عمومی خیال یہی تھا کہ پی ڈی ایم تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کر لے گی۔ ایسا نہ ہو سکا۔ تحریک عدم اعتماد لانے کی بات دراصل بلاول بھٹو زرداری کے ایک بیان سے شروع ہوئی تھی۔ اس بیان میں انھوں نے کہا تھا کہ پی ڈی ایم کے دوست ہماری بات پر آگئے ہیں۔ ایسا کہنے کا مطلب یہ تھا کہ پی ڈی ایم چونکہ تحریک عدم اعتماد پر آمادہ ہو چکی ہے،اس لیے ان کے ساتھ اعتماد کا رشتہ بحال ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
اسی بیان کی وجہ سے تحریک عدم اعتماد پر پی ڈی ایم کے فیصلے کا ایک طرح سے ماحول بن گیا۔ حقیقت اس سے مختلف تھی۔ مولانا فضل الرحمٰن نے دو ٹوک کہہ دیا کہ فی الحال اس کا وقت نہیں آیا۔
تحریک عدم اعتماد کے بارے میں یہ بھی دیکھئے:
سوال یہ ہے کہ پی ڈی ایم تاحال تحریک عدم اعتماد پر آمادہ دکھائی کیوں نہیں دیتی؟ جواب یہ ہے کہ اس طرح کے کسی اہم فیصلے پر پہنچنے سے پہلے جس قسم کے ماحول کی ضرورت ہوتی ہے، وہ ماحول ابھی پیدا نہیں ہوا۔
تحریک عدم اعتماد سے پہلے کس قسم کے ماحول کی ضرورت ہے؟ اصل سوال یہ ہے۔ اب تک روایت یہ رہی کہ کوئی حکومت اگر وقت سے پہلے ختم ہوتی ہے تو ایک امیدوار انتظار میں ہوتا تھا۔ انتظار میں تو اس وقت بھی کچھ نہ کچھ لوگ ہوں گے لیکن جن کو آنا ہے، وہ آنے کو تیار نہیں ہیں۔
یہ بھی دیکھئے:
چودہری پرویز الٰہی نے عمران خان کو کیا اہم پیغام دیے؟
چھبیس جنوری: آج پاکستان کے نامور سیاستدان ولی خان کی تاریخ وفات ہے
متبادل قیادت حکومت میں آنے کو کیوں تیار نہیں ہے؟ اس کا سبب یہ ہے کہ آئندہ انتخابات سے قبل ایک آئینی پیکج منظور ہونا ہے۔ آئینی پیکج کے تحت الیکشن کمیشن کے اختیارات میں اضافہ مقصود ہے۔ اس سلسلے میں کچھ ایسے انتظام کے بارے میں سوچا جا رہا ہے جن کی وجہ سے انتخابات میں مداخلت کاراستہ روکا جا سکے۔ اسی طرح نیب کے قوانین کی اصلاح بھی مقصود ہے۔ یہ اصلاح ضروری ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت نے حال ہی میں جو ترامیم کی ہیں، ان پر اعتراضات ہیں۔ ان ترامیم کا مقصد یہ تھا کہ موجودہ حکومت اپنے فیصلوں کے بوجھ سے بچ سکے۔ ایک معاملہ ایکسٹینشن کا بھی ہو سکتا ہے۔
متعلقہ فریقین کا کسی فیصلے پر نہ پہنچنا ہی ہے جس کی وجہ سے ڈیڈ لاک بڑھتا جا رہا ہے۔ یہی ڈیڈ لاک ہے جس کی وجہ سے حکومت کی کارکردگی مزید خراب ہو گئی ہے۔ خاص طور پر حکومت کی انتظامیہ پر گرفت کمزور ہو گئی ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کی نشان ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں بھی کی گئی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ فواد چودھری نے بھی اس حقیقت کی تصدیق کی ہے۔