اگرتلہ سازش کیس، کیا حقیقت کیا افسانہ

جب ’جوئے بانگلا‘ کا نعرہ بلند ہوا۔ 2011ء میں ایک بنگلا دیشی رکن پارلیمنٹ شوکت نے تسلیم کیا کہ اگرتلہ سازش کیس درست تھا، وہ خود اس کا حصہ تھے

ADVERTISEMENT

’کیا یہ میٹنگ ملتوی نہیں کی جا سکتی؟‘ پاکستان کے پہلے فوجی حکمران فیلڈ مارشل ایوب خان نے پریشانی کے عالم میں سر اٹھایا اور اپنے سیکریٹری سے پوچھا۔ پروگرام کے مطابق اُس وقت اُنھیں یونیورسٹی اساتذہ کے درمیان ہونا چاہیے تھا کیونکہ یہ ملاقات پہلے سے طے تھی۔

مشرقی اور مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے اساتذہ اس مقصد کے لیے مقررہ جگہ پر پہنچ چکے تھے۔ سارے انتظامات مکمل تھے لیکن ایوب خان کا ارادہ بدل چکا تھا۔ چند پروفیسروں کے بجائے انھیں اس وقت گورنر مشرقی پاکستان کی رفاقت زیادہ مناسب لگ رہی تھی۔

گورنر عبدالمنعم خان اس وقت ان کے پہلو میں بیٹھے تھے جن سے وہ سرگوشیوں میں مصروف گفتگو تھے۔ ڈرائینگ روم میں ایک طرف وزرا موجود تھے۔ ان کے درمیان بھی سرگوشیوں کا سلسلہ جاری تھا۔ دوسری طرف فوج اور انٹیلیجنس کے چند افسران سر جوڑے کھڑے تھے۔

قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں کہ ایوب خان انھیں سراسیمہ دکھائی دیے۔ شہاب کے مطابق انھوں نے صدر ایوب کو ملاقات کی یاد دہانی کروائی تو انھوں نے اس کے التوا کی خواہش ظاہر کر دی۔ اسی شام ڈھاکہ میں ایک عشائیہ بھی تھا۔ یہ تقریب بھی بدمزگی کا شکار رہی۔ اقتدار کے ایوانوں میں پائی جانے والی اس مردنی کا سبب ایک ایسا انکشاف تھا جسے آگے چل کر پاکستان کی قومی سیاست کا دھارا بدل دینا تھا۔

قدرت اللہ شہاب کے مطابق ایوب خان کو اُسی روز اس سازش کی خبر دی گئی تھی۔ پریشان کر دینے والی یہی اطلاع تھی جس کے سبب اس روز ایوب خان کا مزاج بدمزہ تھا۔

ایوب خان کو قتل کرنے کا منصوبہ

ایوب خان کے سیکریٹری کے مطابق ابتدائی اطلاع یہ تھی کہ کہ صدر مملکت کو اغوا کر کے قتل کر دینے کے ایک منصوبے کا انکشاف ہوا ہے۔ ایوب خان کے سیکریٹری اطلاعات الطاف گوہر نے اپنی کتاب ’ایوب خان: پہلے فوجی راج کے دس سال‘ میں ایک مختلف واقعے کا ذکر کیا ہے۔

وہ لکھتے ہیں کہ ایوب خان دسمبر 1967 میں مشرقی پاکستان میں چندرا گونا کے مقام پر جانے والے تھے۔ یہاں انھیں ایک پیپر مل کا معائنہ کرنا تھا۔ دورے کی تمام تر تیاریاں مکمل تھیں لیکن اچانک اسے منسوخ کر دیا گیا۔ اطلاع یہ تھی کہ ان کے طیارے کو بم سے اڑانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔

کتاب

ایوب خان کے وزیر قانون ایس ایم ظفرکے مطابق ایک سرکاری پریس ریلیز کے ذریعے عوام کو اس سازش کی تفصیلات سے باقاعدہ طور پر آگاہ کیا گیا۔ یہ سازش کیا تھی؟ الطاف گوہر کی کتاب میں اس کے بارے میں کافی تفصیلات دستیاب ہیں۔

گرفتار ہونے والوں میں سول سروس اور نیوی کے اہلکار بھی تھے

الطاف گوہر کے مطابق چھ جنوری 1968 کو 28 افراد کو گرفتار کیا گیا۔

گرفتار ہونے والوں میں عام شہریوں کے علاوہ پاکستان نیوی کے افسران بھی شامل تھے۔ نیوی کے اہلکاروں میں لیفٹیننٹ کمانڈر معظم حسین سمیت چند نان کمیشنڈ افسروں کے نام سامنے آئے۔ پکڑے جانے والے افراد میں سول سروسز کے تین اعلیٰ افسر روح القدوس، فضل الرحمٰن اور شمس الرحمٰن بھی شامل تھے۔

ان تمام لوگوں پر الزام تھا کہ وہ ڈھاکہ میں انڈین ہائی کمیشن کے فرسٹ سیکریٹری پی این اوجھا سے رابطے میں تھے۔ ایک الزام یہ بھی تھا کہ ان میں سے کچھ لوگوں نے انڈین ریاست تری پورہ میں اگرتلہ کے مقام پر جا کر دو انڈین افسروں سے ملاقات کی تھی۔

پاکستان کی مسلح افواج کے آخری کمانڈر انچیف (بعد میں اس عہدے کو چیف آف آرمی اسٹاف کا نام دیا گیا) لیفٹننٹ جنرل گل حسن نے اپنی خود نوشت میں اس سازش میں تفصیلات بیان کی ہیں۔

تاریخی دعوؤں کے مطابق انڈیا کی طرف سے ان لوگوں کو مالی امداد کے علاوہ اسلحہ بھی فراہم کیا گیا۔ جنرل گل حسن نے لکھا ہے کہ منصوبے کے مطابق ان لوگوں کو مشرقی پاکستان میں کچھ علاقوں پر قبضہ کرنے کا ہدف بھی دیا گیا تھا اور اگر یہ لوگ ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتے تو فوری طور پر بنگلا دیش کی آزادی کا اعلان کر دیا جاتا۔ انڈیا نے انھیں یقین دلایا تھا کہ وہ اسے تسلیم کر لے گا۔

