ایران میں مہسا امینی کی درد ناک موت اور ہمارے یہاں ٹرانس جینڈر ایکٹ کے باب میں جو کچھ ہوا، اس نے استنبول ایئرپورٹ کے ایک واقعے کی یاد تازہ کر دی۔ یہی موقع تھا جب مجھ سے ایک سوال کیا گیا:
‘ سر، کیا کوئی ایسا اجتماع ہم پاکستان میں کر سکتے ہیں؟’۔
یہ وزارت خارجہ کے ایک نوجوان افسر تھے جو انقرہ کے پاکستانی سفارت خانے میں متعین تھے۔ ان کا اشارہ دو روز قبل استنبول میں ختم ہونے والی معرکہ چناق قلعے کی صد سالہ تقریبات کے سلسلے میں منعقد ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس کی طرف تھا۔
اپنی آزادی برقرار رکھنے کے لیے ترکیہ کی قومی جدوجہد میں چناق قلعے کا معرکہ وہی اہمیت رکھتا ہے جیسی 1857 ء کی جنگ آزادی کی اہمیت ہماری تاریخ میں ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وہ جنگ ہم ہار گئے تھے، ترکیہ اس جنگ میں صرف سرخ رو ہی نہ رہا بلکہ یہ معرکہ اس کی آزادی و استقلال کی مستقل علامت بھی بن گیا۔
برطانیہ عظمیٰ کی قیادت میں ایک عالمی اتحاد اس جنگ میں ترکیہ پر چڑھ دوڑا تھا۔ غازی مصطفی کمال پاشا کی قیادت میں ترکوں نے جارح حملہ آوروں کے دانت کھٹے کردیے۔ اس جنگ میں جارح یوروپی اقوام کے ہزاروں فوجی کھیت رہے تھے۔ صد سالہ تقریبات کے موقع پر ان فوجیوں کے ورثا بھی ہزاروں کی تعداد میں استنبول پہنچے۔ ان فوجیوں کی اولادوں کی اکثریت بھی اپنی زندگی کے دن پورے کر کے مالک کے حقیقی کے رو بہ رو جا پہنچی ہوگی لیکن جو بچ رہے تھے، ان کے دلوں میں اپنے ان پیاروں کی یاد تازہ تھی۔ وہ انھیں یاد کرتے تھے اور آنسو بہاتے تھے۔
وہ منظر ہلٹن باسفورس کا تھا۔ اس ہوٹل کے پورچ کا طرز تعمیربھی خوب ہے۔ اس کے نیچے کھڑے ہو کر کوئی ذرا گہری سانس بھی لیتا تو اس کی بازگشت پلٹ کر کانوں سے ٹکراتی اور وہ تو ایک سسکاری تھی۔ وہ معمر خاتون کوسٹر کے انتظار میں کھڑی تھی جیسے جیسے انتظار بڑھتا گیا، اس کی بے چینی بھی بڑھتی گئی۔ کوسٹر اِن مسافروں کو ایئرپورٹ پہنچانے والی تھی جہاں سے وہ گیلی پولی یعنی چناق قلعے کی طرف پرواز کرتے جہاں ان کے بزرگ جنگ آزادی میں ترک سورماں کے ہاتھوں ڈھیر ہوئے تھے۔اگلی شام وہ عورت مجھے لابی میں مل گئی۔ مختصر سے تعارفی جملوں کے بعد وہ کھل گئی۔ اس نے بتایا کہ مرنے والا اس کا باپ تھا جو اتحادی فورسز کے ساتھ آیا اور پھر کبھی واپس نہ لوٹا۔ اس گفتگو کے دوران میں اس کی آنکھیں مسلسل نم رہیں۔ اس عورت کی بے قراری نے میرے ایک اعتقاد پر بہت سے سوالیہ نشان لا کھڑے کئے۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ مغرب میں خاندانی نظام دم توڑ چکا ہے۔ میں نے سوچا کہ اگر مغرب میں واقعی خاندانی نظام کا کوئی وجود نہیں تو پھر یہ کیا ہے؟
