خیبر پختونخوا مین جے یو آئی کی فتح کا مطلب کیا ہے۔ یہ نتائج کن تبدیلیوں کی راہ ہموار کریں گے۔ ملک کا داخلی اور خارجی منظر نامہ کیا بن رہا ہے؟ پڑھئے اس تجزیے میں
کیا ملک ایک بار پھر تبدیلی کے دہانے پر جا پہنچا ہے؟ بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں عوام کا موڈ سامنے آنے کے بعد یہ سوال از خود اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ بلدیاتی انتخابات سے جو رجحان سامنے آیا ہے، کیا یہ صرف ملک کے داخلی منظر نامے کو متاثر کرے گا؟ بدلتے ہوئے منظر نامے کو سمجھنے کے لیے ایک بنیادی سوال تو یہی ہے۔ لیکن اس کا ایک پہلو نسبتاً مختلف ہے۔ سیاست جب کروٹ لیتی ہے تو اس کے پس پشت بالعموم خارجی عوامل بھی ہوتے ہیں۔ پاکستان کو تو تبدیلیوں کے اس پہلو کا تجربہ خاصا پرانا ہے۔
خیر، بات نکلی ہے تو دور تک جائے گی۔ ایسی باتوں کو ہمارے یہاں سازشی تھیوری کا نام دے کر بالعموم نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ اس پیش رفت کے داخلی پہلو پر توجہ دی جائے۔
یہ بھی پڑھئے:
دھندلاتی دیہی تہذیب کی آخری نشانی سے ملاقات
مولانا محمد یوسف اصلاحی: آداب زندگی سکھانے والا رخصت ہوا
وقت بے وقت رابطے میں نہ آنے والے
مولانا فضل الرحمٰن اور آصف علی زرداری کا نقطہ نظر
خیبرپختونخوا میں جے یو آئی کی فتح کو ماضی قریب کے پس منظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ خود مولانا فضل الرحمٰن نے بھی اسی جانب اشارہ کیا ہے۔ انھوں نے اپنی جماعت کی حالیہ کامیابی کو 2018ء کی ناکامی سے منسلک کیا۔ انھوں نے اپنی گفتگو سے یہ حقیقت اجاگر کرنے کی کوشش کی کہ زمینی حقائق پہلے بھی یہی تھے۔ بس، پس پردہ بازی گری کے ذریعے انھیں بدل دیا گیا تھا۔ حالیہ انتخابی نتائج کے سامنے آنے پر انھوں یہ کہنا مناسب سمجھا کہ اب ہمارا راستہ نہ روکا جائے۔ مولانا فضل الرحمٰن کا یہ بیان صرف ان کے سیاسی اعتماد اور فتح مندی کا مظہر نہیں ہے۔ مستقبل قریب کے سیاسی منظرنامے کا ایک نقشہ بھی پیش کرتا ہے۔
صدر آصف علی زرداری نے بھی نئے حلات کی مناسبت سے زبان کھولی ہے۔ ان کے سامنے آنے سے بھی جے یو آئی کی فتح کو ایک نیا تناظر ملا ہے۔ انھوں نے نت نئے سیاسی فارمولوں کی آزمائش کو ناپسندیدہ قرار دیا۔ انھوں نے تجویز کیا کہ یہ روش اب ترک کر دینی چاہئے۔ ان کے بیان کا دوسرا اہم نکتہ اس سے بھی اہم تھا۔ انھوں نے کہا کہ اگر آپ ہماری مدد چاہتے ہیں تو پھر ضروری ہے کہ موجودہ نظام کو رخصت کر دیا جائے۔
خیال کے گھوڑے اور تن آسان تجزیہ
مولانا فضل الرحمٰن اور آصف علی زرداری کے یہ بیانات آگے پیچھے آئے۔ شاید یہی سبب رہا ہو گا کہ سیاست سے دلچسپی رکھنے والوں نے انھیں ملا کر پڑھا۔ صرف پڑھا نہیں بلکہ نتائخ اخذ کرنے کی کوشش بھی کی۔ اس نوعیت کے بیانات فوری طور پر بھی کچھ تاثر پیدا کرتے ہیں۔ اس سے ایک فوری تاثر یہی بنا ہے کہ مستقبل کے سیاسی منظر نامے پر ہم جلد یا بدیر مولانا فضل الرحمٰن اور آصف علی زرداری کو یکجا دیکھ سکتے ہیں۔
ان دنوں اکثر قیاس آرائی کی جاتی ہے۔ بعض نیوز میکر ایسی بھی خبریں دیتے ہیں کہ لندن میں میاں نواز شریف سے روابط کا سلسلہ جاری ہے۔ آصف علی زرداری کے بیان سے یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ روابط کا یہ سلسلہ ان کی ذات تک بھی توسیع پا چکا ہے۔ حقیقت کیا ہے؟ کبھی کھلے یا نہ کھلے، کیا کہا جا سکتا ہے۔ البتہ تن آسان تجزیہ نگاری کو خیال کے گھوڑے دوڑانے کا ایک راستہ ضرور مل گیا ہے۔
جنرل مرزا اسلم بیگ کی پیشین گوئی