شیخ مجیب الرحمان کا نام بعد میں شامل کیا گیا؟

بنگلا دیش کے سابق نائب وزیر اعظم مودود احمد نے اپنی کتاب ’بنگلادیش: کنٹمپریری ایونٹس اینڈ ڈاکیومنٹس’ میں کچھ زیادہ تفصیلات کا ذکر کیا ہے۔

ان کے مطابق اگرتلہ جانے والوں کی ملاقات وہاں انڈین فوج کے ایک لیفٹیننٹ کرنل مشرا، میجر مینن اور بعض دیگر افسروں سے ہوئی تھی۔ ان کی کتاب میں بعض دیگر گرفتار ہونے والوں کے نام بھی ملتے ہیں۔ ان میں عوامی لیگ چٹاگانگ کے سیکریٹری مالیات بھوشن چوہدری عرف مانک چوہدری بھی شامل تھے۔

مودود احمد کے مطابق یہی گرفتاریاں تھیں جن سے حکومت کو اس سازش کے ثبوت میسر آئے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ اس مقدمے کے درج ہونے کے 12 دن کے بعد شیخ مجیب الرحمٰن کا نام بڑے (مرکزی) ملزم کی حیثیت سے مقدمے میں شامل کیا گیا۔

سنہ 1972 میں رہائی کے بعد شیخ مجیب لندن میں ایک پریس کانفرنس کے دوران

انھوں نے لکھا ہے کہ یہ اس کے باوجود تھا کہ جن دنوں یہ واقعات رونما ہو رہے تھے، شیخ مجیب جیل میں تھے۔ مصنف کے مطابق اس سازش میں مجیب کے ملوث ہونے کے بارے میں حکومت کے پاس کوئی ٹھوس شواہد نہیں تھی۔ اس لیے یہ مقدمہ اگر کسی دباؤ کے بغیر آزادانہ چلتا تو ان پر لگایا گیا الزام ہوا میں اڑ جاتا اور وہ یقینی طور پر بری ہو جاتے۔

ڈاکٹر صفدر محمود بھی تصدیق کرتے ہیں کہ شیخ مجیب الرحمٰن کا نام بعد میں شامل کیا گیا۔

’وہ ہمارے ساتھ نہیں رہیں گے‘

الطاف گوہر نے اس سلسلے میں زیادہ دلچسپ تفصیلات بیان کی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ایک شام ایوب خان نے انھیں اپنی خواب گاہ میں طلب کیا۔ دوران گفتگو مشرقی پاکستان کا ذکر ہوا تو ایوب خان خفا ہو گئے اور انھوں نے الطاف گوہر سے کہا: ’جب بھی بنگالیوں کا ذکر آتا ہے تم جذباتی ہو جاتے ہو۔‘ پھر نسبتاً بےزاری کے ساتھ کہا: ’ارے بھائی، میں نے انھیں دوسرا دارالحکومت اس لیے دیا ہے کہ ایک دن انھیں اس کی ضرورت پڑے گی۔ وہ ہمارے ساتھ نہیں رہیں گے۔‘

اگلے روز کابینہ کا اجلاس ہوا تو ایوب خان کے مزاج کی برہمی برقرار تھی۔ اس موقع پر انھوں نے کہا: ’مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان کی رفاقت یا ہندوستان کی غلامی میں سے ایک راستہ چننا پڑے گا۔‘

الطاف گوہر کے مطابق وہ اس اجلاس میں مشرقی پاکستان کے وزیروں کے ساتھ غیر معمولی درشتی کے ساتھ پیش آئے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اس برہمی کا سبب وہ انکشاف تھا جسے بعد میں ’اگرتلہ سازش کیس‘ کا نام دیا گیا۔

’استغاثہ کی کہانی کا تانا بانا مفروضوں پر مبنی تھا‘

کچھ دنوں کے بعد ایوب خان علیل ہو گئے۔ اس دوران میں اگرتلہ کیس بھی پس منظر میں چلا گیا۔ اس معاملے میں دوبارہ سرگرمی اس وقت شروع ہوئی جب ایوب خان صحتیاب ہو گئے۔ اس دوران پاکستان آرمی کے جنرل ہیڈ کوارٹرز نے اپنی تفتیش مکمل کر لی تھی اور مقدمہ سماعت کے لیے تیار کر ہو چکا تھا۔

یحییٰ خان چاہتے تھے کہ اس کی سماعت خصوصی ٹربیونل کرے مگر ایوب خان اس کے خلاف تھے۔ ان کے ذہن میں راولپنڈی سازش کیس تھا۔ اس مقدمے کی سماعت بھی ایک ٹربیونل میں ہوئی تھی۔ وہ سمجھتے تھے کہ کھلی عدالت میں سینیئر فوجی افسروں کے جرح و تفتیش سے گزرنے کی وجہ سے فوج کا وقار متاثر ہوا تھا۔ اب وہ ایسا نہیں چاہتے تھے لیکن یحییٰ خان کا اصرار ٹربیونل پر ہی تھا۔

اس بحث مباحثے اور اجلاسوں میں سیکریٹری اطلاعات کی حیثیت سے الطاف گوہر بھی شریک ہوا کرتے تھے۔ ایک اجلاس میں یحییٰ خان نے اُن پر زور دیا کہ مقدمے کی کارروائی کی پریس کوریج خوب اچھی طرح ہونی چاہیے کیونکہ ہمارا مقدمہ فول پروف ہے۔ اس پر الطاف گوہر نے جواب دیا: ’اگر ایسا ہے تو آپ کو پبلسٹی (تشہیر) بھی فول پروف ہی ملے گی۔‘

