مسئلہ یہ تھا کہ انھیں تقریر کرنی نہیں آتی تھی۔ تقریر نہیں تو پھر سیاست کیسی؟ ممکن ہے کہ اس مسئلے پر وہ خود بھی پریشان ہوا کرتے ہوں اور اس سے نمٹنے کا کوئی حل بھی سوچا کرتے ہوں لیکن چہرے مہرے نے اس پریشانی کی کبھی چغلی نہیں کھائی۔ جب ملتے مسکراتے ہوئے ملتے، اس مسکراہٹ میں ان کے باریک ہونٹ باہم چمٹ کر تھوڑے باہر نکل آتے، یہ کیفیت ان کا ٹریڈ مارک بن چکی تھی۔ ایسی ہی کیفیت میں ایک روز وہ جب خلد آشیانی مولانا حکیم عبد الرحمٰن ہاشمی کے عطیہ کیے ہوئے لکڑی کے بینچ پر بیٹھے تھے، جمشید صاحب جو اس مسئلے پریشان رہا کرتے تھے، اپنی عادت کے مطابق مسکرائے اور کہا:
‘ ایسا کریں چیمہ صاحب، آپ تقریر کو چھوڑیں گفتگو کیا کریں’۔
اتنا کہہ کر وہ ذرا رکے پھر کہا:
‘ نہیں چیمہ صاحب، گفتگو کو بھی چھوڑیے، بس تھوڑی دیر کے لیے بات کر لیا کیجئے’۔
چیمہ صاحب نے یہ مشورہ خاموشی سے سنا، اس دوران ان کے ہونٹوں کی چونچ کچھ مزید نمایاں ہوئی۔ یہ کیفیت معمول سے تھوڑی مختلف تھی، اس بار اس میں مسکراہٹ کے ساتھ غور و فکر کی کیفیت بھی دکھائی دی اور اسی کیفیت میں وہ کچھ بولے۔
چیمہ صاحب اس زمانے میں ہمارے مقابلے میں نسبتاً بھاری تن و توش رکھتے تھے، عمر کچھ زیادہ نہ تھی، ہوگی کوئی چالیس اور پینتالیس کے درمیان لیکن اس کے باوجود وہ مہذب اور وضع دار بزرگوں کی طرح ہمیشہ دھیمے لہجے میں کلام کرتے۔ میں جب انھیں محو گفتگو دیکھتا تو خیال کرتا کہ شاید گفتگو کا زیر لب ہونا اسی کو کہتے ہوں گے۔ خیر انھوں نے زبان کھولی اور اپنی اسی دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ کہا کہ مثلاً؟
‘ مثلاً یہ کہ جب ہم کسی اجتماع میں جائیں تو اپنی بات کچھ ایسے شروع کریں کہ ابھی آتے ہوئے جب میں سڑک سے گلی میں مڑا تو میں نے دیکھا کہ گٹر سے پانی ابل رہا تھا۔۔۔ بس، پھر اس کے بعد چل سو چل’۔
جمشید صاحب نے وضاحت کی۔
‘ ہاں، یہ ٹھیک ہے’۔
چیمہ صاحب نے اطمینان کے ساتھ کہا پھر باتوں کا رخ کسی اور طرف مڑ گیا۔
یہ 1984 کی بات ہے، جنرل ضیا الحق ان دنوں ریفرنڈم کی تیاری کر رہے تھے جب کہ کالعدم سیاسی جماعتیں عام انتخابات کی۔ اس موقع پر مختلف انتخابی امیدوار مختلف حیلوں سے خود کو متعارف کرانے کے جتن کیا کرتے تھے، عین ان ہی دنوں ریڈیو سے ایک خبر نشر ہوئی کہ سرگودھا کی ایک مقبول شخصیت ملک محمد اسلم کچھیلا نے ریفرنڈم کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ خبر اطلاع تھی اس بات کی کہ آئندہ انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کچھیلا صاحب کے سر پر ہاتھ رکھ چکی ہے۔ گویا فیصلہ ہو چکا ہے کہ مارشل لا کے زیر سایہ بننے والی قومی اسمبلی میں سرگودھا کی نمائندگی کس کے حصے میں آنے والی ہے۔ اس انکشاف نے مستقبل میں پڑنے والے رن کی کٹھنائی کچھ اور واضح کر دی اور لوگ سوچنے لگے کہ اب کیا کریں؟
جب سب لوگ اپنی اپنی کہہ چکے تو سانولی رنگت، بولتی مسکراہٹ والے چیمہ صاحب کی مسکراہٹ میں سنجیدگی کی کچھ آمیزش ہوئی اور کہنے لگے کہ اس خبر پر اور جو کوئی بھی پریشان ہوتا ہے، ضرور ہو، ہمارے لیے اس میں پریشانی کی کوئی بات نہیں۔
