ملک بھر میں بیشتر پیٹرول پمپ ہڑتال پر ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ پڑتال کی تپش نے وزیر پیٹرولیم حماد اظہر کو بھی بے چین کیا ہے۔ لہذا انھوں نے تسلیم کیا کہ حکومت کو پیٹرول پمپ مالکان کی مشکلات کا احساس ہے۔ یہ احساس کیا رنگ لائے گا؟ حماد اظہر کے بیان سے اس کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔
حماد اظہر نے بتایا کہ سمری متعلقہ ادارے کو بھیج دی گئی ہے لیکن پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں نو روپے فی لٹر اضافہ نہیں ہو سکتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اضافہ تو ہو گا۔ قیمتوں میں اس اضافے کی حیثیت مہنگائی کے ہاتھوں مجبور عوام کے لیے وہی حیثیت ہوگی جو بوجھ سے لدے ہوئے اونٹ کی کمر پر تنکے کی ہوتی ہے۔ بوجھ کی یہ قسط اس کی کمر توڑ کر رکھ دیتی ہے۔ محاورے کا تنکا تو بوجھ کی آخری قسط ہوسکتا ہے لیکن دیگر اشیائے ضرورت کی طرح پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کی اضافہ تھمتا ہوا دکھائی نہیں دیتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ہڑتال مہنگائی کے نہ تھمنے والے سلسلے کو جنم دینے والی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
ففتھ جنریشن وار اور چور و چوکیدار
حسین نقی کے نام ایک شاگرد کا خط
ثاقب نثار کی گفتگو، بدلے ہوئے موسم کی نشاندہی یا کسی بڑے عارضے کی نشانی؟
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا یہ رجحان پریشان کن ہے۔ دوسری طرف مشیر خزانہ شوکت ترین کا یہ انکشاف تکلیف دہ ہے کہ پیٹرولیم لیوی میں ہر ماہ اضافہ ہو گا۔ اس اضافے کا تعلق حکومت کے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے سے ہے۔ یہ معاہدہ وہ ہے جسے یہ حکومت اپنے کارنامے کے طور پر پیش کرتی ہے۔
ہڑتال یا ایسا ہی کوئی احتجاج عوام کا جمہوری حق ہے۔ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب یہ حق عوام کے خلاف استعمال ہونے لگتا ہے۔ اس کی کئی مثالیں موجودہ دور حکومت میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ پیٹرول پمپوں کی تازہ ہڑتال اس کی ایک تازہ مثال ہے۔
اس طرح کا جمہوری حق عوام کے خلاف اس وقت حربے کی صورت اختیار کر جاتا جب کسی حکومت میں خود عوام کا خون چوسنے والے طبقات جمع ہو چکے ہوں۔ اس کی دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ کوئی حکومت ریڑھ کی ہڈی سے محروم ہو جائے۔ ایسی حکومتوں کی پہچان اپنے فیصلوں پر کھڑے نہ رہنا یا دوسرے الفاظ میں یو ٹرن ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے اس حکومت میں یہ دونوں چیزیں جمع ہیں۔ اس طرح کی صورت حال منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کے لیے خوش خبری اور عوام کے لیے پریشانی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ آج کل پاکستانی قوم اسی کیفیت سے دوچار ہے اور پیٹرول پمپ ہڑتال مہنگائی کے بوجھ سے دبے ہوئے عوام کی کمر پر ایک اور بوجھ لادنے کی تیاری نظر آتی ہے۔ اللہ رحم فرمائے۔