں، ان کا کام جانے لیکن ساجد صاحب دنیا کے ان چند لوگوں میں سے ایک ہوں گے جنھیں اپنے طلبہ کے بارے میں فکر رہتی اور وہ ان کے روزگار کے بندوبست کے لیے فکر مند ہی نہ رہتے، عملاً کوشش بھی کرتے۔ پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ان کے ہزاروں طالب علم برملا اعتراف کرتے ہیں کہ کم از کم پہلی ملازمت تو ان کی مہربانی اور کوشش سے ملی۔
یہ کہانی صحافیوں کی ہے۔ شعبہ ابلاغ عامہ میں چند برس پہلے تک جتنے بھی استاد تھے ، وہ سب کے سب ساجد صاحب کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودا تھے۔ وہ جیسے اپنے شاگردوں کے بارے میں فکر مند رہتے، اسی طرح شعبے کی بہبود اور ترقی کبھی ان کی نگاہ سے اوجھل نہیں ہوئی۔ اپنے شاگردوں کو تو وہ جانتے ہی تھے، شہر بھر کے اخبارات میں مختلف حیثیتوں میں کام کرنے والے صحافیوں پر بھی ان کی نگاہ ہوتی۔ انھیں معلوم ہوتا کہ فلاں شخص میں پڑھانے اور بات سمجھانے کی خوبی ہے، کوئی شخص تحقیق میں دل چسپی رکھتا ہے۔ وہ اسے پکڑ کر شعبے میں لے آتے۔ شروع میں وزٹنگ فیکلٹی کے طور پر اور بعد میں مستقل استاد کی حیثیت سے۔ متین الرحمن مرتضیٰ صاحب، نثار احمد زبیری صاحب، میڈم شاہدہ قاضی، ڈاکٹر طاہر مسعود، شمس الدین صاحب اور محمود غزنوی صاحب کے علاوہ اساتذہ کی ایک طویل فہرست ہے جو ان نگہ انتخاب میں آئی۔ ان کا لایا ہوا ہر استاد ایک سے بڑھ کر ایک نکلا اور شعبے کے لیے اثاثہ ثابت ہوا۔
ساجد صاحب کا زمانہ سرد جنگ کا زمانہ تھا جس میں دائیں اور بائیں بازو کی تفریق نے معاشرے کو جکڑ رکھا تھا۔ دائیں اور بائیں اور سرخ و سبز کی تقسیم ایسی کڑی تھی کہ خوف آتا تھا، انتہاؤں میں پھیلے ہوئے اس سمندر میں وہ اعتدال کا جزیرہ تھے۔ وہ تحریک پاکستان کے کارکن تھے۔ محترم مجید نظامی اور ارشاد احمد حقانی صاحب نے تحریک میں ان کے ساتھ کام کیا تھا۔ وہ نوائے وقت کے پہلے نیوز ایڈیٹر تھے۔ اس نظریاتی پس منظر کے باوجود طلبہ کو روزگار دلانے اور اساتذہ کے انتخاب میں ان کے پیش نظر کبھی یہ پہلو نہیں رہا۔ جامعہ کراچی اور ملک کی دیگر جامعات میں ان کی وجہ سے جگہ پانے والے اساتذہ کی طویل فہرست دیکھیں تو اس میں ہر مکتبہ فکر کے چراغ جگمگاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
نظریاتی وسعت کے علاوہ ان کی شخصیت کا ایک اور پہلو بھی قابل رشک ہے۔ ان پر اعتراض کیا جاتا کہ وہ انتہائی تنگ نظر قوم پرستوں پر بھی شفقت کرتے ہیں۔ وہ لوگ جو پاکستان پر یقین نہیں رکھتے، ان کے ہاں بھی ان کی قدر و منزلت اور احترام تھا۔ سبب یہ تھا کہ انھوں نے پسماندہ اور پچھڑے ہوئے علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے لیے شعبے کے دروازے کھول دیے۔ بڑی محبت کے ساتھ ان کی راہ نمائی کی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ایسے لوگوں کی تلخی بھی محبت میں بدل گئی۔ ان کی محبت کا یہی انداز تھا جس کی وجہ سے وہ ہر دل میں بستے تھے۔ شعبہ میں انھیں جو محبت اور احترام ملا، اس کی لوگ توقع ہی کر سکتے ہیں۔