اس جواب پر یحییٰ خان جھنجھلا گئے اور ایڈووکیٹ جنرل کو ہدایت کی کہ وہ مقدمے کی فائل الطاف گوہر کے حوالے کر دیں۔ وہ لکھتے ہیں: ’اس فائل کے مطالعے کے بعد وہ حیران رہ گئے کہ استغاثہ کی کہانی مفروضوں پر مبنی تھی۔ شہادتوں میں ‘شیخ’ نامی ایک کردار کو سازش کا بڑا ملزام قرار دیا گیا تھا مگر اس ’شیخ’ کو شیخ مجیب الرحمٰن ثابت کرنے کے لیے استغاثے کے پاس کوئی مواد نہ تھا۔‘

پریس ریلیز سے مجیب الرحمان کا نام نکال دیا گیا

الطاف گوہر نے لکھا ہے کہ جس روز انھیں مقدمے کی فائل پڑھنے کا موقع ملا، اسی روز جی ایچ کیو میں ایک پریس ریلیز تیار کی گئی جس کے ذریعے یہ انکشاف کیا جانا تھا کہ شیخ مجیب الرحمٰن اس مقدمے کے مرکزی ملزم ہیں۔

یہ پریس ریلیز سات اپریل 1968 کے اخبارات میں شائع ہونی تھی۔ اس وقت تک دفتری اوقات ختم ہو چکے تھے۔ الطاف گوہر نے اس کے باوجود ایوب خان کو اس پیش رفت سے آگاہ کرنا ضروری سمجھا۔ انھیں بتایا کہ جی ایچ کیو کسی ٹھوس ثبوت کے بغیر شیخ مجیب الرحمٰن کا نام مقدمے میں شامل کر رہا ہے جو درست نہیں۔

انھوں نے تجویز کیا کہ اس مقدمے میں مجیب کو اگر ماخوذ کرنا ضروری ہے تو دوسرا طریقہ اختیار کیا جائے۔ یعنی استغاثہ سماعت کے دوران ان کے خلاف کافی ثبوت مہیا کر دے تو عدالت انھیں ازخود طلب کر لے گی۔ ایوب خان کو یہ دلیل پسند آئی اور یوں ان کی ہدایت پر شیخ مجیب الرحمٰن کا نام خارج کر دیا گیا۔

کچھ دنوں کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ایس اے رحمٰن کی قیادت میں خصوصی ٹربیونل قائم کر دیا گیا۔ مقدمے کی سماعت ابھی شروع نہیں ہوئی تھی کہ ایک پریس نوٹ کے ذریعے شیخ مجیب الرحمٰن کا نام دوبارہ ملزموں کی فہرست میں شامل کر دیا گیا۔ اس سلسلے میں ایوب خان کو متوجہ کیا گیا۔ اس وقت تک وہ بھی اپنی رائے بدل چکے تھے۔ انھوں نے سیکریٹری اطلاعات کو بتایا کہ یحییٰ خان کے قانونی مشیر کا خیال ہے کہ ’مقدمے کی کامیابی کے لیے مجیب کا نام شامل کرنا ضروری ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

’مقدمہ کھلی عدالت میں چلنا چاہیے‘

اگرتلہ سازش کا مقدمہ کس عدالت میں چلایا جائے؟ حکومت اس سلسلے میں کافی شش و پنج کا شکار رہی۔ کسی فیصلے پر آسانی سے نہ پہنچنے کی کئی وجوہات تھیں۔ ایس ایم ظفر نے اس معاملے پر روشنی ڈالی ہے۔ مقدمے میں نیوی کے افسران شامل تھے، اس اعتبار سے یہ کورٹ مارشل کا مقدمہ تھا۔ سول سروسز کے افسران کی وجہ سے معاملہ سروسز ٹربیونل میں جا سکتا تھا۔

شیخ مجیب اور دیگر سویلین افراد کی وجہ سے یہ عام عدالت کا معاملہ بنتا تھا۔ لہٰذا فیصلہ مشکل تھا۔ ایس ایم ظفر کے مطابق اس سلسلے میں حکومت کے سامنے تین مصلحتیں پیش نظر رکھتے ہوئے خصوصی ٹربیونل میں مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا:

  • چونکہ یہ ملک توڑنے کی سازش ہے، اس لیے مقدمہ کھلی عدالت میں چلنا چاہیے تاکہ مقدمے کی کارروائی پر عوام کا اعتماد بحال رہے
  • شیخ مجیب الرحمٰن کا اگر کورٹ مارشل ہوا تو یہ تاثر پیدا ہو گا کہ انھیں انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، اس لیے کھلی عدالت شفافیت کا تاثر مضبوط ہو گا
  • مقدمے میں ماخوذ کئی افراد کا تعلق چوںکہ مختلف سروسز سے ہے۔ الگ الگ مقدمہ چلانے کے بجائے یہی بہتر ہے کہ خصوصی ٹربیونل بنا دیا جائے

انھوں نے لکھا ہے کہ پولیس نے بھی کھلی عدالت میں مقدمہ چلانے کی رائے دی تھی۔ اسی طرح سیاسی جماعتوں کی طرف سے بھی یہی مطالبہ سامنے آیا تھا۔

’ایوب خان چاہتے تھے تمام جج مشرقی پاکستان سے ہوں‘

ایوب خان

خصوصی ٹربیونل تین ججوں پر مشتمل تھا جن میں سے دو کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا۔ یعنی جسٹس ایم آر خان اور جسٹس مقصود الحکیم۔ چیئرمین چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان تھے، ان کا تعلق مغربی پاکستان سے تھا۔

ایوب خان چاہتے تھے کہ تمام ججوں کا تعلق مشرقی پاکستان سے ہو تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ لسانی اور علاقائی تعصبات غالب آ گئے ہیں مگر یہ ممکن نہ ہو سکا۔ یہ کمی ٹرم آف ریفرنس میں یہ شرط شامل کر کے پوری کی گئی کہ فیصلہ کثرت رائے سے ہو گا۔