گیلی پولی یعنی چناق قلعے کی اسی جنگ کے موضوع پر حکومت ترکیہ نے ایک بین الاقوامی کانفرنس کاانعقاد کیا جس میں چالیس ملکوں کے سربراہان مملکت یا حکومت شریک ہوئے۔ ان میں ایک برطانیہ کے موجودہ شاہ چارلس بھی تھے جو اس وقت شہزادے تھے۔ شاہ چارلس کا ذکر آیا ہے تو ایک لطیفہ بھی سن لیں۔ کانفرنس میں شریک بے شمار لوگ شہزادے کے ساتھ تصویر بنوانے کے خواہش مند تھے، ان میں ایک ہمارے وفد کے بڑے طاقت ور رکن بھی تھے۔ وہ بہانے بہانے سے شہزادے کے آس پاس سے گزرا کرتے۔ سرکاری فوٹو گرافر کو انھوں نے ہدایت کر رکھی تھی کہ وہ کوئی موقع ضائع نہ جانے دے لیکن بدقسمتی یہ ہوئی کہ کوئی تصویر بھی ان کی نہ بن سکی۔ ان کے مقابلے میں پروٹوکول کا ایک اسسٹنٹ اچھا رہا۔ شہزادے صاحب ایک ہجوم کے ساتھ کانفرنس ہال سے نکلے تو وہ ان کے سامنے آ گیا اور کھٹ سے ان کے ساتھ مصافحہ بھی کر لیا۔ ادھر فوٹو گرافر تیار کھڑا تھا، اس نے بٹن دبانے میں دیر نہ کی۔ استعمار کے پنجے سے نکلنے والے قوموں کے مسائل بھی ان کی طرح پیچیدہ ہوتے ہیں۔ کوئی کسک ایسی ہوتی ہے جو حاکم و محکوم کو آزادی کے بعد بھی باہم جوڑے رکھتی ہے۔
کانفرنس ختم ہوئی تو واپسی کا سفر شروع ہوا۔ میں ائیرپورٹ پر تھا، یہیں میری ملاقات چہلیں کرتے ہوئے ایک نوجوان جوڑے سے ہوئی۔ کلین شیوڈ سوٹڈ بوٹڈ نوجوان اور اسی مزاج کی ایک ماڈرن لڑکی، ترک لڑکیوں کی طرح پہننے کے لیے جسے اسکرٹ موزوں لگتی ہوگی۔ میں یہ جان کر حیران رہ گیا کہ وہ ایرانی ہیں۔ میری حیرت پر وہ افسر مسکرائے اور کہا کہ طیارے تک پہنچنے سے پہلے ہی ان کی کایا کلپ ہو جائے گی۔ آپ دیکھ کر حیرت کریں گے کہ یہ وہی ماڈرن بچے ہیں یا کسی مذہبی مدرسے کے طالب علم۔یوں میں نے سوچا کہ نظریہ اچھا بھی ہو تو اس کا جبر اچھا نہیں ہوتا، اس کی وجہ سے شخصیت میں تضاد پیدا ہوتا ہے۔ یوں کہئے کہ ایک شخصیت میں دوسری شخصیت پیدا ہو جاتی ہے۔ استنبول ایئرپورٹ پر یہ منظر پھر میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔
تہران کی پرواز کا اعلان ابھی ہوا ہی ہو گا کہ ہم سفر کہنے لگے کہ سر، اس طرف دیکھئے۔ سر تا پا حجاب میں لپٹی ایک خاتون قطار کی طرف بڑھ رہی تھی۔ اس سے قبل کہ میں دریافت کرتا کہ یہ کون ہے، وہ کہنے لگے کہ یہ وہی اسکرٹ والی لڑکی ہے۔معلوم ہوا کہ ریاست کی قوت لوگوں کو کوئی طرز زندگی اختیار کرنے پر مجبور تو کر سکتی ہے لیکن اسے اعتقاد اور ایمان کاحصہ نہیں بناسکتی۔ اگر ایسا ہوتا تو آج ایران کے کوچہ و بازار میں ہمیں ایسے دل خراش مناظر دیکھنے کو نہ ملتے جن میں موت ارزاں ہو چکی ہے۔ ایران سے قبل کچھ ایسا ہی تجربہ سوویت یونین اور مشرقی یوروپ میں بھی ہو چکا ہے جہاں ستر اسی برس سے چلتا ہوا نظام دیکھتے ہی دیکھتے زمیں بوس ہو گیا۔ ایران میں کیا ہوتا ہے، آنے والے دنوں میں واضح ہو جائے گا لیکن یہ واضح ہے کہ نظریاتی جبرکی بنیاد میں سے ایک اینٹ بہرحال نکل چکی ہے۔ذرا سے فرق کے ساتھ پاکستان کا تجربہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔
