Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
ملک تیز رفتار تبدیلیوں کی زد میں ہے۔ حزب اختلاف نے عمران خان کے تحریک عدم اعتماد ہی جمع نہیں کرائی۔ ایک اور واقعہ بھی رونما ہو گیا ہے۔ حامد میر جیو ٹیلی ویژن کی اسکرین پر نمودار ہو گئے ہیں۔
حامد میر کو ‘باغی’ اور ‘غدار’ قرار دے کر ان پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ حزب اختلاف کی تحریک عدم اعتماد کے سامنے آتے ہی ان کی بحالی معنی خیز ہے۔ ان دونوں واقعات کا ایک ساتھ رونما ہونا محض اتفاق نہیں ہے ۔ اس کا ایک مطلب ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ملک میں وقت کی رفتار بدل چکی۔ پیمانے بدل گئے۔ نا مطلوب مطلوب ہو گئے۔ ایسے واقعات سیاست نئی صبح کا سورج تصور کیے جاتے ہیں۔
تحریک عدم اعتماد کے بارے میں یہ بھی دیکھئے:
تحریک عدم اعتماد کا قومی اسمبلی میں جمع کرایا جانا محض ایک رسم ہے۔ حزب اختلاف اس سلسلے میں حتنی یک سو تھی، اس کے پیش نظر یہ یقینی تھا۔ اصل سوالات کچھ اور ہیں۔
پہلا سوال یہ ہے کہ کچھ دن پہلے تک یہ واضح نہیں ہو پا رہا تھا کہ تحریک عدم اعتماد کے بعد کیا ہو گا؟ یہی سوال تھا جس کی وجہ سے عدم اعتماد کے جمع کروائے جانے میں اب تک تاخیر ہوئی۔
یہ بھی پرھئے:
صدر رفیق تارڑ، کھرے ، کھردرے پن کی حد تک
عدم اعتماد نہیں، عمران خان پر ان کا کھیل الٹنے کی ضرورت ہے
جب صدر رفیق تارڑ کے سامنے جنرل مشرف کو زبان کھولنے کی ہمت نہ ہو سکی
حزب اختلاف میں اس سلسلے میں دو آرا تھیں۔ ایک رائے یہ تھی کہ عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد بقیہ مدت کا کیا ہو گا؟ کیا یہ مدت پوری کی جائے گی۔ یعنی آئندہ انتخابات 2023ء میں ہوں گے یا اس سے پہلے۔ کچھ لوگ یہی چاہتے تھے۔ نواز شریف کی رائے مختلف تھی۔ وہ چند ہفتوں سے اوپر جانے کو ہرگز تیار نہ تھے۔ تحریک عدم اعتماد میں اب تک جو تاخیر ہوئی ہے، اس کا سبب یہی ہے۔
نواز شریف چاہتے تھے کہ جیسے ہی عدم اعتماد ہو، انتخابی اصلاحات کے فوراً بعد عام انتخابات کر دیے جانے چاہئیں۔ پیپلز پارٹی اس پر آمادہ نہ تھی۔ اب مان گئی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے اس کی تصدیق کر دی ہے۔ پیپلز پارٹی کے قائل ہونے کی دیر تھی کہ قومی سیاسی منظر بدل گیا۔ جیسے ہی منظر بدلا، ایک اور غیر معمولی واقعہ بھی رونما ہو گیا۔
پنجاب میں جہانگیر ترین کے بعد دو مزید گروپ منظر عام پر آ گئے۔ اس کے بعد منظر بدلتا چلا گیا۔ حامد میر کی بحالی اس منظر نامے میں ہاتھی کے پاؤں کا درجہ رکھتا ہے۔
ملک تیز رفتار تبدیلیوں کی زد میں ہے۔ حزب اختلاف نے عمران خان کے تحریک عدم اعتماد ہی جمع نہیں کرائی۔ ایک اور واقعہ بھی رونما ہو گیا ہے۔ حامد میر جیو ٹیلی ویژن کی اسکرین پر نمودار ہو گئے ہیں۔
حامد میر کو ‘باغی’ اور ‘غدار’ قرار دے کر ان پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ حزب اختلاف کی تحریک عدم اعتماد کے سامنے آتے ہی ان کی بحالی معنی خیز ہے۔ ان دونوں واقعات کا ایک ساتھ رونما ہونا محض اتفاق نہیں ہے ۔ اس کا ایک مطلب ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ملک میں وقت کی رفتار بدل چکی۔ پیمانے بدل گئے۔ نا مطلوب مطلوب ہو گئے۔ ایسے واقعات سیاست نئی صبح کا سورج تصور کیے جاتے ہیں۔
تحریک عدم اعتماد کے بارے میں یہ بھی دیکھئے:
