• تفریحات
    • شوبز
    • کھیل
    • کھانا پینا
    • سیاحت
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
    • صحت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
No Result
View All Result
10 °c
Islamabad
  • تفریحات
    • شوبز
    • کھیل
    • کھانا پینا
    • سیاحت
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
    • صحت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • تفریحات
    • شوبز
    • کھیل
    • کھانا پینا
    • سیاحت
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
    • صحت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
No Result
View All Result
آوازہ
No Result
View All Result
Home محشر خیال

سانحہ مری اور ڈی ایم جی

سانحہ مری کے حقیقی مجرم پرویز مشرف اور تنویر نقوی ہیں جنھوں نے ڈسٹرکٹ مینجمنٹ کا کوئی متبادل نظام بنائے بغیر پرانا نظام تباہ کر دیا

ڈاکٹر فاروق عادل by ڈاکٹر فاروق عادل
January 25, 2022
in محشر خیال
0
سانحہ مری
17
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on LinkedinShare on Whats app
ADVERTISEMENT
WhatsApp Image 2021-12-02 at 3.54.35 PM

سانحہ مری کے حقیقی مجرم پرویز مشرف اور تنویر نقوی ہیں جنھوں نے ڈسٹرکٹ مینجمنٹ کا کوئی متبادل نظام بنائے بغیر پرانا نظام تباہ کر دیا

ان دنوں نومبر میں بھی سردی ہوا کرتی تھی۔ ہم لوگ کپکپاتے ہوئے کالج پہنچے تو جسے دیکھا آڈیٹوریم کی طرف بھاگا چلا آتا تھا۔ کالج تقریبات کی روایت ہمیشہ یہی دیکھی کہ طلبہ جب پہنچ گئے ایک ایک کر اساتذہ بھی آنے لگتے لیکن اس روز ماحول مختلف تھا۔

اسٹیج اساتذہ سے بھرا ہوا تھا۔ پروفیسر ارشاد حسین نقوی، پروفیسر رانا اصغر علی،چوہدری عبدالحمید صاحب، پروفیسر ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب، ریاض شاد صاحب، کون اس محفل میں نہیں تھا۔ حاضرین کی بڑھتی تعداد آڈیٹوریم کے کناروں سے بہنے لگی تو ایسا یاد پڑتا ہے کہ نقوی صاحب روسٹرم پر آئے لیکن بات نہ کرسکتے۔ لہجے کی گلو گیری بڑھتی گئی اور وہ آنسو پونچھتے ہوئے واپس پلٹ گئے۔ کچھ ایسا ہی تجربہ دیگر اساتذہ کا بھی تھا ع

بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی

یہ بھی دیکھئے:

وہ ایک ایسا احتجاجی جلسہ تھا جس میں کوئی تقریر نہ کر سکا لیکن یہ معلوم ہو گیا کہ اہل اسلام کی سجدہ گاہ پر قبضہ ہو چکا۔ بس، جذبات کا دھارا پھوٹ بہا اور طلبہ کا ریلا ابل کر سڑک پر نکل آیا۔ سڑکیں انسانوں کا سمندر بن گئیں۔اتنے بڑے ہجوم کا ہدف اس روز کیا رہا ہو گا؟ کوئی نہیں جانتا۔وہ اسلام آباد نہیں تھا، ورنہ ہدف آسان تھا۔ امریکی سفارت خانے پہنچو اوروہ کر ڈالو جس سے کلیجے میں ٹھنڈ پڑ جائے۔ مگر وہ سرگودھا تھا۔ نہ وہاں امریکی سفارت خانہ، نہ کلچرل سینٹر۔ لے دے کر ڈسٹرکٹ کورٹس تھی، ریلوے اسٹیشن یا چند دیگر سرکاری عمارتیں۔ خدشہ یہی تھا کہ غیض و غصب کا شکار ہجوم کہیں ان ہی پر نہ چڑھ دوڑے۔

مشتعل ہجوموں سے نمٹنے کے سلسلے میں جتنا اہتمام موجودہ زمانے میں ہوتا ہے، اس زمانے میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ بڑی سے بڑی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے ایک مجسٹریٹ یا اسسٹنٹ کمشنر ہی کافی ہوتا تھا۔ سرگودھا کے اس ہجوم کو بھی فاروق سید نام کا ایک اسسٹنٹ کمشنر ٹیکل کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ اس کے مقابلے میں فیض آباد کے پل پر اکٹھا ہونے والا ہجوم نہ زیادہ بڑا تھا اور اس کے جذبات اتنے مشتعل تھے کہ کوئی اسسٹنٹ کمشنر اسے منتشر نہ کر پاتا لیکن المیہ یہ تھا کہ یہ 2002 کے بعد کی بات تھی۔ یعنی بیوروکریسی کی اصلاحات کے بعد کی جن کی وجہ سے پاکستان کے ڈسٹرکٹ مینجمنٹ نظام کی کمر ٹوٹ گئی اور وہ کسی قسم کی ہنگامی صورت حال پر قابو پانے کی صلاحیت کھو بیٹھا۔

یہ بھی پڑھئے:

