Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
عمران خان کے مشیر احتساب شہزاد اکبر کے استعفے نے استاد قمر جلالوی کا ایک شعر یاد دلا دیا
اب نزع کا عالم ہے طاری تم اپنی محبت واپس لو
جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے بوجھ اتارا کرتے ہیں۔
شہزاد اکبر کے استعفے کو عمران خان کے عوام سے ٹیلی فون پر عوام سے گفتگو کی روشنی میں سمجھا جاسکتا ہے۔
عمران خان نے کہا ہے کہ اس دفتر تو میں دفتر میں بیٹھا تماشے دیکھ رہا ہوں۔ اگر مجھے اقتدار سے نکال باہر کیا گیا تو پھر کسی کو چین سے نہیں بیٹھنے دوں گا۔ یہ بات کہتے ہوئے ان کا لہجہ ویسا ہی زہریلا تھا جیسے حزب اختلاف کے دنوں میں ہوا کرتا تھا۔ اس کاایک مطلب تو یہی ہے کہ اپنے اقتدار کے تین ساڑھے تین برس گزرنے کے بعد اب وہ خود کو ایوان اقتدار میں اجنبی سمجھ رہے ہیں۔
شہزاد اکبر کے استعفے کے بارے میں یہ بھی دیکھئے:
متعلقہ حلقوں کو جب وہ یہ دھمکی دے رہے تھے، اس وقت ان کی ذہنی کیفیت کا جائزہ لیاجائے تو ان کے اس بیان کا سمجھنا آسان ہو جائے گا۔
اصل میں ایک خاتون نے ان سے مہنگائی کی شکایت کی تھی۔ سوال کرنے والے نے کہا تھا کہ اس صورتحال میں ہمارا اور ہمارے بچوں کا مستقبل کیا ہے۔ عمران خان نے اس سوال کا جواب دینے کے بجائے یہ دھمکی دے ڈالی۔ ان کی اسی کیفیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے بعض مبصرین نے کہا کہ ان کی لائیو گفتگو پر پابندی لگنی چاہئے۔ یہ بات اس لیے کہی گئی کہ وہ میں اپنے جذبات پر کنٹرول کرنے صلاحیت سے محروم ہیں۔ اسی طرح وہ اپنے الفاظ پر بھی قابو نہیں رکھتے۔ اس بار ان کی لائیو گفتگو پر پابندی کی تجویز اس حلقے کی طرف سے آئی ہے جس کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہی انھیں لانے والا ہے۔
عمران خان کی مایوسی کی اسی کیفیت کو شہزاد اکبر کے استعفے کی عملی شکل میں دیکھا جاسکتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
جب بھارت نے پنجاب کا 84 ہزار ایکڑ رقبہ پاکستان کے حوالے کیا
شرح ترقی میں اضافے کے حکومتی دعوے کے پیچھے چھپا فراڈ
شہزاد اکبر کے استعفے کا ایک تناظر اور بھی ہے۔ حال ہی میں بیگم سرینا عیسی نے چیئرمین نیب کو ایک خط لکھا ہے۔ اس خط میں انھوں نے نیب قوانین کی چند حالیہ ترامیم کی طرف ان کی توجہ مبذول کرائی ہے۔ یہ ترامیم موثر بہ ماضی ہیں۔ ان کے مطابق ان ترامیم کا مطلب ان کارروائیوں کے نتائج سے بچنا ہے جو سرینا عیسی اور ان کے خاندان کے خلاف کی گئیں۔ یہ کارروائیاں غیر قانونی تھیں۔ اسی لیے ان لوگوں کو قانون بدلنے کی ضرورت پڑی۔
سرینا عیسی کے خط کے بعد ان استعفوں کی توقع کی جارہی تھی۔ شہزاد اکبر کا استعفی بارش کا پہلا قطرہ ہے۔ اگلا استعفی وزیر قانون کا بھی ہو سکتا ہے۔ ان کے علاوہ چند دیگر لوگوں کا بھی۔
یہی صورت حال ہے جس سے عمران خان پریشان ہیں اور لوگ ڈوبتی ہوئی کشتی سے بھاگ رہے ہیں۔
