خدشہ یہی تھا کہ معاملات اگر اسی رخ پر گامزن رہے تو ریاست کسی نہ کسی حادثے سے دوچار ہو جائے گی۔ وہ حادثہ ہو گیا ہے۔ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ کون حکمران ہے اور کون نہیں۔ کون رہ گیا اور کون نکال دیا دیا۔ مسئلہ یہ ہے کہ تحریک عدم اعتماد سے کیسے نمٹا گیا۔
چار اپریل ہماری تاریخ میں ایک تکلیف دہ دن کی حیثیت سے یاد رکھا جاتا ہے۔ اس کا تعلق ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سے ہے لیکن اب یہ دن بھٹو کی افسوس ناک پھانسی کے علاوہ قاسم سوری، عمران خان، فواد چودھری اور ڈاکٹر عارف علوی کی وجہ سے بھی یاد رکھا جائے گا جنھوں نے محض ایک شخص کی ضد کی خاطر آئین، قانون اور نظام کو داؤ پر لگا دیا۔
تازہ ترین صورت حال پر یہ بھی دیکھئے:
اس واقعے سے صرف یہی نہیں ہوا کہ آئین بازیچہ اطفال بن گیا بلکہ یہ بھی ہوا کہ خود آئین اور نظام کے محافظ اس کی تباہی کا ذریعہ بن گئے۔ نہیں کہا جاسکتا کہ سپریم کورٹ اس تنازعے کا کیا فیصلہ دے گی لیکن اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں کہ ان واقعات کی وجہ سے سیاست کی بساط پر پیدا ہونے والی تلخی معاشرے کی زیریں سطحوں تک پھیل چکی ہے۔ یہ تلخی ایک ایسا زہر ہے جس نے قومی اتحاد کو پارا پارا کر دیا ہے۔ یہ بالکل ممکن ہے کہ اس شہر کو کسی نہ کسی طرح فوری طور پر دبا دیا جائے لیکن یقینی ہے کہ مستقبل قریب میں یہ تنازع انصاف کے ایوانوں میں دوبارہ آئے گا پھر نہیں کہا جاسکتا کہ جسٹس وقار سیٹھ کے فیصلے کی صدائے بازگشت سنائی دے یا تاریخ کا پہیہ کسی دوسری جانب گھوم جائے۔
یہ بھی پڑھئے:
پارہ اول: اقسام انسان،اعجاز قرآن،تخلیق آدم اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر
تحریک عدم اعتماد: حادثے کا خطرہ بڑھ گیا
عمران خان: زخم خوردہ انا کی آخری ہچکی
اس لیے بہتر ہے کہ صدر مملکت، عدالت عظمیٰ اور سیاسی جماعتیں دانش مندانہ کردار ادا کر کے ریاست کو تباہی کے گڑھے میں گر ے سے بچا لیں۔ایسا نہ ہوا تو آئندہ انتخابات پرامن نہیں رہیں گے۔
گزشتہ روز عرض کیا تھا کہ ابھی تک( گزشتہ روز) تک جو کچھ ہوا ہے، اس کی وجہ سے ملک لاقانونیت کے جہنم میں جا گرے گا۔ اب ہمیں تسلیم کر لینا چاہیے کہ بیمار انا کی تسکین کرتے کرتے ہم اس کھائی میں جا گرے ہیں۔ اس لیے یہ سوگ کا دن ہے۔
یہ آج ہی رونما ہونے والے تکلیف دہ واقعات کا نتیجہ ہے کہ آج ملک مکمل طور پر خلا میں ہے۔ نہیں معلوم کہ اس وقت ریاست کا محور کہاں واقعہ ہے۔ خدانخواستہ اس وقت ریاستی سطح پر ہمیں کسی چیلنج کا سامنا کرنا پڑے تو فیصلہ سازی کہاں ہوگی۔ چین آف کمانڈ کیا ہوگی؟
لہٰذا اب بھی وقت ہے کہ ریاست کے اسٹیک ہولڈر سر جوڑ کر بیٹھ جائیں ورنہ آنے والے دن کوئی اچھی خبر لے نہیں آئیں گے۔