عمران خان نے اپنا اعلان کردہ وائٹ پیپر شائع کر دیا ہے۔ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کے بعد انھوں نے وائٹ پیپر جاری کرنے کا اعلان کیا تھا۔ قومی حالات پر نظر رکھنے والوں کا ماتھا اسی وقت ٹھنکا تھا۔ اندازہ یہی تھا کہ پی ٹی آئی مدینہ منورہ کے تکلیف دہ واقعے پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرے گی۔ اس کے باوجود بعض لوگوں کا خیال تھا کہ ممکن ہے کہ وہ اپنی پٹاری سے کوئی نیا سانپ نکالیں لیکن جیسا کہ توقع تھی، ان کے پاس کچھ نیا کہنے کو کچھ نہ تھا۔ انھوں نے اپنے سیاسی مخالفین پر وہی گھسے پٹے الزامات دہرائے جو وہ گزشتہ ساڑھے تین ہونے چار برس تک دہراتے رہے ہیں۔ یہ گویا توہین مسجد نبوی کو پروپیگنڈے کے طوفان میں چھپانے کی ایک ناکام کوشش تھی۔
اس پریس کانفرنس کو دیکھ اور سن کر ذہن میں پہلا سوال یہی پیدا ہوا کہ آخر اس کی ضرورت کیا تھی؟ صاف دکھائی دیتا ہے کہ یہ پریس کانفرنس مسجد نبوی میں رونما ہونے والے گستاخانہ واقعے سے عوام کی توجہ ہٹانے کی کوشش تھی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ پریس کانفرنس ایک ناکام کوشش ثابت ہوئی ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
توہین مسجد نبوی: عمران خان کا سیاسی پاگل پن
فوڈ سیکورٹی کا چیلنج اور دالوں سے ہماری بے رخی
یہ تاثر دن پر دن کیوں قوی ہوتا جارہا ہے کہ مسجد نبوی کا توہین آمیز واقعہ کسی منصوبہ بندی کے بغیر نہیں ہوا۔ اس کے کئی ثبوت سامنے آ چکے ہیں۔ سب سے بڑا ثبوت عمران خان کا طرز عمل ہے۔
عمران خان نے اس موضوع پر جتنی بھی گفتگو کی ہے، اس میں انھوں نے یہی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی معراج پر ہیں۔ اس سلسلے میں انھیں کسی سے سرٹفکیٹ لینے کی ضرورت نہیں۔ اپنی پارسائی کا دعویٰ کرنے کے باوجود امت مسلمہ کے دلوں پر چرکے لگانے والے اس واقعہ کی مذمت میں ان کے منھ سے ایک لفظ بھی نہیں نکلا۔ اس کے برعکس انھوں نے بار بار کہا کہ موجودہ حکمران جب بھی عوام میں نکلیں گے یہی ہوگا۔ اسی قسم کے الفاظ شیخ رشید بھی استعمال کر رہے ہیں۔ عمران اور ان کے ساتھیوں کی یہ گفتگو منصوبہ بندی کو آشکار کرتی ہے۔
عوام ایسا کیوں سمجھتے ہیں کہ مدینہ منورہ کے تکلیف دہ واقعات کسی منصوبہ بندی کا حصہ ہیں، اس کا ایک اور ثبوت عمران خان کی وہ تقریریں ہیں جن میں نفرت کو فروغ دیا گیا۔ عوام کو ترغیب دی گئی کہ ان کے ووٹر ان کے سیاسی مخالفین کا سماجی بائیکاٹ کریں۔ ان کی زیر تعلیم اولادوں کی ٹرولنگ کریں اور ان کے ساتھ رشتے ناطے نہ کریں۔
مسجد نبوی کا تکلیف دہ واقعہ ان کی ایسی ہی تقریروں کا نتیجہ ہے۔ آج کی پریس کانفرنس سے بھی ثابت ہو گیا کہ وہ اپنے اس طرز عمل پر شرمندہ نہیں ہیں۔ لیکن شعائر اسلام کی توہین پر شدید عوامی ردعمل سے گھبرا کر انھوں نے اپنے پرانے گھسے پٹے الزامات دہرا کر ہر مسلمان کے لیے تکلیف دہ واقعے کو پروپیگنڈے کے ایک نئے طوفان کے نیچے دبانے کی کوشش کی ہے۔ صاف دکھائی دیتا ہے کہ یہ کوشش ناکام رہی ہے کیونکہ ان کے پاس نیا کہنے کو کچھ نہ تھا۔
عمران خان کی پریس کانفرنس کے بعد شیخ رشید احمد نے بھی پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ اس موقع پر انھوں نے انکشاف کیا کہ مئی کا مہینہ بہت خطرناک ہے۔ یہ بھی ایک قسم کی دھمکی ہے ملک کو خلفشار میں مبتلا کرنے اور امن و امان کو تباہ کرنے کی۔ پی ٹی آئی، اس کے متعلقین اور ہم خیال بظاہر اس طرح کی دھمکیاں اپنے مخالفین کو دے رہے ہیں لیکن سیاسی حرکیات کو سمجھنے والے اور اس طرح دھمکیاں دینے والے اپنے کھودے ہوئے کنویں میں دوسروں سے پہلے گرتے ہیں۔