حکومت کی تمام تر احتیاطی تدابیر کے باوجود اس مقدمے میں شفافیت کا تاثر پیدا نہ ہو سکا۔ شیخ مجیب الرحمٰن کا نام مقدمے میں شامل ہونے کی وجہ سے صحیح معنوں میں مقدمہ چل سکا، نہ نتیجے پر پہنچ سکا۔

مقدمے کی کارروائی جاری تھی کہ ڈھاکہ میں ہوٹل آرزو جلا دیا گیا۔ مظاہرین سمجھتے تھے کہ حکومت نے یہاں ایک وعدہ معاف گواہ کو ٹھہرا رکھا ہے۔ چٹاگانگ میں ایک ڈسپنسری جلا دی گئی کیوں کہ سعید نامی ایک شخص یہاں کام کرتے تھے جو مقدمے کے گواہ تھے۔

ایس ایم ظفر نے لکھا ہے کہ یہ صورتحال دیکھ کر انھوں نے چیف جسٹس کو مشورہ دیا کہ وہ حالات کے بہتر ہونے تک مقدمے کی سماعت ملتوی کر دیں۔

یہ بھی دیکھئے:

قدرت اللہ شہاب نے مقدمے کی سماعت میں خلل کی ایک اور وجہ بھی بیان کی ہے: ’ایک روز ڈھاکہ کے ایک بے قابو ہجوم نے اس سٹیٹ گیسٹ ہاؤس ہر حملہ کر دیا جس میں اگرتلہ سازش کیس ٹربیونل کے سربراہ جسٹس ایس اے رحمٰن قیام پزیر تھے۔ انھوں نے بمشکل تمام ایک وفادار بنگالی خدمت گار کی کوٹھڑی میں روپوش ہو کر اپنی جان بچائی اور چپکے سے پوشیدہ طور پر ہوائی جہاز میں بیٹھ کر لاہور چلے آئے۔‘

’اس گولی نے جسد پاکستان کو چھلنی کیا ہے‘

یہ مقدمہ عوامی غیض و غضب کا شکار کیوں ہوا؟ اس کی وجوہات کئی تھیں۔ شیخ مجیب الرحمٰن کا نام مقدمے میں شامل کرنے کی وجہ سے عوام پہلے ہی ناراض تھے۔ بعد میں کچھ ناپسندیدہ واقعات بھی رونما ہو گئے۔ اس سلسلے کا پہلا غیر معمولی واقعہ سارجنٹ ظہور الحق کی ہلاکت کا تھا۔

سارجنٹ اگرتلہ سازش کیس میں ملوث تھے۔ قدرت اللہ شہاب نے لکھا ہے کہ ابتدا میں سارجنٹ کی ہلاکت کی خبر آئی۔ بتایا گیا کہ انھیں فوج کی حراست میں تشدد کر کے ہلاک کیا گیا ہے۔ پہلے انھیں سنگینوں سے زخمی کیا گیا پھر گولی چلا دی گئی۔

دوسری خبر یہ تھی کہ وہ جیل سے بھاگنے کی کوشش میں مارے گئے ہیں۔ شہاب کے مطابق دوسری خبر پر یقین نہیں کیا گیا۔ ان کے مطابق عمومی رائے یہی تھی کہ وحشیانہ تشدد کر کے انھیں موت کے گھاٹ اتارا گیا ہے۔ ایس ایم ظفر بھی ان کے فرار کی کہانی پر سوالات اٹھاتے ہیں۔

مظاہرے

وہ کہتے ہیں کہ سارجنٹ ظہورالحق کی موت ایک سربستہ راز ہے۔ انھوں اس مقدمے میں سرکاری وکیل منظور قادر کا ایک غیر معمولی تبصرہ بھی نقل کیا ہے: ’یہ گولی سارجنٹ ظہور کے جسم پر نہیں لگی، اس نے جسد پاکستان کو چھلنی کیا ہے۔‘

بدقسمتی کا یہ سفر سارجنٹ ظہور کی پراسرار موت پر رکا نہیں۔ اس کے بعد مزید تکلیف دہ واقعات رونما ہوئے۔ شہاب کے مطابق سارجنٹ کی موت کے بعد پورے مشرقی پاکستان میں فسادات شروع ہو گئے۔

ڈھاکہ میں دو وزیروں کے گھر جلا دیے گئے۔ ان میں سے ایک خواجہ شہاب الدین تھے اور دوسرے عبدالصبور خان۔ راج شاہی میں طلبہ نے ایک احتجاجی جلوس نکالا۔ راج شاہی یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر شمس الضحیٰ نے طلبہ کو سمجھا بجھا کر مشورہ دیا کہ وہ منتشر ہو جائیں۔ ان کی گفتگو ابھی جاری تھی کہ شہاب کے مطابق ایک سپاہی نے ان پر سنگین سے حملہ کر دیا اور تشدد کر کے موقع پر ہی انھیں ہلاک کر دیا۔

یوں سارجنٹ ظہور کے بعد ڈاکٹر شمس کا نام بھی ’شہیدوں‘ کی فہرست میں شامل ہو گیا۔ اس واقعے کے بعد قانون کی حکمرانی کا تصور ختم ہو گیا۔ کرفیو کی خلاف ورزی معمولی بات تھی، بڑے پیمانے پر فسادات شروع ہو گئے۔

ایوب خان کی بنیادی جمہوریتوں کے ارکان کو نشانہ بنا لیا گیا۔ کئی کونسلروں کو قتل بھی کر دیا گیا۔ صورتحال اس قدر بگڑ گئی کہ ان لوگوں کو روپوش ہونا پڑا۔ بہت سی دیگر وجوہات کے علاوہ ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی جس نے اس مقدمے کی سماعت کو ناممکن بنا دیا۔

حکومت نے مقدمہ واپس کیوں لیا؟

اگرتلہ سازش کیس کی بدقسمتی صرف یہی نہیں تھی کہ مقدمے کی سماعت مکمل نہ ہو سکی بلکہ یہ بھی تھی کہ حکومت یہ مقدمہ واپس لینے پر بھی مجبور ہو گئی۔ ایوب خان مقدمہ واپس لینے پر مجبور کیوں ہوئے؟ ایس ایم ظفر نے لکھا ہے کہ اس کی کئی وجوہات تھیں۔ ان میں ایک بڑی وجہ سیاست دانوں کی گول میز کانفرنس تھی۔