چند ماہ قبل کرنل اشفاق حسین نے سیاست کے ٹھہرے ہوئے پانی میں پتھر پھینکا تھا۔ یہ پتھر ان کی تازہ کتاب تھی جو جنرل مرزا اسلم بیگ کی یاداشتوں پر مشتمل ہے۔ انھوں نے اس کتاب میں مستقبل کے بارے میں تجزیے اور پیشین گوئیاں بھی کی ہیں۔ اس کتاب کا نام بھی بڑا معنی خیز ہے۔ اقتدار کی مجبوریاں۔ آنے والے دنوں میں یہ مجبوریاں کیا رنگ لائیں گی؟ جرنل صاحب نے اس بارے میں بھی اظہار خیال کیا ہے۔ ان کے تجزیے کی پہلی بنیاد دلچسپ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ قومی سیاسی استحکام کے لیے ضروری ہے کہ دینی قوتوں کو اقتدار میں نمائندگی دی جائے۔ یہ تجویز پیش کرنے کے بعد انھوں نے ایک پیشین گوئی کی ہے۔ وہ کہتے ہیںکہ وہ مستقل قریب میں مولانا فضل الرحمٰن کو ایسا کردار ادا کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔
گوادر کا دھرنا اور تحریک لبیک
جنرل مرزا اسلم بیگ کی تجویز اور پیشین گوئی کو ذہن میں رکھئے۔ اور تازہ سیاسی منظر نامے کے ساتھ ملک کے مختلف حصوں میں رونما ہونے والے چند دیگر واقعات کو ملا کر دیکھئے۔ خیبرپختونخوا میں جے یوئی آئی کی فتح سے متصل قبل گوادر میں مولانا ہدایت الرحمٰن کی زیر قیادت ایک غیر معمولی واقعہ رونما ہوا۔ مولانا چند روز پہلے تک ایک غیر معروف شخصیت ضرور تھے۔ لیکن جماعت اسلامی کے ساتھ ان کی وابستگی کو ذہن میں رکھا جائے تو ان کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے۔
گوادر کے واقعے سے قبل پنجاب اور کراچی وغیرہ میں تحریک لبیک مختلف طریقوں سے اپنی اہمیت تسلیم کرا چکی ہے۔ فیصلہ سازوں تک کسی قدر رسائی رکھنے والے لوگ خبر دیتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں ایم ایم اے کی طرز کا کوئی اور انتظام وجود میں آ جائے تو اس پر حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ ایسا کوئی نظام بنتا ہے تو پھر گجرات کے چوہدری بھی اپنے موجودہ کردار سے آگے بڑھتے ہوئے دکھائی دے سکتے ہیں۔
خطے میں تبدیلیوں کے تناظر میں پاکستان
یہ سارے مظاہرِ و امکانات قطعی داخلی ہیں۔ خطے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو اگر ان کے ساتھ ملا کر دیکھیں تو تصویر مکمل ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ افغانستان میں طالبان اچکے ہیں۔ ان کی غیر معمولی فتوحات کے راستے میں کسی رکاوٹ کا نہ ہونا کچھ کم تعجب خیز نہیں تھا۔ اب او آئی سی کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کے ذریعے انھیں تسلیم کرانے کی ایک زیریں تحریک شروع ہو چکی ہے۔ کتنی دلچسپ بات ہے کہ اس تحریک میں امریکا بھی شریک ہے۔ نہیں بھولنا چاہیے کہ او آئی سی کے اسلام آباد اجلاس میں شریک امریکی نمائندے نے طالبان کے نائب وزیر خارجہ سے ملاقات کی۔ اس موقع پر انھوں نے یہ کہنا بھی مناسب جانا کہ امریکا طالبان سے اپنے روابط بڑھانا چاہتا ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن سے توقع
ان واقعات میں ہمارے ‘ سب سے معتبر تجزیات’ والے اینکر کے سوالات کو ذہن میں رکھیں تو تصویر کچھ اور واضح ہوتی ہے۔ گوادر میں دھرنے کے موقع پر انھوں نے کہا تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ چین سے متعلق منصوبوں کی افادیت اور موزونیت کو ایک بار پھر پرکھا جائے۔ الجھے ہوئے اس کھیل میں اگر کسی سے امید وابستہ کی جا سکتی ہے تو صرف مولانا فضل الرحمٰن کی ذات سے۔ ان سے زیادہ اور کون جانتا ہو گا کہ پس پردہ کیا ہو رہا ہے۔ ان کی دانش مندی یہ توقع بھی کی جاسکتی ہے کہ وہ کچھ ایسا ضرور کریں گے جس سے ملک کے مفادات پر کوئی ضرب نہ پڑے۔