میں بھی ان کی محبت کے ہزاروں اسیروں میں سے ایک ہوں۔ ان سے جب بھی ملاقات ہوتی، وہ پیار سے گلے لگاتے، سر پر ہاتھ پھیرتے، ماتھا چومتے۔ میری پہلی کتاب ‘ ایک آنکھ میں امریکا’ شائع ہوئی تو میں ان کی خدمت میں پیش کرنے حاضر ہوا۔ بہت خوش ہوئے۔ کتاب کو بار بار چوما اور دعائیں دیں۔ 27 دسمبر 2007ء کو میری بہن کی رخصتی تھی۔ تقریب کی تیاریاں جاری تھیں کہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کی خبر آ گئی۔ تقریب ممکن نہ رہی۔ احباب اور رشتے داروں کی ایک بڑی تعداد مدعو تھی لیکن فکر مندی کا فون صرف ایک شخص نے کیا۔ گھر میں میری عدم موجودگی کی وجہ سے اہلیہ نے فون سنا اور مجھ پوچھا کہ ساجد صاحب کون ہیں؟ میں نے تشویش کے ساتھ کہا کہ کیوں کیا ہوا، میرے استاد ہیں۔ بشریٰ کہنے لگیں کہ اس مشکل میں اگر کسی کو ہماری پریشانی ہے تو صرف وہی ہیں۔ ابھی ان کا فون آیا تھا۔ بڑے فکر مند تھے۔ کہہ رہے تھے کہ اس طرح کے حالات میں تقریب تو نہیں ہو سکتی، رخصتی کیسے ہوگی؟
جن دنوں میں ایوان صدر میں تھا۔ ایک بار ایسا ہوا کہ صدر مملکت ممنون حسین صاحب نے براہ راست فون کر کے مجھے فوری طور پر طلب کیا۔ صدر صاحب کا خود فون کر کے طلب کرنا معمولی بات نہ تھی، ذرا سی تشویش کے ساتھ بھاگم بھاگ پہنچا۔ دیکھا کہ صدر صاحب اپنی نشست پر تشریف رکھتے تھے، ان کے سیکرٹری صاحب کے علاوہ ایک اور صاحب بھی فائل میں سر دیے بیٹھے تھے۔ صدر صاحب مجھے دیکھ کر مسکرائے۔ میرے بیٹھنے کا انتظار کیا پھر کہا کہ تمھارے کہنے پر جن صاحب کو ہم نے صدارتی ایوارڈ کے لیے نامزد کیا ہے، انھوں نے تو ایوارڈ لینے سے انکار کر دیا ہے۔ حیرت کے ساتھ میں نے پوچھا کہ وہ صاحب کون ہیں؟ فائل والے افسر نے دو تین ورق پلٹنے کے بعد سر اٹھایا اور کہا:
‘ کوئی پروفیسر صاحب ہیں، سم تھنک ساجد۔۔۔ ‘
یہ کہہ کر وہ صاحب خاموش ہوئے پھر بولے:
‘ یہ تو بہت بری بات ہے۔ توہین ہے، صدر صاحب کی۔’
ایوان اقتدار میں ایسے مواقع لوگوں کو اکثر ملا کرتے ہیں اور کسی کمزور کے خلاف وہ صاحب اقتدار کو یوں ہی غصہ دلایا کرتے ہیں۔
وہ صاحب خاموش ہوئے تو میں نے پوچھا کہ انھوں نے کیا کہا ہے؟ بتایا گیا کہ کیبنٹ ڈویژن سے جب انھیں اطلاع دی گئی کہ صدر مملکت نے انھیں صدارتی ایوارڈ کے لیے منتخب کیا ہے تو انھوں نے کہا:
‘ مجھے کوئی ایوارڈ نہیں چاہئے، میں نے جو کچھ کیا، اس کا صلہ میرے بچے( طلبہ) اپنی محبت سے مجھے دیتے ہیں یا پھر اللہ دے گا۔’
میں نے عرض کیا کہ سر، اس سے تو ثابت ہوتا ہے کہ یہی شخص ایوارڈ کا اصل حق دار ہے۔’
صدر صاحب مطمئن ہو گئے اور کہا کہ ساجد صاحب جو بھی کہیں، ایوارڈ انھی کو دیا جائے گا۔
کوئی دو برس ہوتے ہیں جب میں کراچی گیا تو استاد محترم ڈاکٹر طاہر مسعود کے ہمراہ قدم بوسی کے لیے حاضر ہوا۔ ہمیشہ کی طرح پیار کیا پھر میرے ہاتھ پکڑ کر کہنے لگے، فاروق! معاف کر دینا، زندگی کا کچھ پتہ نہیں۔ میری ہچکیاں نکل گئیں۔