تین خبریں ہیں اور ان کے تین نتائج۔ تینوں خبروں کا تعلق سیاست بھی ہے اور معیشت سے اور عوام کے سب بڑے مسئلے مہنگائی سے بھی۔
سب سے پہلے ان خبروں کا پس منظر۔ دنیا کے سب سے بڑے اقتصادی میگزین نے خبر دی ہے کہ پاکستان اپنے معاشی استحکام کے لیے جو کوشش بھی کرتا ہے ، اسے ناکام بنا دیا جاتا ہے۔ میگزین نے بتایا ہے کہ پاکستانی معیشت کو نقصان پہنچانے کی یہ کوشش کہیں باہر سے نہیں کی جا رہی، اندر سے ہو رہی ہے اور اس کے ذمے داری عمران خان ہیں۔
اسی بارے میں:
یہ خبر جس نے حال ہی میں دنیا کو حیران کر دیا ہے ، پاکستان میں زیادہ حیرت کے ساتھ نہیں سنی گئی لیکن ریاست کے تمام اسٹیک ہولڈرز اس راز سے واقف تھے۔ معیشت کی تباہی کی متعدد کوششوں کے بعد ریاستی اداروں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اب کسی کو ملک میں سیاسی عدم استحکام کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
اس سلسلے میں پہلا فیصلہ یہ ہوا ہے کہ پی ٹی آئی کے وہ ارکان قومی اسمبلی جو ایوان میں واپس آنا چاہیں ، آ جائیں۔ اس سلسلے کی ابتدا بلوچستان کے میر جان محمد جمالی کی واپسی سے ہوگئی ہے۔ توقع کی جارہی ہے کہ آئندہ کچھ روز میں مزید ارکان کی واپسی ہو جائے گی۔
یہ بھی دیکھئے:
لڑکیاں گھر سے کب بھاگتی ہیں، دعا زہرا کا مسئلہ کیا تھا؟
میڈیا انڈسٹری میں نیا ابھرنے والا ڈریکولا
جو ارکان واپس نہیں آئیں گے، قانونی کارروائی کے ذریعے ان کے استعفے منظور کر لیے جائیں گے۔ استعفوں کی منظوری کے فوری بعد ضمنی انتخابات کا اعلان کر دیا جائے گا۔ اب تک سامنے آنے والے جائزوں سے واضح ہو گیا ہے کہ پی ٹی آئی ان میں سے بیشتر نشستوں پر شکست کھا جائے گی۔ اس طرح حکمراں اتحاد کی نشستوں کی تعداد 172 سے بڑھ جائے گی۔ یوں وہ پورے اعتماد کے ساتھ مشکل اقتصادی فیصلے کر سکے گی۔
دوسری خبر یہ ہے کہ سیاسی استحکام کی کوششیں شروع ہونے کے ساتھ ہی معاشی استحکام کی منصوبہ بندی بھی مکمل کر لی گئی ہے۔ موجودہ بجٹ اسی منصوبہ بندی کے تحت بنایا گیا ہے ۔ یہ بجٹ مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کار کو اعتماد فراہم کرے گا جس کے نتیجے میں آئندہ چند ہفتوں کے دوران میں ملک میں سرمایہ کاری شروع ہو جائے گی۔
سرمایہ کاری شروع ہونے سے سرمایہ گردش میں آ کر جمود کا شکار معیشت کی بحالی کا عمل شروع کر دے گا۔
تیسری خبر یہ ہے کہ ماہرین معیشت کے مطابق آئندہ چھ سے آٹھ ماہ کے دوران میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر بڑھ جائے گی۔ ماہرین توقع کر رہے ہیں کہ ڈالر چند ماہ کے دوران ایک سو ستر سے ایک سو اسی کے درمیان آ سکتا ہے۔ اسطرح مشکل اقتصادی فیصلوں کے اثرات چھ سے آٹھ ماہ کے دوران سامنے آنے شروع ہو جائیں گے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اس پالیسی پر اس مالی سال کے دوران مکمل طور پر عمل درآمد ہو گیا تو ڈالر کے مقابلے میں روپیہ مزید مضبوط ہو کر ایک سو پچیس اور اس سے بھی کچھ کم ہوسکتا ہے۔ اس طرح توقع کی جا رہی ہے کہ مہنگائی میں مزید کمی ہو جائے گی۔