کیہ حال اے جی، تسی ٹھیک او؟ ( کیا حال ہے، آپ اچھے ہیں؟)
فائل بغل میں دبائے ایک شخص ایوان صدر کے میٹنگ حال میں داخل ہوا اور اس نے سامنے کھڑی خاتون کو دیکھتے ہی حال احوال پوچھا۔ اس شخص کا دھیما اور مؤدبانہ انداز دیکھ کر محسوس ہوا کہ جیسے وہ اس خاتون کا پرانا جاننے والا اور کسی درجے میں ممنون احسان بھی ہے۔
یہ منظر میں نے حیرت سے دیکھا اور سوالیہ نگاہوں سے خاتون کی طرف دیکھا۔ یہ صدر مملکت کی پریس سیکرٹری تھیں۔ کہنے لگیں:
‘ یہ اسحٰق ڈار ہیں، ہمیشہ اسی طرح دھیمے اور مہربان لہجے میں بات کرتے ہیں، ورنہ میرا ان سے نہ کوئی تعارف ہے اور نہ مجھے ان کے ساتھ کبھی کام کرنے کا موقع ملا ہے’۔
ایک سیاسی شخصیت اور مسلم لیگ ن کے وزیر خزانہ کی حیثیت سے میرے لیے وہ اجنبی نہیں تھے لیکن اس قسم کے اسحق ڈار سے میرا پہلا تعارف تھا۔
اسی شام اتفاق سے وفاقی وزیر ماحولیات مشاہد اللہ خان مرحوم سے ملاقات ہوئی۔ ان کا کہنا تھا:
‘ یہ شخص بنیادی طور پر ایک محنت کش ہے۔ اللہ نے اسے بہت کچھ دے رکھا ہے لیکن محمود غزنوی کے ایاز کی طرح اپنی گدڑی ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ غریبوں کا درد ہمیشہ اس کے دل میں رہتا ہے’۔
سینیٹر اسحاق ڈار کتنے غریب پرور ہیں اور کتنے اچھے وزیر خزانہ رہے ہیں، اس سوال کا جواب تو تاریخ کے ذمے ہے لیکن سامنے کی بات یہ ہے کہ یہی اسحاق ڈار اب واپس وطن لوٹ رہے ہیں۔ صرف وطن واپس نہیں آ رہے ہیں بلکہ کئی برس طویل جلاوطنی ختم کر کے سیدھے ایوان اقتدار میں لینڈ کر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:
علامہ یوسف القرضاوی، بڑھئی بننے چلے تھے، عالم دین کیسے بن گئے
عمران خان فیس سیونگ کیوں چاہتے ہیں؟
ٹرانس جینڈر ایکٹ، مہسا امینی اور نظریاتی گھٹن
اسحاق ڈار کی وطن واپسی پاکستان کی معیشت کے لیے کتنی مفید ثابت ہوگی اور غربت کی چکی میں پستے ہوئے عوام کے لیے خیر کی کیا خبر لائے گی، یہ ایک مختلف سوال ہے۔ اس سوال سے زیادہ اہمیت اس سوال کی ہے کہ پاکستان مسلم لیگ اور اتحادی حکومت کے اندر اور خاص طور مسلم لیگ ن میں اس تبدیلی کا استقبال کس انداز میں کیا جائے گا؟
مسلم لیگ ن کے ردعمل کو جانچنے کے کئی پیمانے ہیں۔
- وہ ردعمل جو اس جماعت سے وابستہ کارکن اور راہنما آف دی ریکارڈ ظاہر کرتے ہیں۔
- وہ ردعمل جو مسلم لیگ ن کی نائب صدر اور پارٹی تاحیات قائد میاں محمد نواز شریف کی نمائندہ مریم نواز شریف کی طرف سے مختلف مواقع پر سامنے آیا۔
- وہ حکمت جس کے تحت وزارت خزانہ میں یہ تبدیلی متوقع ہے۔
مسلم لیگی حلقوں کا مفتاح اسمٰیعل کے بارے میں آف دی ریکارڈ تاثر بڑا دلچسپ ہے جیسے مسلم لیگ سندھ کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے ایک رکن نے مفتاح اسمٰیعل کے ذکر پر اس نمائندے کے سامنے ظاہر کیا۔ کہنے لگے:
‘ یار، یہ بھی عجب آدمی ہے۔ پیٹرول کی قیمت میں اضافے کا اعلان بھی مسکراتے ہوئے کرتا ہے جس سے عام آدمی کے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے’۔
