فواد چودھری کی گرفتاری اور اس کے بعد پیدا ہونے والے حالات کو دھڑے بندی اور جذباتیت سے ہٹ کر سمجھنے کی ضرورت ہے۔
کسی نے کہا ہے کہ فواد منھ میں تیزاب لیے پھرتے ہیں جو مخالف دکھائی دیتا ہے، اس پر پچکاری مار دیتے ہیں، سیاسی اخلاقیات میں اگر چہ اس سطح پر بھی اترنا بھی ناپسندیدہ ہے لیکن ناگواری کے ساتھ ہی سہی، اسے برداشت کیا جا سکتا ہے کہ جب سے ان کی جماعت میدان میں اتری ہے ، یہ چلن عام ہو گیا ہے۔ اصل مسئلہ آئین، قانون اور ریاستی اداروں کی توہین بلکہ ان کی حکم عدولی ہے۔
پی ٹی آئی جب سے حکومت سے محروم ہوئی ہے، اس جماعت نے ریاست اور اس کے نظام کو سان پر رکھ لیا ہے۔ سیاسی مقاصد کی خاطر ریاست کو کمزور کرنا محض ناپسندیدہ نہیں بلکہ جرم اور ریاست سے بغاوت ہے۔ ایسی سرگرمی میں کوئی محب وطن نہیں بلکہ اس کا باغی ہی ملوث ہو سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
قریشی صاحب کا ٹوٹا تارا اور عمران خان
کوئی فرد خواہ وہ سیاسی شخصیت ہی کیوں نہ ہو عدلیہ اور الیکشن کمیشن اور ان کے اہل خانہ کو انتقام کی دھمکی دے تو اس کا مطلب سوائے بغاوت کے اور کیا ہے۔ اسی طرح پنجاب میں نگراں وزیر اعلیٰ کے تقرر کے بعد اس جماعت نے جو طرز عمل اختیار کیا ہے، وہ بھی آئین سے بغاوت ہے۔ 2018 کے انتخابات کے موقع پر ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کو الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کی تجویز پر نگراں وزیر اعلیٰ مقرر کیا تھا لیکن کیا اس موقع پر مسلم لیگ ن نے یہی رویہ اختیار کیا تھا جو آج پی ٹی آئی کا ہے؟ پولیس جب فواد چودھری کو لے کر اسلام آباد روانہ ہوئی تو اس موقع پر فرخ حبیب نے گاڑیاں روکنے کی کوشش کی اور بدزبانی کی۔ پی ٹی آئی کی حکومت ہوتی تو فرخ حبیب کا اب تک زن بچہ کولہو میں پلوایا جا چکا ہوتا۔
پی ٹی آئی کا طرز عمل اس وقت حکومت کی مخالفت اور سیاسی جدوجہد کا نہیں ، ریاست اور ریاستی اداروں حتیٰ کہ آئین سے بغاوت کا ہے۔ ایسی بغاوت سے نمٹنے کا طریقہ وہ نہیں جو سیاسی مخالفین سے نمٹنے کا ہوتا ہے۔
جو دوست فواد چودھری کی گرفتاری کو آزادی اظہار سے منسلک کر رہے ہیں، وہ اپنے نقطہ نظر پر نظر ثانی کریں۔
اس واقعے میں صرف ایک ہی چیز قابل تعریف ہے، وہ ہے فواد چودھری کا طرز عمل۔ پولیس کی تحویل میں ہونے کے باوجود وہ مسکراتے ہوئے پائے گئے، اعظم سواتی اور شہباز گل کی طرح انھوں نے بزدلی کا مظاہرہ نہیں کیا۔