تحریک عدم اعتماد کا نتیجہ تو جو نکلے گا سو نکلے گا، ایک چیلنج اس سے بھی بڑا ہے۔ یہ چیلنج ہے اس قومی لائحہ عمل سے روگردانی، زندگی گزارنے کے لیے جس پر اس قوم کا عقیدے کی اعتقاد ہے یعنی آئین پاکستان ۔
خبریں ہیں کہ تحریک عدم اعتماد کے ممکنہ نتائج سے بچنے کے لیے کوئی منصوبہ تیار کر لیا گیا ہے۔ ممتاز صحافی حامد میر نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے پارلیمانی لاجز اور پارلیمنٹ کے اندر ہنگامہ آرائی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ حامد میر یہ بھی کہتے ہیں کہ حزب اختلاف کے ارکان کو تشدد کا نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
تحریک عدم اعتماد کے بارے میں یہ بھی دیکھئے:
کسی واقعے کے رونما ہونے سے قبل کسی فرد یا گروہ کو کسی جرم کا مرتکب قرار دے ڈالنا مناسب نہیں لیکن اگر کسی گروہ کا ٹریک ریکارڈ یا کسی خاص الزام کے ہدف بننے والے گروہ کی حرکات و سکنات ایسا ظاہر کرتی ہوں تو الزامات میں وزن بڑھ جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
عمران خان حزب اختلاف کو ایوان آنے سے کیسے روکیں گے؟
رمضان المبارک کی منصوبہ بندی برائے مقصدیت
اک یوٹرن اور مری جاں ابھی کھیل باقی ہے
عمران خان کی طرف سے نوجوانوں کو مظاہروں پر اکسانے اور تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری میں گڑ بڑ یا ایوان میں ہنگامہ آرائی کی خبروں نے اس شک کو یقین میں بدل دیا ہے۔
یہ رجحان نہایت خطرناک ہے۔ اس کے نتیجے میں صرف ریاستی نظم و ضبط ہی تباہ نہیں ہو جائے گا، قانون کا احترام ہی ختم نہیں ہو جائے گا بلکہ اگر کوئی شخص یا گروہ اس کا مرتکب ہو گا تو خود اسے بھی نقصان ہوگا ۔ یوں کہہ لیجئے کہ یہ دوسروں کے لیے کھودا گیا ایسا گڑھا ہے جس میں اسے کھودنے والے کے گرنے کا امکان بڑھ گیا ہے۔ اب بھی وقت ہے، آئین و قانون کو بازیچہ اطفال بنانے والے بریک لگا دیں، ورنہ حادثہ یقینی ہے۔