مولانا ہدایت الرحمن کون ہیں، کیا ہیں؟ یہ سوالات اب کچھ بے وقت ہو چکے ہیں۔ لوگ اصل میں کچھ اور جاننا چاہتے ہیں۔
ہمارے ایک پرنسپل تھے، پروفیسر فضل احمد۔ ہمیشہ سوٹ پہنتے، ایک منٹ پہلے نہ ایک منٹ بعد، ٹھیک نو بجے دفتر میں داخل ہو جاتے۔ نشست پر بیٹھ کر پہلے آنکھیں بند کر کے پشت سے ٹیک لگاتے پھر آگے بڑھ کر قلم اٹھاتے اور ڈاک نمٹانا شروع کر دیتے۔ ان کے دفتر میں ڈاک رکی کبھی دیکھی نہیں گئی۔ مگر وہ دن مختلف تھا۔ غفور صاحب ان کے نائب قاصد تھے۔ نسبتا ًگول قراقلی ٹوپی پہنتے اور مسکراتے رہتے۔ مجھے دیکھتے تو میرے نام میں تھوڑی ترمیم کرتے اور سر اوپر اٹھا کر جھکاتے ہوئے کہتے: ‘آ دل’۔ اس بار مسکراہٹ کی باری میری ہوتی۔ اُس روز بھی پرنسپل صاحب ٹھیک وقت پر اپنے دفتر میں داخل ہوئے۔ تھوڑی دیر کے بعد غفور صاحب مجھے ڈھونڈتے ہوئے آ پہنچے۔ اپنی عادت کے مطابق مجھے مخاطب کیا: ‘ آ دل، چل مل’۔سردی کے باوجود پسینے چھوٹ گئے کہ جانے کیا خطا ہوئی کہ پرنسپل صاحب نے یاد فرمایا ہے۔
سانحہ مری کے بارے میں یہ دیکھئے:
کچھ ایسے یاد پڑتا ہے کہ کالج میں ان دنوں کوئی مسئلہ چل رہا تھا۔ میں نے آؤ دیکھا نہ تا، ایک بڑے کاغذ پر مارکر سے چند سطریں گھیسٹیں اور نوٹس بورڈ پر لگا دیا۔ اس زمانے کی روایت کے مطابق ‘ مے آئی کم ان سر؟’ کہہ کر میں ان کے دفتر میں داخل ہوا تو دیکھا کہ وہ پوسٹر ان کی میز پر رکھا ہے اور وہ اسے گھورے جاتے ہیں۔ میں اُن کے سامنے جا کھڑا ہوا تو نگاہ اٹھا کر انھوں نے میری طرف دیکھا اور بے پناہ سنجیدگی کے ساتھ کہا کہ کیا تم ایجی ٹیٹر ہو؟’نہیں سر’میری تردید پر مسکراہٹ ان کے چہرے پر پھیلی گئی اور انھوں نے پوسٹر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ پھر یہ کیا ہے؟
جانے کیاسبب ہے کہ زمانہ گزر جاتا ہے تو اس کی خوبیاں یاد آتی ہیں۔نیزان خوبیوں کے پردے میں چھپے ہوئے کچھ سبق بھی۔ وہ کہنے لگے کہ اپنے حق یا کسی اچھے مقصد کے لیے ایجی ٹیشن کرنا کوئی بری بات نہیں۔ بس، یہ ذہن میں رہے کہ جب تم ایسا کرو، تمھارے ساتھ بھی کوئی ہو۔ میں حیرت سے ان کی طرف دیکھتا رہا۔ انھوں نے اپنی بات جاری رکھی اور کہا:’ ساتھ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جیسے میں نے ابھی تمھیں بلایا ہے، تم آتے مگر تمھارے پیچھے پیچھے تمھارے بہت سے ساتھی بھی آتے’۔یہ بھولی بسری بات آج اتنا زمانہ بیت جانے کے بعد کیوں یاد آئی۔ اس کا ایک سبب تو شاہد شمسی بنے۔ شمسی صاحب دلی والے ہیں۔ پاکستان بنا تو ان کے بزرگ دلی سے اٹھے اور ڈھاکا جا بسے۔ وہاں پاکستان سے محبت کرنے والوں کے لیے زمین تنگ ہوئی تو کراچی آ بسے۔ کراچی میں بھی ان کے ساتھ ڈھاکا سے مختلف سلوک نہیں ہوا۔لہٰذا اب وہ اسلام آباد میں ہوتے ہیں اور وہی کچھ کرتے ہیں جو ڈھاکا میں کیا کرتے تھے۔ بس،اس شام انھوں نے پہلے واٹس ایپ پر مجھے ایک پیغام بھیجا پھر اپنی عادت کے مطابق متوجہ کرنے کے لیے مس کال دی۔’ لکھا تھا کہ گوادر والے مولانا سے ملنا چاہتے ہو تو چلے آؤ’۔میں بھاگم بھاگ پہنچا لیکن وہاں تو ایک ہجوم جمع تھا۔ میاں منیراحمد بڑے سلیقے کے آدمی ہیں۔ کوئی نہ کوئی ایسی تدبیر کرتے ہیں کہ مشکلات میں بھی آسانی پیدا ہو جاتی ہے۔ انھوں نے اس ہجوم میں بھی ملاقات کی صورت نکال لی۔ قورمے اور نان سے سجی میز پر مولانا سے مناسب گپ شپ ہو گئی۔
یہ بھی پڑھئے:
مری والوں کو برا بھلا کہنا اب بند کریں
نو جنوری: آج پاکستان کے نامور طبیب حکیم محمد سعید کا یوم ولادت ہے
سانحہ مری: بے دلی کا کیا یوں ہی دن گزر جائیں گے
مولانا ہدایت الرحمن کون ہیں، کیا ہیں؟ یہ سوالات اب کچھ بے وقت ہو چکے ہیں۔ لوگ اصل میں کچھ اور جاننا چاہتے ہیں۔بلوچستان کا ساحل مکران ہو یا اس صوبے کا کوئی اور حصہ۔ اس کے بارے میں ہم صرف اتنا ہی جانتے ہیں کہ یہاں بلوچ قوم پرستی کی جڑیں نہایت گہری ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے یہ قوم پرست اپنی شناخت سیکیولرازم کے ساتھ وابستہ کرتے ہیں یا پھر بائیں بازو کے ساتھ۔ یہی سبب ہے کہ اپنا وجود رکھنے کے باوجود جماعت اسلامی کے یہاں زیادہ اثرات دکھائی نہیں دیتے۔ لے دے کے ایک مولانا عبد الحق بلوچ تھے جو قومی اسمبلی تک پہنچے لیکن یہ پرانی بات ہے۔ اس کے بعد یوں کہیے کہ چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ قوم پرستی کے اس قلعے میں جمیعت علمائے اسلام کا دم غنیمت ہے،صوبے کے پشتون علاقوں میں جس کی گرفت برقرار ہے۔اس پس منظر میں گوادر جیسے مقام پر مولانا ہدایت الرحمن جیسی شخصیت کا ابھرنا غیر معمولی ہے۔
حالات کے جبر تحت شخصیات کے ابھرنے اور ڈوبنے میں بھی اچنبھے کی کوئی بات نہیں۔ اصل بات ہے، مقبولیت پیدا کرنا اور وہ بھی جان دینے والے پیروکاروں کے ساتھ۔ مولانا ہدایت الرحمن نے یہی کیا ہے۔ اچانک ابھر کر پورے ملک کو حیران کر دینے والی اس شخصیت سے گفتگو یقینا اہمیت رکھتی ہے۔ دیگر احباب کے علاوہ مجھے بھی ان سے گفتگو کا اشتیاق تھا لیکن کسی گرما گرم خبر یا آنے والے دنوں ان کی کسی مہم جوئی کے بارے میں جاننے سے زیادہ میری دلچسپی مختلف تھی۔ میں یہ جاننا چاہتا تھا کہ آخر اس شخصیت میں ایسا کیا سحر ہے جو جوق در جوق لوگ اس کے پیچھے چلے آتے ہیں؟ مولانا دھان پان سے نہایت سادہ انسان ہیں۔ ان کی گفتگو میں ان کی علمی شخصیت سے زیادہ عوامیت جھلکتی ہے۔ ہمارے دوست طاہر خان نے مائیک آگے کر کے جب ان سے کوئی سوال پوچھا تو مولانا پاکستانی ذرائع ابلاغ سے اپنی شکایت چھپا نہ سکے۔ ہمارے ہاں سیاست دانوں کی میڈیا سے شکایات کی روایت پرانی ہے۔ اس کے اظہار کے موقع پر لوگوں کی تلخی چھپائے نہیں چھپتی۔ شکوہ مولانا ہدایت الرحمن نے بھی کیا لیکن مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ اس شکوے میں طنز کی ہلکی سی کاٹ اور مزاح کی شیرینی تھی۔ گوادر میں جن دنوں مولانا دھرنا دیے بیٹھے تھے، ان ہی دنوں بھارت میںکترینہ کیف کی شادی کے ہنگامے بپا تھے۔ سوال سن کر اُن کی آنکھوں میں شرارت چمکی اور کہا کہ ہمارے دھرنے کے دنوں میں تو کترینہ باجی آپ کے ٹیلی ویژن پر چھائی ہوئی تھیں۔ آپ لوگوں کے ذوق کی خبر ہوتی تو ہم اس بی بی کو بھی دھرنے میں ہی مدعو کر لیتے۔پاکستانی ذرائع ابلاغ کے مزاج کے بارے میں ان کے اس بلیغ تبصرے کے بعد کچھ مزید کہنے کی حاجت نہ تھی۔ اس لیے میں نے انھیں ٹٹولا اور ان کی شخصیت کو سمجھنے کی کوشش کی۔
دھرنے کے دنوں میں گوادر کی مائی زینی خبروں میں بہت رہی تھیں۔ یہ واقعہ کیسے ہو گیا کہ انھوں نے بستر سر پر اٹھایا اور شدید سردی میں ہانپتی کانپتی دھرنے میں آپہنچیں؟ معلوم ہوا کہ گوادر والوں کی طرح وہ بھی ماہی گیر ہیں لیکن انھیں روز گار سے محروم کرنے کے لیے کچھ طاقت ور لوگوں نے گڑھے کھود رکھے تھے۔ مولانا کو خبر ہوئی تو وہ سیدھے وہاں پہنچے اور للکار کر کہا کہ یہ گڑھے پُر ہو جائیں ورنہ ہم ہوں گے تم ہوگے اور رقص میں سارا جنگل ہو گا۔ گڑھے بھر گئے اور رکاوٹیں ڈالنے والے پیچھے ہٹ گئے۔ مولانا کی ذات سے متعلق گوادر میں ایسے ایک دو واقعات نہیں۔ سیکڑوں واقعات لوگوں کی زبانوں پر ہیں۔ کسی لاپتہ نوجوان کو بازیاب کرانے کو نکل کھڑے ہوئے یا بیمار کے دوا دارو میں مصروف دکھائی دیے۔ بس، کچھ اسی قسم کی سرگرمیاں ہیں جنھوں نے اس سادہ سے انسان کو محبوبِ خلایق بنا دیاہے۔اب وہ نعرہ لگاتے ہیں تو میری طرح تنہا نہیں ہوتے، ان کے پیچھے خلق خدا اژدہام کرتی ہے۔
گوادر کے تجربے نے مولانا ہدایت الرحمٰن کو بہت حوصلہ دیا ہے۔ اب وہ پندرہ بیس، پچاس ہزار کی بات نہیں کرتے، دس لاکھ کے جلوس کی بات کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ معاہدے کی خلاف ورزی شروع ہوگئی ہے۔ ہم نے انھیں وارننگ دے دی ہے۔ بات ان کی سمجھ میں نہ آئی تو پھر پورے ایک ملین لوگوں کے ساتھ کوئٹہ پہنچیں گے۔ یہاں بھی بات نہ بنی تو اسلام آباد کا رخ کریں گے اور مقاصد کے حصول تک سڑکوں پر رہیں گے۔
گوادربلوچستان کل تک کچھ اور تھا۔ وہاں سے ابھرنے والی زبان پر گرفت کرنا آسان تھا اور اس پر قدغن لگانا بھی۔مولانا ہدایت ایک مختلف بلوچستان کا چہرہ ہیں۔ ان کی لڑائی بہت طاقت ور لوگوں سے ہے ۔ یہ درست ہے لیکن پاکستان کی بات کرنے والوں کے ساتھ پرانے طریقوں سے نمٹنے کی تمنا غلط اور خطرناک ہوگی۔ یہ پیغام بلوچستان کے طاقت ور لوگوں کے لیے بھی ہے، اُن سے زیادہ طاقت وروں کے لیے بھی اور خود جماعت اسلامی کے لیے بھی۔ شمسی صاحب کہہ رہے تھے کہ وہ بہت جلد بدلا ہوا گوادر ہمیں دکھانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اگر یہ گوادر ہم دیکھ پائے تو معلوم ہوگا کہ اس تبدیلی کی جڑیں کتنی گہری ہیں۔