تحریک عدم اعتماد کا قومی اسمبلی میں جمع کرایا جانا محض ایک رسم ہے۔ حزب اختلاف اس سلسلے میں حتنی یک سو تھی، اس کے پیش نظر یہ یقینی تھا۔ اصل سوالات کچھ اور ہیں۔
پہلا سوال یہ ہے کہ کچھ دن پہلے تک یہ واضح نہیں ہو پا رہا تھا کہ تحریک عدم اعتماد کے بعد کیا ہو گا؟ یہی سوال تھا جس کی وجہ سے عدم اعتماد کے جمع کروائے جانے میں اب تک تاخیر ہوئی۔
یہ بھی پرھئے:
صدر رفیق تارڑ، کھرے ، کھردرے پن کی حد تک
عدم اعتماد نہیں، عمران خان پر ان کا کھیل الٹنے کی ضرورت ہے
جب صدر رفیق تارڑ کے سامنے جنرل مشرف کو زبان کھولنے کی ہمت نہ ہو سکی
حزب اختلاف میں اس سلسلے میں دو آرا تھیں۔ ایک رائے یہ تھی کہ عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد بقیہ مدت کا کیا ہو گا؟ کیا یہ مدت پوری کی جائے گی۔ یعنی آئندہ انتخابات 2023ء میں ہوں گے یا اس سے پہلے۔ کچھ لوگ یہی چاہتے تھے۔ نواز شریف کی رائے مختلف تھی۔ وہ چند ہفتوں سے اوپر جانے کو ہرگز تیار نہ تھے۔ تحریک عدم اعتماد میں اب تک جو تاخیر ہوئی ہے، اس کا سبب یہی ہے۔
نواز شریف چاہتے تھے کہ جیسے ہی عدم اعتماد ہو، انتخابی اصلاحات کے فوراً بعد عام انتخابات کر دیے جانے چاہئیں۔ پیپلز پارٹی اس پر آمادہ نہ تھی۔ اب مان گئی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے اس کی تصدیق کر دی ہے۔ پیپلز پارٹی کے قائل ہونے کی دیر تھی کہ قومی سیاسی منظر بدل گیا۔ جیسے ہی منظر بدلا، ایک اور غیر معمولی واقعہ بھی رونما ہو گیا۔
پنجاب میں جہانگیر ترین کے بعد دو مزید گروپ منظر عام پر آ گئے۔ اس کے بعد منظر بدلتا چلا گیا۔ حامد میر کی بحالی اس منظر نامے میں ہاتھی کے پاؤں کا درجہ رکھتا ہے۔
ملک تیز رفتار تبدیلیوں کی زد میں ہے۔ حزب اختلاف نے عمران خان کے تحریک عدم اعتماد ہی جمع نہیں کرائی۔ ایک اور واقعہ بھی رونما ہو گیا ہے۔ حامد میر جیو ٹیلی ویژن کی اسکرین پر نمودار ہو گئے ہیں۔
حامد میر کو ‘باغی’ اور ‘غدار’ قرار دے کر ان پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ حزب اختلاف کی تحریک عدم اعتماد کے سامنے آتے ہی ان کی بحالی معنی خیز ہے۔ ان دونوں واقعات کا ایک ساتھ رونما ہونا محض اتفاق نہیں ہے ۔ اس کا ایک مطلب ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ملک میں وقت کی رفتار بدل چکی۔ پیمانے بدل گئے۔ نا مطلوب مطلوب ہو گئے۔ ایسے واقعات سیاست نئی صبح کا سورج تصور کیے جاتے ہیں۔
تحریک عدم اعتماد کے بارے میں یہ بھی دیکھئے:
تحریک عدم اعتماد کا قومی اسمبلی میں جمع کرایا جانا محض ایک رسم ہے۔ حزب اختلاف اس سلسلے میں حتنی یک سو تھی، اس کے پیش نظر یہ یقینی تھا۔ اصل سوالات کچھ اور ہیں۔
پہلا سوال یہ ہے کہ کچھ دن پہلے تک یہ واضح نہیں ہو پا رہا تھا کہ تحریک عدم اعتماد کے بعد کیا ہو گا؟ یہی سوال تھا جس کی وجہ سے عدم اعتماد کے جمع کروائے جانے میں اب تک تاخیر ہوئی۔
یہ بھی پرھئے:
صدر رفیق تارڑ، کھرے ، کھردرے پن کی حد تک
عدم اعتماد نہیں، عمران خان پر ان کا کھیل الٹنے کی ضرورت ہے
جب صدر رفیق تارڑ کے سامنے جنرل مشرف کو زبان کھولنے کی ہمت نہ ہو سکی