ہمارے یہاں جو کام ریاست کی قوت سے نہیں ہوتا، بعض طبقات اسے معاشرتی جبر اور گروہی دباؤ کے ذریعے انجام دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ بہت زیادہ ماضی میں جانے اور ڈھونڈ ڈھونڈ کر مثالیں پیش کرنے کی ضرورت نہیں۔ ٹرانس جینڈر ایکٹ کا معاملہ ان دنوں زیر بحث ہے۔ اس ایکٹ میں ایک جگہ کہا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص یہ محسوس کرے کہ اس کی جنس وہ نہیں جو شناختی کارڈ میں درج ہے بلکہ کچھ اور ہے تو اسے اپنی جنس تبدیل کرانے کا اختیار ہو گا۔یہ درست ہے کہ اگر جنس تبدیل کرانا صرف خواہش کے زیر اثر ممکن بنا دیا جائے تو اس کے نتیجے میں معاشرے میں ہیجان بپا ہو جائے گا لیکن کیا اس کے نتیجے میں پاکستانی معاشرے میں بدکاری بھی فروغ پائے؟ اس سلسلے میں ایک سویپنگ اسٹیٹمنٹ پورا سچ بیان نہیں کرتا۔
ہمارے یہاں اس ضمن میں جتنی بے راہ روی پائی جاتی ہے، کم و بیش اس کا تناسب وہی رہے گا۔ اس کا سبب ہماری معاشرتی ساخت ہے جس میں قانون سازی کے ذریعے کسی بڑی تبدیلی کے امکانات محدود ہیں۔بدکاری کے خدشے کے حق میں کم و بیش تیس ہزار افراد کے اعداد و شمار پیش کیے جاتے ہیں۔ اول تو بائیس کروڑ کے ملک میں یہ تعداد اتنی زیادہ نہیں لیکن ہمارے یہاں حقائق پر پردہ ڈالنے کا جو رجحان پایا جاتا ہے، اس کے پیش نظر یہ تعداد ممکن ہو بھی سکتی ہے لیکن اس کے باوجود ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ اعداد و شمار کبھی درست کہا نی بیان نہیں کرتے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے اوسط سے قومی آمدن نکالی جائے۔ پاکستان کی فی کس امدنی تقریبا تقریبا پانچ ہزار ڈالر بتائی جاتی ہے لیکن کیا ہر فرد کی آمدن اتنی ہی ہے؟ یہ درست نہیں۔ یہ ایک اوسط ہے جس کی مدد سے ملک کی غریب آبادی کے حالات کی درست تصویر سامنے نہیں آتی۔ بالکل اسی طرح جنس تبدیل کرانے والے تیس ہزار افراد کی کہانی کیا ہے اور وہ جنس تبدیل کرانے میں کیسے کامیاب ہوئے، یہ تعداد یہ تفصیل ظاہر نہیں کرتی۔ اس بنا پر بدکاری کے فروغ کو حقیقت بنا کر پیش کرنا حقیقت سے بعید ہے۔
جیسے کہا جا رہا ہے،کہ جنس کی تبدیلی اتنی ہی آسان ہو چکی ہے؟ عمل کی کسوٹی پر یہ دعوی بھی غلط ثابت ہو چکا ہے۔ ہمارے دوست اور ممتاز صحافی نجم ولی خان اس دعوے کی حقیقت پرکھنے کے لیے شناختی کارڈ کے کر نادرا جا پہنچے اور جنس کی تبدیلی کا مطالبہ کیا پھر کیا ہوا؟ یہ جاننے کے لیے تو ان کا کالم پڑھنا پڑے گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ جنس کی تبدیلی کی آسانی کے پروپیگنڈے سے ہوا نکل گئی۔اس معاملے کا ایک پہلو بیرونی ایجنڈے کے ساتھ بھی منسلک ہے۔ یعنی ایک عالمی ایجنڈے کے تحت اسلامی شعائر کی بیخ کنی ۔ یہ ممکن ہو سکتا ہے لیکن اس کا تدارک بھی دلیل اور حکمت کے ذریعے ہی ممکن ہے، کسی دلیل سے محروم ہیجان پیدا کرکے نہیں۔اس وقت یہ ہیجان اتنا شدید ہے کہ جو کوئی بھی اعتدال کی بات کرتا ہے، بدکار قرار پاتا ہے۔ یہ طرز عمل پاکستان کی نئی نسل کو دین سے اسی طرح دور کرنے کا باعث بن رہا ہے جیسے ایران میں گھٹن نے دیکھتے ہی دیکھتے طوفان اٹھادیا ہے۔