بلوچستان عمران خان کا قلعہ تھا، یہ قلعہ ڈھے گیا۔ کیا جام کمال کے استعفے کو اس انداز میں دیکھا جاسکتا ہے؟
پاکستانی سیاست کا پیٹرن کچھ ایسا ہی ہے۔ کسی بھی سیاسی بندوبست کی عمارت سے جو پہلی اینٹ کھسکتی پے، عام طور پر وہ بلوچستان ہی کی ہوتی ہے۔ اس بار بھی یہی ہوا ہے۔
باخبر سیاسی مبصرین اقتدار کے ایوانوں کے نہاں خانوں سے یہی خبر لائے ہیں کہ اسلام آباد کے حکمران عمران خان نے بھرپور کوشش کی کہ جام کمال کی حکومت کوئٹہ میں برقرار رہے لیکن وہ اپنی کوششوں میں ناکام رہے۔
یہ فطری بات ہے کہ اپنی حکومت کے خاتمے پر جام کمال کی معلومات ان لوگوں سے زیادہ بھرپور ہوں گی اور چوں کہ وہ ایک پڑھے لکھے اور ٹھنڈے مزاج کے سیاست دان ہیں، اس لیے ان کا تجزیہ بھی دیگر لوگوں سے بڑھ کر قابل اعتماد ہو سکتا ہے۔ اس واقعے پر انھوں نے کچھ وفاقی وزیروں کو مورد ٹھہرایا ہے کہ ان کا کردار اس سلسلے میں مثبت نہ تھا۔ اس سے قبل وہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی پر بھی اسی قسم کے الزامات عاید کر چکے تھے۔
بلوچستان کی موجودہ صورت حال کو سمجھنے کے لیے جام کمال کی گفتگو کے یہ دو نکات بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ تجربہ کار سیاسی مبصر حامد میر نے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ جام کمال کی حکومت اگر نہیں بچ سکی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اس معرکے میں غیر جانب دار رہی ہے۔ یہ ایک متوازن تجزیہ ہو سکتا ہے لیکن تجزیے کے تجزیے کی بھی ضرورت ہے۔
ہم ابھی تک نہیں جانتے کہ جام کمال کو کن وفاقی وزرا سے شکوہ ہے لیکن یہ ضرور جانتے ہیں کہ انھیں صادق سنجرانی سے شکایت ہے۔ یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ بلوچستان کے اس معرکے میں یہ تعین کیا جائے کہ صادق سنجرانی کی ہمدردیاں کس طرف تھیں؟ اگر یہ تعین ہو جائے تو پھر یہ جاننا آسان ہو جائے گا کہ مستقبل میں صرف بلوچستان ہی نہیں بلکہ پورے ملک کی سیاست کا دھارا کیا ہو گا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ موجودہ سیاسی سیٹ اپ میں وہ واحد شخصیت ہیں جن کا سیاسی کلہ بہت مضبوط ہے۔
اس حقیقت کی روشنی میں عمران خان کی خواہش کے بالکل برعکس صادق سنجرانی کا سیاسی کردار یہ واضح کرتا ہے کہ آنے والے دنوں میں عمران خان کے لیے اسلام آباد ہاٹ سیٹ بن سکتا ہے۔
بلوچستان حکومت کے خاتمے کے بعد اسلام آباد کی حکومت کو کس قسم کے چیلنج درپیش ہو سکتے ہیں؟ اس سوال کا جواب زیادہ مشکل نہیں۔ ٹی ایل پی مریدکے سے واپس جائے یا وہ اسلام آباد کی طرف بڑھے، ہر دو صورتوں میں اسلام آباد کی حکومت چیلنجوں سے دوچار رہے گی۔ایک مسئلہ نمٹے گا تو کوئی دوسرا کھڑا ہو جائے گا۔ یوں عمران خان کو پہلی بار معلوم ہو گا کہ سیاسی عمل میں تعصبات سے فایدہ اٹھانے کا نقصان کیا ہوتا ہے۔
بلوچستان کی گہما گہمی اور ورلڈ کپ میں بھارت کے خلاف پاکستان کی فتح کی خبروں میں ایک خبر دب گئی، ایم کیو ایم نے بھی وسط مدتی انتخابات کی مشروط حمایت کر دی ہے۔ پاکستانی سیاست کے مزاج شناس جانتے ہیں کہ ہمارے ہاں اس قسم کی سیاسی پیش رفت ہوتی ہے تو اس کا مطلب کیا ہوتا ہے۔