مفتاح اسمٰیعل کے بارے میں مسلم لیگ صفوں میں اس قسم کا تاثر بظاہر منفی ہے لیکن اس قسم کے تبصروں کے باوجود مفتاح اسمٰیعل، ان کی صلاحیت، محنت اور مشکل حالات میں حکومت سنبھالنے کے بعد ان کے طرز عمل کی پزیرائی بھی کی جاتی ہے۔
سنٹرل کمیٹی کے اسی رکن کا کہنا ہے کہ مفتاح جانتے تھے کہ ان کی وزارت عارضی ہے اور عارضی وزارت کے باوجود ان کی ذمے داری کچھ اس قسم کی ہے جیسے قربانی کا بکرا لیکن اس کے باوجود انھوں نے اپنا کام نہایت محنت اور ایمان داری کے ساتھ کیا۔
مسلم لیگ کا دوسرا اور نہایت اہم ردعمل وہ ہے جو مسلم لیگ ن کی نائب صدر اور پارٹی کے تا حیات قائد میاں محمد نواز شریف کی نمائندہ مریم نواز شریف کی طرف سے مختلف مواقع پر سامنے آیا۔ مثلاً وزارت خزانہ نے جب تاجروں کے لیے بجلی کے بلوں میں ٹیکس شامل کر دیا تو اس موقع پر انھوں نے ایک دلچسپ ٹویٹ کیا:
‘ مفتاح بھائی بجلی کے بِل پر ٹیکس واپس لیں، تاجر بھائی پریشان ہیں اور شکوہ کر رہے ہیں۔ امید ہے آپ کوئی حل نکالیں گے۔’
مفتاح اسمٰیعل کی پالیسیوں کے بارے میں مریم نواز کا کوئی ایسا ٹویٹ پہلا اور آخری نہیں تھا بلکہ کئی بار انھوں نے اس سے ملتے جلتے ٹویٹ کیے۔ حالیہ دنوں میں پرائم منسٹر ہاؤس کے جو آڈیو لیکس آئے ہیں، ان میں بھی مریم نواز نے مفتاح اسمٰیعل کی پالیسیوں پر اعتراض کیے ہیں جیسے:
ʼاسے پتا نہیں کہ یہ کر کیا رہا ہے، اس نے بہت مایوس کیا، اس کی شکایتیں ہر جگہ سے آتی رہتی ہیں’ ۔
مفتاح اسمٰیعل کے استعفے اور سینیٹر اسحاق ڈار کی وزارت خزانہ میں آمد کے پس پردہ حکمت عملی کو مریم نواز کی ان گفتگوؤں اور ٹویٹس کی مدد سے آسانی کے ساتھ سمجھا جاسکتا ہے۔
ن لیگ کے ایک اندرونی ذریعے کے مطابق ان کی جماعت حکومت میں آنے سے پہلے ہی سمجھتی تھی کہ ملک کی اقتصادی صورت حال کے پس منظر میں کاروبار مملکت سنبھالنا آسان نہیں ہو گا کیوں کہ آئی ایم ایف سے مدد لیے بغیر ملک چلایا نہیں جاسکے گا اور آئی ایم ایف سے معاہدے کا نتیجہ عوام پر شدید معاشی دباؤ کی صورت میں برآمد ہو گا۔ پارٹی جانتی تھی کہ یہ صورت حال تھوڑے ہی دنوں میں مسلم لیگ کو مقبولیت کے اعتبار سے اس پوزیشن میں لا کھڑا کرے گی جو تحریک عدم اعتماد سے قبل پاکستان تحریک انصاف کی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ مسلم لیگ نے ابتدا سے ہی وزارت خزانہ کے فیصلوں اور مفتاح اسمٰیعل کے بارے میں نہایت سوچا سمجھا مؤقف اختیار کیے رکھا۔ اس حکمت عملی کا مقصد ہی یہی تھا کہ مفتاح اسمٰیعل کے زمانے کے فیصلوں کا بوجھ آسانی سے پارٹی کے کاندھوں سے اتارا جا سکے تا کہ جب مسلم لیگ ن انتخابی میدان میں اترے تو وہ ہلکی پھلکی ہو۔