ایوب خان نے یہ کانفرنس سیاسی بحران کے شدید ہو جانے پر طلب کی تھی۔ کانفرنس میں شیخ مجیب الرحمٰن کو بھی مدعو کیا گیا۔ وہ اگرتلہ سازش کیس کی وجہ سے ان دنوں نظر بند تھے۔ انھوں نے آنے سے انکار کر دیا۔ ان کے انکار کے بعد حزب اختلاف کے پاکستان ڈیمو کریٹک فرنٹ نے ان کی رہائی کا مطالبہ کر دیا۔

شیخ مجیب اور ایوب خان

ایس ایم ظفر نے لکھا ہے کہ حزب اختلاف کے مطالبے پر انھوں ایوب خان کو بتایا کہ جب تک کسی شخص پر جرم ثابت نہ ہو جائے، اسے بے گناہ تصور کیا جاتا ہے۔ اس لیے انھیں کانفرنس میں شرکت کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ اسی دوران میں حالات بدل گئے۔

بعض حلقوں کی جانب سے مجیب کے خلاف مقدمہ واپس لینے کی مہم شروع کر دی گئی۔ اس سلسلے میں ایس ایم ظفر نے پہلا نام ممتاز قانون دان اے کے بروہی کا لیا ہے۔ اے کے بروہی نے ایوب خان سے ملاقات کر کے ان پر زور دیا کہ وہ مقدمہ واپس لے لیں۔

اسی دوران میں ایک اور واقعہ رونما ہوا۔ ایس ایم ظفر نے لکھا ہے کہ ابتدا میں یہ طے پایا تھا کہ مجیب کو اوپن کسٹڈی کے قانون کے تحت کانفرنس میں شرکت کی اجازت دی جائے گی۔

اوپن کسٹڈی کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص فوج کی تحویل میں ہو تو وہ ضرورت کے تحت کہیں آ جا سکتا ہے۔ اس بات سے گول میز کانفرنس کے شرکا کو بھی آگاہ کر دیا گیا۔ اس سے پہلے کہ یہ معاملہ آگے بڑھتا، راولپنڈی سے بعض لوگوں نے بیگم مجیب الرحمٰن کو فون کر دیے۔ انھیں مشورہ دیا گیا کہ وہ مجیب کو اوپن کسٹڈی یعنی فوج کی تحویل میں آنے سے روک دیں۔

اس پیش رفت پر مجیب کے ایک وکیل ڈاکٹر کمال حسین نے ایس ایم ظفر سے ملاقات کی اور مطالبہ کیا کہ انھیں ضمانت دی جائے۔ بدلے ہوئے حالات میں انھوں (ایس ایم ظفر) نے مشرقی پاکستان کے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو انھیں ہدایت کی کہ وہ مجیب کے وکلا کو درخواست ضمانت دائر کرنے کے لیے کہیں۔

مجیب الرحمان نے ضمانت کی درخواست دائر کرنے سے انکار کیوں کیا؟

جس روز مجیب کی درخواست ضمانت دائر ہونی تھی ایک اور واقعہ رونما ہو گیا۔ درخواست ضمانت کی سماعت کے لیے ٹربیونل نے وقت مقرر کر دیا۔ دوسری طرف وکیل درخواست ضمانت جمع کرانے کی اجازت لینے کے لیے جیل پہنچ گئے۔

اسی دوران میں ریڈیو پاکستان سے ایک خبر نشر ہوئی۔ خبر میں بتایا گیا کہ شیخ مجیب الرحمٰن نے گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے ضمانت پر رہائی کی پیشکش قبول کر لی ہے۔

یہ خبر اُن کی درخواست ضمانت کی سماعت سے بھی قبل نشر ہو گئی جس پر مجیب نے درخواست ضمانت دائر کرنے سے انکار کر دیا۔ ان کا مؤقف تھا کہ اس طرح یہ تاثر پیدا کیا جا رہا ہے کہ جیسے انھیں خرید لیا گیا ہے۔

بیگم مجیب کو ایک بار پھر راولپنڈی سے فون کیے گئے۔ اس بار انھیں مشورہ دیا گیا کہ مجیب غیر مشروط رہائی پر اصرار کریں۔ ایس ایم ظفر کے مطابق یہ ٹیلی فون کالیں وفاقی وزیر عبدالصبور خان کے گھر سے کی گئی تھیں۔

عوامی لیگ کے ایک رہنما تاج الدین نے صحافیوں کو بتایا کہ شیخ مجیب الرحمٰن ایک آزاد شخص کی حیثیت سے گول میز کانفرنس میں شرکت کریں گے۔ ان سے سوال کیا گیا کہ یہ پیش رفت کب ہوئی؟

انھوں نے بتایا کہ اس بات کی انھیں یقین دہانی کرادی گئی ہے۔ معلوم ہوا کہ عبدالصبور خان کے ہاں سے کیے جانے والے فون پر مولوی فرید احمد نے انھیں یہ یقین دہانی کرائی تھی۔ انھوں نے بتایا کہ اس موقع پر وہاں حزب اختلاف کے رہنما نواب زادہ نصراللہ خان بھی موجود تھے۔

’شیخ مجیب کو پھانسی کے پھندے سے بچا لیا گیا‘

معاملات جب اس رُخ پر پہنچے تو سیاست دانوں نے حکومت پر دباؤ بڑھانا شروع کر دیا۔ ایسے رہنماؤں میں میاں ممتاز محمد خان دولتانہ، سردار شوکت حیات خان، ذوالفقار علی بھٹو اور ائیر مارشل ریٹائرڈ اصغر خان شامل تھے۔