عمران خان کے مشیر احتساب شہزاد اکبر کے استعفے نے استاد قمر جلالوی کا ایک شعر یاد دلا دیا
اب نزع کا عالم ہے طاری تم اپنی محبت واپس لو
جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے بوجھ اتارا کرتے ہیں۔
شہزاد اکبر کے استعفے کو عمران خان کے عوام سے ٹیلی فون پر عوام سے گفتگو کی روشنی میں سمجھا جاسکتا ہے۔
عمران خان نے کہا ہے کہ اس دفتر تو میں دفتر میں بیٹھا تماشے دیکھ رہا ہوں۔ اگر مجھے اقتدار سے نکال باہر کیا گیا تو پھر کسی کو چین سے نہیں بیٹھنے دوں گا۔ یہ بات کہتے ہوئے ان کا لہجہ ویسا ہی زہریلا تھا جیسے حزب اختلاف کے دنوں میں ہوا کرتا تھا۔ اس کاایک مطلب تو یہی ہے کہ اپنے اقتدار کے تین ساڑھے تین برس گزرنے کے بعد اب وہ خود کو ایوان اقتدار میں اجنبی سمجھ رہے ہیں۔
شہزاد اکبر کے استعفے کے بارے میں یہ بھی دیکھئے:
متعلقہ حلقوں کو جب وہ یہ دھمکی دے رہے تھے، اس وقت ان کی ذہنی کیفیت کا جائزہ لیاجائے تو ان کے اس بیان کا سمجھنا آسان ہو جائے گا۔
اصل میں ایک خاتون نے ان سے مہنگائی کی شکایت کی تھی۔ سوال کرنے والے نے کہا تھا کہ اس صورتحال میں ہمارا اور ہمارے بچوں کا مستقبل کیا ہے۔ عمران خان نے اس سوال کا جواب دینے کے بجائے یہ دھمکی دے ڈالی۔ ان کی اسی کیفیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے بعض مبصرین نے کہا کہ ان کی لائیو گفتگو پر پابندی لگنی چاہئے۔ یہ بات اس لیے کہی گئی کہ وہ میں اپنے جذبات پر کنٹرول کرنے صلاحیت سے محروم ہیں۔ اسی طرح وہ اپنے الفاظ پر بھی قابو نہیں رکھتے۔ اس بار ان کی لائیو گفتگو پر پابندی کی تجویز اس حلقے کی طرف سے آئی ہے جس کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہی انھیں لانے والا ہے۔
عمران خان کی مایوسی کی اسی کیفیت کو شہزاد اکبر کے استعفے کی عملی شکل میں دیکھا جاسکتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
جب بھارت نے پنجاب کا 84 ہزار ایکڑ رقبہ پاکستان کے حوالے کیا
شرح ترقی میں اضافے کے حکومتی دعوے کے پیچھے چھپا فراڈ
شہزاد اکبر کے استعفے کا ایک تناظر اور بھی ہے۔ حال ہی میں بیگم سرینا عیسی نے چیئرمین نیب کو ایک خط لکھا ہے۔ اس خط میں انھوں نے نیب قوانین کی چند حالیہ ترامیم کی طرف ان کی توجہ مبذول کرائی ہے۔ یہ ترامیم موثر بہ ماضی ہیں۔ ان کے مطابق ان ترامیم کا مطلب ان کارروائیوں کے نتائج سے بچنا ہے جو سرینا عیسی اور ان کے خاندان کے خلاف کی گئیں۔ یہ کارروائیاں غیر قانونی تھیں۔ اسی لیے ان لوگوں کو قانون بدلنے کی ضرورت پڑی۔
سرینا عیسی کے خط کے بعد ان استعفوں کی توقع کی جارہی تھی۔ شہزاد اکبر کا استعفی بارش کا پہلا قطرہ ہے۔ اگلا استعفی وزیر قانون کا بھی ہو سکتا ہے۔ ان کے علاوہ چند دیگر لوگوں کا بھی۔
یہی صورت حال ہے جس سے عمران خان پریشان ہیں اور لوگ ڈوبتی ہوئی کشتی سے بھاگ رہے ہیں۔