آئی ایم کی شرائط کی وجہ سے عوام پر بوجھ پڑنے کی وجہ سے مسلم جس دباؤ کا شکار ہوئی ہے، اس سے نجات کیسے ممکن ہے؟ اس سوال کا جواب بھول بھلیوں کے کھیل جتنا پیچیدہ ہے۔ مفتاح اسمٰیعل کچھ عرصے سے ایسے سگنل دے رہے تھے کہ اکتوبر سے عوام کو نہ صرف پیٹرول کے نرخوں میں قابل ذکر آسانی میسر آئے گی بلکہ ہوش ربا مہنگائی میں بھی کمی آنی شروع ہو جائے گی۔ مسلم لیگی حلقوں سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق اس کی کئی وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ تو تو وہی آئی ایم ایف سے کامیاب ڈیل ہے۔ دوسری وجہ حالیہ دورہ امرکا کے موقع پر آئی ایم ایف کے ساتھ مفتاح اسمٰیعل ہی کی قیادت میں دوبارہ مذاکرات ہیں جن کی وجہ سے مزید کئی رعایتیں یقینی دکھائی دیتی ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت کو یقین ہے کہ مختلف ذرائع سے آئندہ چند ہفتوں میں تقریباً آٹھ ارب ڈالر کے قریب رقوم پاکستان کو مل جائیں گی لہٰذا توقع کی جا رہی ہے کہ زر مبادلہ کے ذخائر میں یہ اضافہ حکومت اور عوام دونوں کے لیے ایک بڑی ریلیف کا ذریعہ بن جائے گا۔
یوں بدلے ہوئے حالات میں بدلی ہوئی اقتصادی قیادت اتحادی حکومت اور خاص طور پر مسلم لیگ ن کو آسانی کے ساتھ سانس لینے کا موقع ہی مہیا نہیں کرے گی بلکہ آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کہ وجہ سے یہ جماعت جس عدم مقبولیت کا شکار ہو گئی ہے، ایک تازہ دم وزیر اور اس کی طرف سے فراہم کی گئی اقتصادی رعایتوں کی وجہ سے کھوئی ہوئی مقبولیت کو دوبارہ حاصل کرنے بھی کامیاب ہو جائے گی۔ مسلم لیگ اس ضمن میں کتنی پر امید ہے، اس کا اندازہ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ کی گفتگو سے ہوتا ہے۔ بی بی سی نے ان سے سوال کیا تھا کہ ان کی حکومت اسحاق ڈار سے کیا توقعات رکھتی ہے۔ ان کا کہنا تھا:
‘ اسحق ڈار مسلم لیگ ن کے انتہائی سینیر رہنما ہیں۔ ان کے کے حوالے سے ہماری حکومت اور جماعت میں مکمل یکسوئی ہے۔ اسحاق ڈار کی جماعت کیلئے بے شمار خدمات اور قربانیاں ہیں۔ معاشی میدان میں اسحاق ڈار کی کارکردگی سب کے سامنے ہے۔ اسحاق ڈار صاحب کو پارٹی قائد میاں نواز شریف کا مکمل اعتماد حاصل ہے۔ مجھے پورا یقین اور اعتماد ہے کہ اسحاق ڈار صاحب اپنی صلاحیتوں کی بدولت پاکستان کو مشکل معاشی حالات سے نکالیں گے۔’
‘ کیا مسلم لیگ ن نے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے ایک ایسے وزیر خزانہ کو قربان کر دیا جس نے بقول خود ن لیگ کے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر معیشت کو سنبھالا دیا؟’
میرے اس سوال پر موجودہ حکومت میں انتہائی اہم عہدے پر فائز ایک شخصیت نے کھل کر قہقہہ لگایا اور کہا:
: یہ آپ سے کس نے کہہ دیا’۔
پھر ایک شعر پڑھا:
اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے
اس کے بعد کہا:
‘ ان کی قربانی رائیگاں نہیں جائے گی’۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ منکسر المزاج وزیر خزانہ جن سے غیر معمولی امیدیں وابستہ کی جا رہی ہیں، ان امیدوں پر پورے اترتے بھی ہیں یا نہیں؟
یہ مضمونhttps://www.bbc.com/urdu پر بھی شائع ہو چکا ہے