اصغر خان تو اس حد تک پہنچے کہ کسی مبہم اطلاع پر مجیب کا استقبال کرنے کے لیے لاہور ائیر پورٹ پر پہنچ گئے۔ سردار شوکت حیات کا کہنا تھا کہ اگر مجیب کو رہا کر دیا گیا تو وہ امکانی طور پر چھ نکات سے دستبردار ہو جائیں گے۔ ایس ایم ظفر لکھتے ہیں، ایسی باتیں کہی ضرور گئیں لیکن انھیں متاثر نہ کر سکیں۔

جنر گل حسن لکھتے ہیں کہ یکے بعد دیگرے رونما ہونے والے ان واقعات سے ایوب خان پر دباؤ بڑھ گیا اوروہ مقدمہ واپس لینے پر مجبور ہو گئے۔ جنرل گل حسن ان واقعات کی تفصیل بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ‘اس طرح شیخ مجیب کی گردن کو پھانسی کے پھندے سے بچا لیا گیا۔‘

جنرل گل حسن کیوں پُرامید تھے کہ شیخ مجیب الرحمٰن اگرتلہ سازش کیس سے بچ نہ سکیں گے؟ انھوں نے لکھا ہے کہ گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے ان کی رہائی کا مطالبہ سامنے آیا تو ایوب خان نے ابتدا میں اسے مسترد کر دیا۔ ایوب خان نے ملک توڑنے کی سازش میں ان کے ملوث ہونے کے ثبوت سیاست دانوں کے سامنے رکھ دیے۔

شیخ مجیب

کیا شیخ مجیب اگرتلہ سازش میں شامل تھے؟

ملک توڑنے کی سازش کے سلسلے میں مشرقی پاکستان کے لوگ کیا سوچ رہے تھے۔ اس سلسلے میں مودود احمد نے اپنی کتاب میں اظہار خیال کیا ہے۔

وہ لکھتے ہیں کہ حق خود ارادیت کے سلسلے میں غیر ملکوں سے مدد لینے کی روایت موجود ہے۔ کیا شیخ مجیب نے بھی ایسا کیا ہو گا؟ وہ اس امکان کو مسترد کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان جس قسم کی تلخیاں پائی جاتی تھیں، ان کے پس منظر میں ایسی حمایت کا قبول کرنا ہلاکت خیز ہوتا۔

الطاف گوہر نے بھی کچھ اسی قسم کی بات لکھی ہے۔ وہ اس زمانے کے حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ان دنوں ملک میں غیر معمولی سیاسی بے چینی تھی۔ تلخی بڑھ رہی تھی۔ عوام مایوس تھے اورانتطامیہ اعتماد پر گرفت سے محروم ہو چکی تھی۔ یہ ایک ایسی صورتحال تھی جس میں خفیہ ادارے سازشوں کی ٹوہ میں لگے رہتے تھے: ’آخر کار ان کا گوہر مقصود اگرتلہ ایجنسی کی شکل میں انھیں مل گیا۔‘

قدرت اللہ شہاب کی رائے الطاف گوہر کے برعکس ہے۔ انھوں نے لکھا ہے: ’بلاشبہ اگرتلہ سازش کیس کا مقدمہ صحیح حقائق و شواہد پر مبنی تھا لیکن جس طور اخبارات اور دیگر ذرائع ابلاغ سے اس مقدمے کی پبلسٹی اور تشہیر ہوئی اس نے اس کے حقائق کو سیاسی اور عوامی ہیجان کی دلدل میں ملیامیٹ کر دیا۔‘

اگرتلہ سازش کیس میں شیخ مجیب کے ملوث ہونے کے بارے میں جنرل گل حسن کا بیان دو ٹوک ہے۔ ان کے علاوہ کسی اور مصنف نے ان پر کوئی دوٹوک الزام نہیں لگایا۔ الطاف گوہر نے کھل کر کہا ہے کہ استغاثہ کے پاس ان کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت نہیں تھا۔ ایس ایم ظفر نے کھل تو ایسا نہیں کہا لیکن یہ ضرور لکھا ہے کہ ان کی خواہش تھی کہ وہ اس مقدمے میں بری ہوں۔ یہ بات انھوں نے جس انداز میں لکھی، اس سے سرخرو ہونے کا تاثر پیدا ہوتا ہے۔

قدرت اللہ شہاب نے سازش کے درست ہونے پر تو اصرار کیا ہے البتہ شیخ مجیب کے ملوث ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں خاموشی اختیار کی ہے۔ مودود احمد نے بھی شیخ مجیب الرحمٰن کے ملوث نہ ہونے پر زور دیا ہے۔

‘حکومت کا خیال تھا مجیب کی سیاسی موت ہو جائے گی’

اس قسم کے بیانات سے مجموعی تاثر یہی بنتا ہے کہ شیخ مجیب کے خلاف مقدمہ زیادہ مضبوط نہ تھا۔ اگر حقائق کی نوعیت ایسی ہی تھی تو کیا وجہ ہے کہ انھیں اس مقدمے میں ماخوذ کیا گیا؟ اس موضوع پر محققین اور مؤرخین نے کافی توجہ دی ہے۔

ڈاکٹر صفدر محمود نے ’پاکستان کیوں ٹوٹا‘ میں اس کا ایک سبب بیان کا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اس کی وجہ مشرقی پاکستان کے گورنر عبدالمنعم خان کی شیخ مجیب سے دشمنی تھی۔ انھوں اس دشمنی کی تفصیل پر روشنی نہیں ڈالی۔ البتہ الطاف گوہر نے گورنر منعم کے مزاج پر کسی قدر تفصیل سے اظہار خیال کیا ہے۔

کتاب

وہ لکھتے ہیں کہ مشرقی پاکستان میں ان کے بارے میں تاثر یہ تھا کہ وہ ایوب خان کی کٹھ پتلی ہیں۔ اپنے اسی تاثر کی وجہ سے ان کا اقتدار بنگالیوں کو مغربی پاکستان سے دور لے جانے کا باعث بنا۔ الطاف گوہر نے لکھا ہے: ‘گورنر منعم خان اکثر ایوب خان کو کہا کرتے تھے کہ وہ شیخ مجیب الرحمٰن کو ایک دن کے لیے بھی جیل سے باہر رہنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ وہ اپنے مخصوص انداز میں اعلان کرتے: ‘کسی ماں کے پتر کو میرے صدر کے خلاف بات کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔‘

