امجد صدیق کون ہیں اور کیا ہیں، یہ میں شاید زیادہ بہتر طریقے سے بتا نہ سکوں۔ وہ صحافی ہیں اور .نیشنل پریس کلب کے رکن ہیں، اگر یہی خبر مجھے دینی ہے تو پھر یہ کیا خبر ہوئی؟ تو عرض یہ ہے کہ امجد صدیق کو میں بالکل نہیں جانتا۔ برادرم طارق چودہری سے ایک بار ذکر ہوا تو کہنے لگے کہ چھوٹا بھائی ہے۔ وہ کچھ مزید بھی بتاتے لیکن میں نے اس کا موقع نہیں دیا اور بات کو اسرار کے پردے میں رہنے دیا۔
میں نے ایسا کیوں کیا؟ اس میں بھی ایک رمز پے۔ ایک رمز تو یہی ہے کہ اسرار میں تجسس ہے اور جس رشتے میں تجسس پیدا ہو جائے، عمومی طور پر دیکھا یہی گیا ہے، وہ رشتہ پائیدار ہو جاتا ہے۔ اب اس تمہید کے بعد میں عرض کرتا ہوں کہ میں انھیں کیسے جانتا ہوں۔ اصل میں بات یہ ہے کہ میرا اور امجد کا ایک درد مشترک ہے۔ بس اسی اشتراک نے ہمارے درمیان لاسلکی تعلق قائم کر دیا۔
استعمال کرنے کو تو میں یہ اجنبی سا لفظ یعنی لا سلکی استعمال کر گیا ہوں لیکن اب خیال آتا ہے کہ ہمارے دائیں بائیں کون ہے جو اس لفظ کی خوب صورتی کو سمجھ کر ہمارے رشتے کی داد دے؟
یہ بھی پڑھئے:
سپریم کورٹ نے پاکستان کو کہاں لا کھڑا کیا؟
تو قصہ یہ ہے کہ گراہم بیل نے جب ٹیلی فون ایجاد تو یہ دنیا کا پہلا آلہ تھا جو بظاہر کسی کنکشن کے بغیر دور بیٹھے ہوئے لوگوں کو جوڑ دیتا تھا۔ وہ اچھے زمانے تھے۔ ہمارے بزرگ باہر سے آنے والی ہر ایجاد کو اپنی قوم کے سامنے جیسے کو تیسا کر کے پیش نہیں کر تے تھے بلکہ اپنی زبان میں ترجمہ کر کے اس کا اصل تعارف اپنے لوگوں کے سامنے پیش کرتے تھے۔ بجلی کی تار ایجاد ہوئی تو اس میں شاید اس زمانے میں ریشم کا بھی کوئی کردار ہوگا لہٰذا یہ رابطہ لاسلکی قرار پایا۔ بجلی کے لیے بھی یہی لفظ استعمال ہوا۔ اب جو ٹیلی فون نے اس قسم کے تار سے بے نیاز کر دیاتو یہ بھی لاسلکی تعلق ہی قرار پایا۔ ان دنوں تو یہ ایک اور معنی میں لاسلکی معاملہ ہے کہ سیکولر ٹیکنالوجی نے یہ تار کا تصور ہی فنا کر دیا ہے یوں عربی کا لا زیادہ با معنی ہو گیا ہے۔ تو میں اعلان کرتا ہوں کہ تادم تحریر میری اس شخص سے کوئی ملاقات نہیں ہے، اگر کوئی رشتہ ہے تو وہ خالصتاً نظریاتی ہے۔
2018 ء میں جب پاکستانی جمہور کو اغوا کر کے ملک ایک سویلین ڈکٹیٹر یعنی عمران خان کے ہاتھ میں دے دیا گیا تو جمہوریت اور شہری آزادیوں پر یقین رکھنے والے حساس دل تڑپ اٹھے۔ ان میں ایک ان سطور کا لکھنے والا بھی تھا۔ جمہوریت کی بحالی اور تحفظ کے لیے میری نحیف آواز میں جہاں دیگر بہت سے اہل وطن نے آواز ملائی، ان میں امجد صدیق بھی تھے۔ یہ اس کے باوجود تھا کہ ہمارے درمیان اس وقت تک لا سلکی رشتہ بھی قائم نہیں ہوا تھا۔ اسی دوران میں ان کی کتاب ‘ سفر کہانی’ شائع ہوئی اور ایک دلچسپ ٹیلی فونک رابطے کے بعد یہ میرے پاس پہنچ گئی۔