حزب اختلاف میں اس سلسلے میں دو آرا تھیں۔ ایک رائے یہ تھی کہ عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد بقیہ مدت کا کیا ہو گا؟ کیا یہ مدت پوری کی جائے گی۔ یعنی آئندہ انتخابات 2023ء میں ہوں گے یا اس سے پہلے۔ کچھ لوگ یہی چاہتے تھے۔ نواز شریف کی رائے مختلف تھی۔ وہ چند ہفتوں سے اوپر جانے کو ہرگز تیار نہ تھے۔ تحریک عدم اعتماد میں اب تک جو تاخیر ہوئی ہے، اس کا سبب یہی ہے۔
نواز شریف چاہتے تھے کہ جیسے ہی عدم اعتماد ہو، انتخابی اصلاحات کے فوراً بعد عام انتخابات کر دیے جانے چاہئیں۔ پیپلز پارٹی اس پر آمادہ نہ تھی۔ اب مان گئی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے اس کی تصدیق کر دی ہے۔ پیپلز پارٹی کے قائل ہونے کی دیر تھی کہ قومی سیاسی منظر بدل گیا۔ جیسے ہی منظر بدلا، ایک اور غیر معمولی واقعہ بھی رونما ہو گیا۔
پنجاب میں جہانگیر ترین کے بعد دو مزید گروپ منظر عام پر آ گئے۔ اس کے بعد منظر بدلتا چلا گیا۔ حامد میر کی بحالی اس منظر نامے میں ہاتھی کے پاؤں کا درجہ رکھتا ہے۔
ملک تیز رفتار تبدیلیوں کی زد میں ہے۔ حزب اختلاف نے عمران خان کے تحریک عدم اعتماد ہی جمع نہیں کرائی۔ ایک اور واقعہ بھی رونما ہو گیا ہے۔ حامد میر جیو ٹیلی ویژن کی اسکرین پر نمودار ہو گئے ہیں۔
حامد میر کو ‘باغی’ اور ‘غدار’ قرار دے کر ان پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ حزب اختلاف کی تحریک عدم اعتماد کے سامنے آتے ہی ان کی بحالی معنی خیز ہے۔ ان دونوں واقعات کا ایک ساتھ رونما ہونا محض اتفاق نہیں ہے ۔ اس کا ایک مطلب ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ملک میں وقت کی رفتار بدل چکی۔ پیمانے بدل گئے۔ نا مطلوب مطلوب ہو گئے۔ ایسے واقعات سیاست نئی صبح کا سورج تصور کیے جاتے ہیں۔
تحریک عدم اعتماد کے بارے میں یہ بھی دیکھئے:
تحریک عدم اعتماد کا قومی اسمبلی میں جمع کرایا جانا محض ایک رسم ہے۔ حزب اختلاف اس سلسلے میں حتنی یک سو تھی، اس کے پیش نظر یہ یقینی تھا۔ اصل سوالات کچھ اور ہیں۔
پہلا سوال یہ ہے کہ کچھ دن پہلے تک یہ واضح نہیں ہو پا رہا تھا کہ تحریک عدم اعتماد کے بعد کیا ہو گا؟ یہی سوال تھا جس کی وجہ سے عدم اعتماد کے جمع کروائے جانے میں اب تک تاخیر ہوئی۔
یہ بھی پرھئے:
صدر رفیق تارڑ، کھرے ، کھردرے پن کی حد تک
عدم اعتماد نہیں، عمران خان پر ان کا کھیل الٹنے کی ضرورت ہے
جب صدر رفیق تارڑ کے سامنے جنرل مشرف کو زبان کھولنے کی ہمت نہ ہو سکی
حزب اختلاف میں اس سلسلے میں دو آرا تھیں۔ ایک رائے یہ تھی کہ عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد بقیہ مدت کا کیا ہو گا؟ کیا یہ مدت پوری کی جائے گی۔ یعنی آئندہ انتخابات 2023ء میں ہوں گے یا اس سے پہلے۔ کچھ لوگ یہی چاہتے تھے۔ نواز شریف کی رائے مختلف تھی۔ وہ چند ہفتوں سے اوپر جانے کو ہرگز تیار نہ تھے۔ تحریک عدم اعتماد میں اب تک جو تاخیر ہوئی ہے، اس کا سبب یہی ہے۔
نواز شریف چاہتے تھے کہ جیسے ہی عدم اعتماد ہو، انتخابی اصلاحات کے فوراً بعد عام انتخابات کر دیے جانے چاہئیں۔ پیپلز پارٹی اس پر آمادہ نہ تھی۔ اب مان گئی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے اس کی تصدیق کر دی ہے۔ پیپلز پارٹی کے قائل ہونے کی دیر تھی کہ قومی سیاسی منظر بدل گیا۔ جیسے ہی منظر بدلا، ایک اور غیر معمولی واقعہ بھی رونما ہو گیا۔
پنجاب میں جہانگیر ترین کے بعد دو مزید گروپ منظر عام پر آ گئے۔ اس کے بعد منظر بدلتا چلا گیا۔ حامد میر کی بحالی اس منظر نامے میں ہاتھی کے پاؤں کا درجہ رکھتا ہے۔