شرح ترقی میں اضافے کے حکومتی دعوے کے پیچھے چھپا فراڈ

چوبیس جنوری | ممتاز اداکارہ غزالہ رفیق کی آج برسی ہے

صدارتی نظام اور طالبان

WhatsApp Image 2021-12-02 at 3.54.35 PM

یہ صرف جلسے جلوس کی بات نہیں ہے۔ سانحہ مری جیسے حادثات سے نمٹنا بھی دو ہزار دو سے پہلے کی ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا۔ بدقسمتی سے یہ دو ہزار دو سے پہلے کا زمانہ نہیں تھا ورنہ اتنی تباہی کبھی نہ ہوتی۔ مری کاسانحہ اتنا بڑا کیوں ہو گیا؟ ا س کی تین چار بنیادی وجوہات ہیں۔یہ وجوہات کیا ہیں، انھیں پس منظر جانے بغیر نہیں سمجھا جاسکتا لہٰذاسانحی مری کی مثال سے اسے سمجھنا آسان ہوگا۔

سانحہ مری کی بنیادی ذمے داری ڈی سی او اور ڈی پی او اور ان کے عملے پر عاید ہوتی ہے۔ یہ لوگ بروقت متحرک نہ ہو سکے۔ یہ دو مناصب متحرک ہو جاتے تو مری صرف اتنے ہی لوگ آتے جتنے آنے چاہیے تھے۔ یوں کسی حادثے کا امکان ٹل جاتا۔ یہ لوگ کیوں متحرک نہ ہو سکے، اس کی وجہ مشرف کی تباہ کن اصلاحات ہیں۔ ان نام نہاد اصلاحات سے قبل ڈی سی ضلعے کا انتظامی سربراہ ہوتا تھا اور تمام محکمے اس کا حکم بجا لاتے تھے۔ دو ہزار دو کی اصلاحات کے بعد اب اس کی یہ حیثیت ختم ہو چکی ہے۔

لہٰذا کسی بھی ضروری موقع پر متعلقہ ادارے متحرک نہیں ہو پاتے۔ اس کی ایک مثال مری میں پھنسنے والے مسافر شہزاد کی گواہی سے ملتی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ اس خونی رات  برف ہٹانے والے محکمے کی گاڑیاں اس کے دفتر میں کھڑی تھیں۔ جو گاڑیاں متاثرہ مقامات پر موجود تھیں، ان میں تربیت یافتہ عملہ نہیں تھا۔ ان کے مطابق ان لوگوں کو اپنے کام میں کوئی دلچسپی بھی نہ تھی۔ وہ بتاتے ہیں کہ صبح جب شفٹ تبدیل ہوئی اور تربیت یافتہ عملہ آ پہنچا تو صورت حال بدل گئی۔ اگر جنرل مشرف سے پہلے کا ڈسٹرکٹ مینجمنٹ نظام برقرار ہوتا تو اس کوتاہی کا سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔

سانحہ مری کے دوسرے پہلو کا تعلق ہوٹل کے کاروبار سے ہے۔ شکایات سامنے آئی ہیں کہ ہوٹل والوں نے سیاحوں کو لوٹا۔ دو چار ہزار روپے روزانہ والے کمرے بیس پچیس ہزار روپے سے پچاس ہزار روپے پر کرائے پر دیے گئے۔ بوائلڈ انڈہ اور گرم پانی کا گلاس پانچ سو روپے سے ہزار روپے میں فروخت ہوا۔یہ سب کیوں ہوا؟

اس لالچ اور بے حسی کا پہلو ضرور ہے لیکن زیادہ اہم پہلو انتظامی ہے۔ ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ کے لیے جنرل مشرف کی اصلاحات سے قبل سی آر پی سی کے تحت مجسٹریٹ ایسے معاملات سنبھال لیا کرتے تھے۔ ان اصلاحات کے بعد یہ اختیار سول جج کے پاس چلا گیا۔ سول جج فیلڈ افسر نہیں ہے لہٰذا اسے کچھ خبر نہیں ہوتی کہ بازار میں کیا ہو رہا ہے۔ مری میں ہوٹل کے کاروبار کے بے لگام ہونے کی اصل وجہ یہ ہے۔

اللہ جانے حکومت کی تحقیقاتی کمیٹی کیا فیصلہ دے گی لیکن حقیقت یہی ہے کہ سانحہ مری کے حقیقی مجرم پرویز مشرف اور تنویر نقوی ہیں جنھوں نے ڈسٹرکٹ مینجمنٹ کا کوئی متبادل نظام بنائے بغیر پرانا نظام تباہ کر دیا۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب ڈسٹرکٹ مینجمنٹ نہ مری جیسے حادثات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور نہ دنگے فساد پر قابو پانا اس کے بس میں رہ گیا ہے۔ فیصلہ سازوں میں سے اگر کسی کو اس ملک اور اس ملک کی سلامتی سے دلچسپی ہے تو وہ دو ہزار دو میں کی گئی اس پہاڑ جیسی غلطی کے ازالے کی کوشش کرے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو اس ملک کی انتظامیہ میں قدرتی آفات سے نمٹنے کی صلاحیت پیدا ہوگی اور نہ قانون شکنوں سے۔ یہ بات لکھ کر رکھ لیں۔

