کراچی کے نسلہ ٹاور کا انہدام بالآخر شروع ہو گیا۔ اس شہر کے متوسط درجے کے کئی سو خاندان سڑکوں پر آگئے۔ ان کی کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری آن واحد میں ملبے کا ڈھیر بن گئی۔
گھر کیا ہوتا ہے، کسی گھر والے سے ہوچھئے۔ زمین کیا ہوتی ہے، کسی کسان سے پوچھئے۔ زمین اور گھر دراصل اللہ کی نعمتیں ہیں۔ ایک کا تعلق رزق سے ہے اور دوسری کا چھت سے ہے۔ یہ نعمتیں چھن جائیں تو دکھ کی کیفیت کسی پیارے کی موت سے بھر بڑھ کر ہوتی ہے۔ نسلہ ٹاور یا کراچی کے چند ایسے ہی منصوبوں کا انہدام اسی درجے کا ہے۔
انسانی پہلو
کراچی کے یہ منصوبے گزشتہ کئی ماہ سے سپریم کورٹ کی نگاہ میں تھے۔ بالآخر وہ فیصلے پر پہنچی اور چیف جسٹس آف پاکستان نے نسلہ ٹاور کو گرانے کا حکم دے دیا۔ یہ ایک قانونی مسئلہ ہے اور عدالت کے حکم کے سامنے کوئی دم نہیں مار سکتا۔ اس کے باجود اس کے کچھ پہلو ضرور اہمیت رکھتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:
چھبیس نومبر: جاگیر داری کی آخری نشانی نواب کالا باغ کی آج برسی ہے
سعید آسی نے اپنی تازہ کتاب میں قوم کے دکھوں کو زبان عطا کردی
پیٹرول پمپ ہڑتال، مہنگائی کے ایک اور بم کی آمد آمد
اول پاکستان کے شہری کا بنیادی حق۔ دوم، قانون کے نفاذ میں حق و انصاف کی پاسداری۔ نسلہ ٹاور کا جب سے مسئلہ شروع ہوا ہے، تھوڑی بہت اس مسئلے پر ضرور بات ہوئی۔ لیکن عوامی حقوق کی علمبردار کوئی قوت اس سلسلے میں میدان میں نہیں اتری۔
حافظ نعیم کی جرات مندی
اس کا انہدام شروع ہونے کے بعد اگر کوئی شخصیت میدان میں اتری ہے تو وہ حافظ نعیم ہیں، جماعت اسلامی کراچی کے امیر۔ حافظ نعیم کے امیر بننے کے بعد کراچی جماعت میں تحرک پیدا ہوا ہے۔ وہ عوامی مسائل کے حل کے لیے بڑی جرات کے ساتھ میدان میں اتری ہے۔ کاش، اس شہر سے ووٹ لے کر اقتدار کے ایوانوں میں آنے والی کسی جماعت کو بھی ایسی توفیق ملتی۔
حافظ نعیم الرحمن جس مرحلے پر متحرک ہوئے، اس پر معروضی اور قانونی پہلوؤں سے بات ہو سکتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جماعت اسلامی اور حافظ نعیم نے بڑی جرات سے کام لیا ہے۔ توقع رکھنی چاہیے کہ جماعت کی آواز انصاف کے ایوانوں میں سنی جائے گی۔ تاکہ شہر کے متوسط کلاس گھرانے تباہی سے بچ سکیں گے۔
قانونی سقم
نسلہ ٹاور کا معاملہ اگرچہ عدالت میں ہونے کی وجہ سے حساس نوعیت رکھتا ہے لیکن سابق اٹارنی جنرل آف پاکستان انور منصور خان نے بتا دیا ہے کہ اس فیصلے کے نفاذ میں کچھ قانونی خلا پائے جاتے ہیں۔
یہ خلا اس حوالے سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں کہ نسلہ ٹاور اور اس جیسے دیگر منصوبوں کے خریداروں کو یہی بتایا گیا تھا کہ ان کی تعمیر میں قانون کے تقاضے مکمل طور پر پورے کیے گئے ہیں۔ اس سلسلے میں انھیں سرکاری دستاویزات بھی فراہم کی گئیں۔ اس کے باوجود یہ منصوبہ غیر قانونی تھا تو اس کی ذمہ داری ان محکموں اور ان کے ذمے داروں پر عاید ہوتی ہے جنھوں نے اجازت نامے جاری کیے۔ قانونی ماہرین کے خیال میں اس فیصلے میں نظر بظاہر اس پہلو کا خیال نہیں رکھا گیا۔
معاملے کا یہی پہلو اس فیصلے پر سوال پیدا کرتا ہے۔ اس لیے عدالت کو چاہیے کہ وہ اس معاملے کو انسانی معاملہ سمجھتے ہوئے اپنے فیصلے پر ازسر نو غور کرے۔ یہ نظر ثانی اس لیے بھی ضروری ہے کہ متاثرین کو ابھی تک وہ معاوضے بھی نہیں مل سکے، عدالت نے جن کی فراہمی کا حکم دیا تھا۔
ایک پیمانہ
نسلہ ٹاور گراتے ہوئے یہ پہلو بھی انصاف کے محافظوں کے پیش نظر رہنا چاہئے کہ انصاف کی دیوی کے پیمانے ملک کے مختلف شہروں میں ایک جیسے ہی رہنے چاہیں۔ ایسا نہ ہو تو اس کے اثرات سائنس کے کسی فارمولے کی طرح نہیں نکلتے۔ سماجی رویوں کی سائنس دو اور دو چار کی طرح نہیں ہوتی۔
کراچی کی سیاست میں ان دنوں کچھ نئی تبدیلیوں کا ذکر معمول سے بڑھ کر ہوا رہا ہے۔ اگر ان میں کچھ حقیقت ہے تو یہ بحران کیا سمت اختیار کرے گا؟ اس کی پیشین گوئی نہیں کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح نہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ پھر کس میں یہ طاقت ہوگی کہ اسے سنبھال سکے۔ اسی بنا پر یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جاتا ہے کہ یہ سب کسی نئے منظر نامے کا پیش منظر تو نہیں؟