ممتاز محقق سمانتھا کرسٹین سین نے اُس دور کے حالات پر ایک مقالہ قلم بند کیا۔ انھوں نے لکھا ہے کہ اگرتلہ سازش کیس سے قبل مجیب چھ نکات پیش کر چکے تھے اور ان کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ ان کے خیال میں اس مقدمے کا مقصد ان کی تحریک کو کچلنا تھا جو حق خود اختیاری کے لیے چلائی جا رہی تھی۔ حکومت کا خیال تھا کہ اس مقدمے سے مجیب کی سیاسی موت واقع ہو جائے گی۔

‘سوشیو پولیٹیکل ہسٹری آف بنگال اینڈ برتھ آف بنگلا دیش’ نامی کتاب میں مصنف قمر الدین احمد نے لکھا ہے کہ حکومت کا خیال تھا کہ انڈیا کے ساتھ ساز باز کے انکشاف پر عوام مجیب کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے اور انھیں سزائے موت دینے کا مطالبہ کریں گے۔ قمرالدین احمد نے اس زمانے کے وزیر قانون ایس ایم ظفر کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا: ‘حکومت سمجھتی تھی کہ اس (مجیب) کے خاندان کو عوام کے غیض و غضب سے پچانا مشکل ہو گا۔‘

‘مجیب ہیرو بن کر ابھرے گا’

حکومت نے جن توقعات پر یہ مقدمہ قائم کیا اور اس میں شیخ مجیب الرحمٰن کا نام بھی شامل کیا، کیا یہ توقعات پوری ہوئیں؟

ممتاز مصنف اور سابق بیورو کریٹ اے جی نورانی نے اپنے ایک مقالے میں مودود احمد کی کتاب کا جائزہ لیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اس زمانے کے حالات کو سمجھنے کے لیے مودود احمد کی گواہی اہم ہے۔ مودود احمد نے اگرتلہ سازش کیس کے سامنے آنے کے بعد کے حالات کا معروضی جائزہ لیا ہے۔

بنگلہ دیش احتجاج

انھوں نے لکھا ہے کہ شیخ مجیب الرحمٰن نے جب چھ نکات پیش کیے تھے تو اہم طبقات کی انھیں حمایت حاصل تھی۔ ان طبقات میں تاجروں کے علاوہ معاشرے کی اہم مؤثر شخصیات بھی شامل تھیں۔ اگرتلہ سازش کیس کے سامنے آنے کے بعد یہ لوگ پیچھے ہٹ گئے۔ ان کے ایام اسیری میں طلبہ برادری ان سے رابطہ رکھا کرتی تھی، وہ بھی پیچھے ہٹ گئی۔ یہاں تک کہ کوئی وکیل بھی ان کی طرف سے پیش ہونے پر آمادہ نہیں تھا۔

مصنف مودود احمد لکھتے ہیں کہ یہ دیکھ کر، اگرچہ میں ایک جونئیر وکیل تھا، آگے بڑھا۔ حالاںکہ میرا کوئی تعلق عوامی لیگ سے تھا اور نہ شیخ مجیب الرحمٰن سے۔ انھوں نے لکھا: ‘میں مجیب کا دفاع کرنا چاہتا تھا کیوںکہ میں سمجھتا تھا کہ بنگالیوں کے لیے مجیب نے بہت قربانیاں دی ہیں۔‘

کچھ عرصے کے بعد برطانیہ میں مقیم مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے ایک برطانوی قانون دان تھامس ولیمز کی خدمات اس مقدمے کے لیے حاصل کیں۔ یوں اس مقدمے کی گونج عالمی سطح پر سُنی گئی۔ سمانتھا کرسٹینا سین بھی مجیب کی سیاسی تنہائی کے اس تاثر کی تائید کرتی ہیں۔

انھوں نے لکھا کہ طلبہ سہمے ہوئے تھے۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کے اقبال ہال میں انھوں نے صورتحال پر غور کے لیے ایک اجلاس منعقد کیا لیکن وہ کوئی لائحہ عمل مرتب کرنے میں ناکام رہے۔ اس سلسلے میں ایک مظاہرے کا ذکر بھی ملتا ہے جس کے شرکا کی تعداد ڈیڑھ سو کے قریب تھی۔

عوامی ردعمل کی یہ کیفیت حکومت کے اندازوں کے عین مطابق تھی لیکن رفتہ رفتہ صورتحال بدلنے لگی۔ سمانتھا کرسٹین سین نے مشرقی پاکستان کی صورتحال کے بارے میں امریکی سفارت خانے کے تار کا ذکر کیا ہے۔ اس تار میں کہا گیا تھا: ’اگر حکومت نے اپنے مقاصد کے ان مقدمات میں مجیب کو کھلے بندوں گھسیٹا تو وہ ہیرو بن کر ابھرے گا۔‘

مودود احمد نے بھی اس موضوع پر اظہار خیال کیا ہے۔ انھوں نے لکھا: ‘جس طرح سیاسی مقدمات میں ہوتا ہے، صورتحال بدل گئی۔ بدلے ہوئے حالات کا مطلب یہ ہے کہ بنگالی قوم پرستی کی لہر چل پڑی۔’

مزید پڑھیے

‘یحییٰ کو معلوم ہونا چاہیے تھا اگرتلہ کیس بم کی طرح پھٹے گا‘

محقق ڈاکٹر صفدر محمود نے اس مقدمے کے اثرات کا پاکستانی نقطہ نظر سے جائزہ لیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اس مقدمے کے نتیجے میں مجیب ہیرو بن کر ابھرے۔ ان کے چھ نکات کو تقویت ملی اور ملک میں پہلی بار علیحدگی کے امکانات پر کھلم کھلا بحث ہونے لگی۔