یہ کتاب کیا ہے اور کیسی ہے؟ اس پر بہت سے دوستوں نے اظہار خیال کیا ہے۔ بہت سارے دوستوں نے پڑھ کر کیا ہوگا اور کچھ نے روایت برقرار رکھی ہوگی۔ اس مختصر تمہید کے بعد یہ تسلیم کرلینے میں کوئی ہرج نہیں کہ جب یہ سطریں لکھی جا رہی ہیں تو ان میں اور کتاب کے مطالعے کے دوران میں کئی ماہ کا فاصلہ ہے۔
یہ فاصلہ کیوں پیدا ہوا، اس کا سبب بڑا دلچسپ ہے۔ میں نے سفر کہانی پڑھی تو سوال پیدا ہوا کہ میرے اس دوست نے یہ کتاب کیوں لکھی؟ کتاب جیسی بھی ہو، مصنف پڑھا لکھا ہو یا کورا، پر دو صورتوں میں وہ اپنے پڑھنے والوں کے ساتھ ایک واردات ضرور کرتا ہے۔ کسی نظریے کی آڑ لیتا ہے یا کسی فلسفے میں سادہ سی باتوں کو گوندھ کر انھیں پیچیدہ بنا دیتا ہے۔ میرے مطالعے کے مطابق یہ کام اب تک صرف دو لوگوں نے نہیں کیا۔ ان میں ایک غالب ہیں۔ غالب کے زمانے تک اردو نثر کا استعمال صرف خطوط نویسی تک محدود تھا لہٰذا انھوں نے خط لکھے اور کیوں لکھے، یہ راز انھوں خود ہی کھولا:
خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو
ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے
تو بات یہ ہے کہ غالب نے خط برائے خط لکھے اور امجد نے کتاب برائے کتاب لکھی۔
غالب نے اپنے خطوں میں کائنات کا کوئی راز نہیں کھولا، چھوٹی چھوٹی باتیں لکھی ہیں جن کا تعلق روزمرہ سے ہے۔ وہ آیا، وہ گیا، میں نے یہ کھایا، وہ پیا ، یہ دکھ ہے، وہ دکھ ہے۔ وغیرہ وغیرہ، کچھ ایسا ہی معاملہ امجد کا بھی پے۔ ان سے پوچھیں کہ وہ اپنے گھر میں اچھے خاصے خوش حال بیٹھے تھے پھر انھوں نے یہ سفر کیوں کیے؟ عین ممکن ہے بلکہ مجھے یقین ہے کہ غالب کی طرح کوئی فلسفیانہ جواب نہ دے سکیں، اس لیے اگر یہی سوال کوئی مجھ سے کہے تو میں یہ کہوں گا یہ چُل تھی، زمینداروں کے گھر میں پائی جانے والی ذرا سی تن آسانی، ایک ہی طرح کی دلچسپیاں اور مہم جوئی کی جستجو۔ بس، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ اس سے کچھ زیادہ ہوتا تو وہ جھوٹ ہوتا جو ہمارے سفر نامہ نگاروں میں مشترک ہے۔ چوں کہ یہ کتاب جھوٹ سے پاک ہے، اسی سبب سے کسی کوشش کے بغیر پنجاب کا یہ جاٹ آپ سے غالب جیسے آسمان کا پیرو دکھائی دیتا ہے۔
آخر میں؛ میں صرف اتنا ہی کہوں گا کہ ہمارے امجد نے ہمارے جلیل القدر شاعر کی طرح چھوٹی چھوٹی باتیں، چھوٹی چھوٹی چالاکیوں ، تجربوں اور دکھوں کو بیان کیا ہے اور کیوں کیا ہے ؟ میرے خیال میں بلاوجہ کیا ہے۔ کوئی بلاوجہ خط یا سفر نامہ کیوں لکھتا ہے، شاید اس لیے کہ وہ محبت کرتا ہے۔ غالب کی شاعری ہو یا خطوط، دونوں کا خمیر محبت سے پھوٹا ہے۔ اسی لیے میں یہ بات یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جمہور اور جمہوریت سے محبت کرنے والے سے آپ اسی قسم کے کارناموں کی توقع کر سکتے ہیں لہٰذا میں توقع کرتا ہوں کہ سفر کہانی کے بعد یہ سلسلہ رکنے والا نہیں، یہ شخص ہمیں کچھ مزید حیرتوں میں ضرور مبتلا کرے گا۔