عمران خان نے جو دھمکیاں دی تھیں، وہ نتیجہ خیز ثابت ہوئی ہیں۔ حکومت پر ان کی انتظامی گرفت ڈھیلی پڑ گئی ہے۔ اسپیکر پنجاب اسمبلی چودہری پرویز الٰہی نے انھیں اس سلسلے میں نیک و بد سے آگاہ کر دیا ہے۔
حکومت کی انتظامی مشینری پر عمران خان کی گرفت ڈھیلی ہونے کی بہت سی نشانیاں ہیں۔ یوں تو اس حکومت اور اس کے سربراہ نے اقتدار میں آتے ہی بیوروکریسی کے ساتھ جنگ شروع کر دی تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس جنگ کو کم ہوتے ہوتے ختم ہو جانا چاہئے تھا۔ ایسا نہ ہوسکا۔ یہ کشمکش وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی گئی۔
چودہری پرویز الٰہی کے پیغام کے بارے میں یہ بھی دیکھئے:
انتظامیہ پر حکومت کی گرفت کمزور ہونے کی دوسری نشانی اس حکومت کے فیصلوں میں اعتماد کی کمی تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کسی فیصلے کی عمر چند ہفتے رہی، کسی کی چند ماہ۔ یہ صورتحال بیوروکریسی کے تیزرفتار تبادلوں کا باعث بنی۔ یہی وجہ تھی کہ بیوروکریسی جم کر کام ہی نہ کر سکی۔
اس حکومت اور اس کے سربراہ کے یوٹرن تو ایک اساطیری سچائی کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔ یوٹرن پالیسی نے بھی ملک کی انتظامیہ کو جم کر کام نہیں کرنے دیا۔
تازہ واقعہ ٹیلی فون پر عوام سے عمران خان کی بات چیت ہے۔ یہی بات چیت تھی جس میں انھوں نے ریاست، ریاستی اداروں اور اپوزیشن کو دھمکیاں دیں۔ اپنی ان معروف دھمکیوں میں انھوں نے کہا تھا کہ اگر انھیں حکومت سے محروم کیا گیا تو وہ خطرناک ہو جائیں گے۔
یہ بھی پڑھئے:
شہزاد اکبر کے بعد کس کس کا استعفیٰ آنے والا ہے؟
عمران حکومت کے صحت کارڈ کی شرعی حیثیت مشکوک ہے
جماعت اسلامی کا دھرنا کراچی کے لیے
چودہری پرویز الٰہی نے عمران خان کی ان ہی دھمکیوں کا بین السطور ذکر کرتے ہوئے انھیں بتا دیا ہے کہ اپوزیشن کی طرح کے طرز کے بیان حکومت کی انتظامی گرفت کمزور کر دیتے ہیں۔
چودہری پرویز الٰہی نے عمران خان کو جو نصیحت کی ہے اور جس کام سے اجتناب کا مشورہ دیا ہے، دراصل وہ ہو چکا ہے۔ انھوں نے عمران کو اتحادیوں سے مشاورت کا مشورہ بھی دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کا وقت بھی گزر چکا ہے۔ اس لحاظ سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس حکومت کے ایک بڑے اتحادی نے عمران خان کو آنے والے دنوں کی صورت حال سے آگاہ کر دیا ہے۔ سیاست کی دنیا میں ایسا اکثر ہوتا آیا ہے۔ چودہریوں جیسے سمجھ دار سیاستدان اپنے اتحادیوں کو ایسے ہی طریقوں سے حقائق سے آگاہ کرتے ہیں تاکہ بعد میں انھیں کوئی گلہ نہ دے۔
یہ سب ہو گیا ہے تواب اگلا کام حزب اختلاف کا ہے۔ پی ڈی ایم یقیناً اس سلسلے میں جلد کسی نتیجے پر پہنچ جائے گی۔