Tags: آوازہتنویر نقویڈی ایم جیسانحہ مریفاروق عادلہرویز مشرف
Previous Post

شرح ترقی میں اضافے کے حکومتی دعوے کے پیچھے چھپا فراڈ

Next Post

جب بھارت نے پنجاب کا 84 ہزار ایکڑ رقبہ پاکستان کے حوالے کیا

ڈاکٹر فاروق عادل

ڈاکٹر فاروق عادل

فاروق عادل صحافی ہیں یا ادیب؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا فیصلہ ابھی تک نہیں ہو سکا، ان کی صحافت میں ادب کی چاشنی ہے اور ادب میں تحقیق کی آمیزش جس کے سبب ان کی تحریر کا ذایقہ ذرا مختلف ہو گیا ہے۔ بعض احباب اسے اسلوب قرار دیتے ہیں لیکن "صاحب اسلوب"کا خیال ہے کہ وہ ابھی تک اپنی منزل کی تلاش میں ہیں۔

Next Post
پنجاب

جب بھارت نے پنجاب کا 84 ہزار ایکڑ رقبہ پاکستان کے حوالے کیا

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

محشر خیال

توہین مسجد نبوی
محشر خیال

توہین مسجد نبوی اور شخصیت پرستی کے مرض سے اٹھنے والے کے فتنے

مریم نواز
محشر خیال

مریم نواز کہاں ہیں؟

عمران خان
محشر خیال

عمران خان کا سیاسی مستقبل

حمزہ شہباز
فاروق عادل کے خاکے

حمزہ شہباز: سیاست میں اپنے تایا کے ہونہار شاگرد

تبادلہ خیال

عمران خان عدم استحکام کیوں چاہتے ہیں؟
تبادلہ خیال

عمران خان عدم استحکام کیوں چاہتے ہیں؟

یوم مئی
تبادلہ خیال

یوم مئی: یوم مزدور، اس روز آخر ہوا کیا تھا؟

عمران خان
تبادلہ خیال

عمران خان کا مزاج اور وطن دشمنی کا جنون

کپتان
تبادلہ خیال

جھوٹے کپتان کی سچی کہانی

ہمارا فیس بک پیج لائق کریں

ہمیں ٹوئیٹر ہر فالو کریں

ہمیں انسٹا گرام پر فالو کریں

Contact Us

    Categories

    • Aawaza
    • Ads
    • آج کی شخصیت
    • اہم خبریں
    • پاکستان
    • تاریخ
    • تبادلہ خیال
    • تصوف , روحانیت
    • تصویر وطن
    • تفریحات
    • ٹیکنالوجی
    • حرف و حکایت
    • خامہ و خیال
    • خطاطی
    • زراعت
    • زندگی
    • سیاحت
    • شوبز
    • صحت
    • صراط مستقیم
    • عالم تمام
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
    • فکر و خیال
    • کتاب اور صاحب کتاب
    • کھابے، کھاجے
    • کھانا پینا
    • کھیل
    • کھیل
    • کیمرے کی آنکھ سے
    • لٹریچر
    • ماہ صیام
    • محشر خیال
    • مخزن ادب
    • مصوری
    • معیشت
    • مو قلم
    • ورثہ

    About Us

    اطلاعات کی فراوانی کے عہد میں خبر نے زندگی کو زیر کر لیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روح ضعیف ہو گئی اور جسم و جاں یعنی مادیت کا پلہ بھاری ہو گیا "آوازہ" ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو خبر کے ساتھ نظر کو بھی اہمیت دے گا۔ اس پلیٹ فارم پر سیاست اور واقعات عالم بھرپور تجزیے کے ساتھ زیر بحث آئیں گے لیکن اس کے ساتھ ہی روح کی غذا یعنی ادب و ثقافت اور روحانیت سمیت بہت سے دیگر لطیف موضوعات بھی پڑھنے اور دیکھنے والوں کو لطف دیں گے۔
    • Privacy Policy
    • Urdu news – aawaza
    • ہم سے رابطہ
    • ہمارے بارے میں

    © 2020 Aawaza - Design by Dtek Solutions.

    No Result
    View All Result
    • تفریحات
      • شوبز
      • کھیل
      • کھانا پینا
      • سیاحت
    • مخزن ادب
      • مخزن ادب
      • کتاب اور صاحب کتاب
    • زندگی
      • زندگی
      • تصوف , روحانیت
      • صحت
    • معیشت
      • معیشت
      • زراعت
      • ٹیکنالوجی
    • فکر و خیال
      • فکر و خیال
      • تاریخ
      • لٹریچر
    • محشر خیال
      • محشر خیال
      • تبادلہ خیال
      • فاروق عادل کے خاکے
      • فاروق عادل کے سفر نامے
    • اہم خبریں
      • تصویر وطن
      • عالم تمام
    • یو ٹیوب چینل
    • صفحہ اوّل

    © 2020 Aawaza - Design by Dtek Solutions.