قدرت اللہ شہاب نے یہی بات کچھ زیادہ وضاحت سے لکھی ہے: ’مشرقی پاکستان کی علیحدگی، اس کے الگ نام، پرچم، اور قومی ترانے کی تفصیلات کھل کر سامنے آ گئیں۔ علیحدگی پسند عناصر کو اپنی جائز اور ناجائز شکایات کی تشہیر کا بھی ایک نادر موقع ہاتھ آ گیا۔ جس کروفر سے یہ تفصیلات اخبارات میں اچھالی جاتی تھیں، اس کے دو پہلو تھے۔ ایک پہلو یہ تھا کہ مغربی پاکستان کے خلاف نفرت بڑھتی تھی اور ایوب خان کی مرکزی حکومت پر اعتماد کمزور پڑ جاتا تھا۔ دوسرا پہلو یہ تھا کہ علیحدگی کے جراثیم عوام کے ذہن میں جڑ پکڑتے گئے اور شیخ مجیب الرحمٰن کی قیادت کو بیٹھے بٹھائے انتہائی فروغ حاصل ہو گیا۔‘

جنرل یحیحیٰ

،ایوب حکومت کے سیکریٹری اطلاعات الطاف گوہر نے اس سلسلے میں جنرل یحییٰ خان کو مورد الزام ٹھہرایا ہے۔ ’( اس مقدمے نے) حکومت کو ایک سنگین بحران سے دوچار کر دیا۔ یحییٰ خان کو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ اگرتلہ سازش کیس بم کی طرح پھٹے گا۔ اس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان کے علیحدگی کے ایسے سفر پر روانہ ہو جائے گا جہاں سے شاید وہ کبھی نہ لوٹے۔‘

پاکستان زندہ باد کی جگہ ’جوئے بانگلا‘ کے نعرے

ایک اور محقق ڈیوڈ لُڈن نے لکھا ہے کہ شیخ مجیب الرحمٰن کو اگرتلہ سازش کیس سمیت دیگر مقدمات میں تین سال جیل میں رہنا پڑا۔ اس عرصے کے دوران میں ایوب خان کے خلاف طلبہ نے تند و تیز تحریک شروع کردی۔ ملک کے مشرقی حصے میں صورتحال نسبتاً مختلف تھی۔

بائیں بازو کے سیاست دانوں اور طلبہ نے ’آزاد جمہوریہ پوربا دیش‘ کے قیام کا مطالبہ کر دیا۔ سربادیالیا چھاترا سنگرام پریشد نامی طلبہ تنظیم نے گیارہ نکاتی چارٹر پیش کیا۔ ان کا مطالبہ تھا مشرقی پاکستان میں اس چارٹر کے تحت سیلف رول کا حق دیا جائے۔

اسی زمانے میں مشرقی پاکستان میں کچھ نئے نعرے بھی متعارف ہوئے۔ ان نعروں میں ‘جاگ بنگالی جاگ’، ‘بہادر بنگالیو! ہتھیار اٹھاؤ اور بنگلا دیش بنا دو’ جیسے نعرے شامل تھے۔ ایک نعرہ تھا: ’آمار دیش، تومار دیش، بنگلا دیش۔‘ اسی طرح پاکستان زندہ باد کے قومی نعرے کی جگہ جوئے بانگلا کے نعرے نے لے لی۔

مجیب کو اس مقدمے میں ملوث کرنے کی وجہ سے حکومت کا اعتبار ہی نہیں، اس کا اعتماد بھی جاتا رہا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ عوام کو نہ حکومت کی نیت پر اعتماد تھا اور نہ اس کی غیر جانب داری پر۔ حکومت کا تاثر کیسے مجروح ہوا، یہ سمجھنے لیے برطانوی اخبار ‘دی ٹائمز’کا ایک تبصرہ ہی کافی ہے۔ اخبار نے لکھا: ‘شیخ مجیب کو ایک ایسے مقدمے میں ملوث کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جو مبینہ طور پر اس وقت تیار ہوا جب مجیب جیل میں تھے۔‘

بنگلہ دیش سے الزامات کے حق میں گواہی

اگرتلہ تنازع کے دنوں میں فضا حکومت کے حق میں نہیں تھی۔ مجیب یا اس سازش کے حق میں اگر اس کے پاس کچھ ثبوت تھے بھی تو کوئی ان پر یقین کرنے پر آمادہ نہ تھا۔ مقدمہ ختم ہو جانے کے بعد تو صورتحال بالکل ہی بدل گئی۔ آئندہ چار دہائیوں تک اس تاثر میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی لیکن 2011 میں بنگلہ دیش سے آنے والی ایک گواہی نے صورتحال بدل دی۔

بنگلہ دیش پارلیمنٹ نے ایک رکن شوکت حسین نے پارلیمنٹ کے اندر انکشاف کیا کہ اگرتلہ سازش کے بارے میں حکومت پاکستان کے الزامات درست تھے۔ انھوں ایک ہیرو کی طرح اپنا کارنامہ بیان کرتے ہوئے کہا: ’یہ الزامات یوں درست ہیں کہ میں خود ان واقعات کا ایک کردار تھا۔‘

یہ تحقیقی مضمون https://www.bbc.com/ پر شائع ہو چکا ہے۔

ڈاکٹر فاروق عادل

ڈاکٹر فاروق عادل

فاروق عادل صحافی ہیں یا ادیب؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا فیصلہ ابھی تک نہیں ہو سکا، ان کی صحافت میں ادب کی چاشنی ہے اور ادب میں تحقیق کی آمیزش جس کے سبب ان کی تحریر کا ذایقہ ذرا مختلف ہو گیا ہے۔ بعض احباب اسے اسلوب قرار دیتے ہیں لیکن "صاحب اسلوب"کا خیال ہے کہ وہ ابھی تک اپنی منزل کی تلاش میں ہیں۔

Next Post

ہمارا فیس بک پیج لائق کریں

ہمیں ٹوئیٹر ہر فالو کریں

ہمیں انسٹا گرام پر فالو کریں