یہ جاوید اقبال چیمہ تھے۔ چیمہ صاحب کا اشارہ مجلس شہریان کی طرف تھا۔ 1977ء میں مارشل لا کے نفاذ سے 1984ء تک شہر کسی نمائندگی سے محروم رہا تھا۔ اس دوران میں شاید دو بار بلدیاتی انتخابات ہوئے اور میئر وغیرہ نے اقتدار سنبھال کر جو کچھ کر سکتے تھے، وہ سب کیا لیکن باہم سر پھٹول کچھ زیادہ رہی، لہٰذا پنجاب کے دیگر شہروں کے مقابلے میں عام طور پر پیچھے رہ جانے والے سرگودھا میں احساس محرومی معمول سے کچھ بڑھ کر تھا۔ یہی پس منظر تھا جس میں جمشید علی خان اور جاوید اقبال چیمہ نے قبلہ ہاشمی صاحب اور چوہدری محمد سلیم صاحب کی اجازت سے مجلس شہریان کی بنیاد رکھی۔ یوں شہروں میں مسائل پیدا ہوتے ہی رہتے ہیں اور اس کے حل کے لیے تنظیمیں بھی بنتی ہی رہتی ہیں لیکن مجلس شہریان ان میں یوں الگ تھی کہ اسے ایک سنجیدہ جذبے کے ساتھ قائم کیا گیا اور چند ہی ماہ کے دوران میں شہر میں اس کے سو ڈیڑھ سو یونٹ قائم ہو گئے۔ ہر یونٹ میں باقاعدہ اجلاس ہوتے، ہر اجلاس میں چیمہ صاحب، جمشید صاحب اور گاہے چوہدری محمد سلیم صاحب شرکت کرتے۔ علاقے کے مسائل کی شناخت ہوتی۔ یونٹ مسئلے کے حل کی تجاویز سوچتا، ضرورت ہوتی تو حکمت عملی کے سلسلے میں مرکزی قیادت کچھ تجاویز بھی پیش کر دیتی۔ یوں ہوتے ہوتے چھ آٹھ ماہ کے دوران میں شہر میں اچھی خاصی گہما گہمی پیدا ہوگئی۔ یوں شہر پر بھی اس گہما گہمی کے اثرات بڑے واضح تھے لیکن اخبارات میں تسلسل سے شائع ہونے والی سرگرمیوں نے یہ تاثر مزید گہرا کیا۔ ایسا لگتا تھا کہ زمانے سے چین کی نیند سوتا ہوا شہر انگڑائی لے کر اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ اس انگڑائی کے پیچھے سانولے سلونے چیمہ صاحب کی مسکراہٹ دکھائی دیتی اور ہلکے سروں میں کی جانے والی گفتگووں کی بازگشت سنائی دیتی۔
یہ تھے ہمارے چیمہ صاحب اور ان کی سیاست۔ جس زمانے میں چیمہ صاحب سرگودھا کے سیاسی منظر پر نمایاں ہو رہے تھے، شہر پر ابھی ان بزرگوں کاسایہ موجود تھا جنھوں نے یہ ملک بنتے دیکھا تھا اور بانیان پاکستان کی مبارک آنکھیں دیکھ رکھی تھیں۔ بزرگوں کی بھاری بھرکم موجودگی کے دوران ہی نئی نسل کوان کی صفوں میں جگہ ملی شروع ہو چکی تھی۔ ان لوگوں نے طلبہ تنظیموں کے راستے سیاست میں جگہ بنائی تھی لیکن چیمہ صاحب کا راستہ مختلف تھا، سیاست میں ان کی آمد بلدیاتی سیاست کے راستے ہوئی تھی۔ اب یہ محض اتفاق تھا یا چیمہ صاحب کی مشکل پسندی یا حوصلہ مندی کہ انھوں نے اپنے لیے ایک ایسا بلدیاتی حلقہ منتخب کیا جس کی نس نس میں پیپلز پارٹی بلکہ یوں کہہ لیجئے کہ بھٹو صاحب سانس لیتے تھے اور ادھر چیمہ صاحب جماعت اسلامی کی گھٹی لے کر پیدا ہوئے تھے۔
حیرت ہوتی ہے کہ جماعت کی گھٹی والے اس جواں سال چیمے نے پیپلز پارٹی کی جناح کالونی المعروف دھکا کانوں میں کچھ ایسا جادو کیا کہ انتخاب کا نتیجہ آیا تو ایک طرف تنہا اس کے ووٹ تھے اور دوسری طرف باقی گیارہ بارہ امیدواروں کے ووٹ ملا کر بھی اس کے نصف نہیں ہوسکے تھے۔ یہ کرشمہ کیسے ہوا، اتنا تو ہم نے بھی دیکھا تھا کہ چیمہ صاحب جب جناح کالونی کی کسی گلی کی نکڑ پر جا کھڑے ہوتے تو آنکھیں بند کر کے بتا سکتے تھے کہ یہاں کون کون رہتا ہے اور کس کے گھر کے بعد کس کا گھر واقع ہے۔ پھر اتنا ہی نہیں تھا، چیمہ صاحب کہیں جا کر کھڑے ہوتے تو ان سے ہاتھ ملانے والوں کا تانتا بندھ جاتا اور چیمہ صاحب ہر ایک سے اس کی، اس کے اہل خانہ کی خیریت ہوچھتے، گلی محلے کے مسائل کے حل کے سلسلے میں پیش رفت سے آگاہی لیتے اور آگے بڑھ جاتے۔ 1985ء کے غیر جماعتی انتخاب میں جب وہ صوبائی اسمبلی کے امیدوار بنے تو یہی تجربہ انھوں نے بڑے پیمانے پر دہرایا اور اپنے تمام تر مخالفین کو ناک آؤٹ کر دیا۔
چیمہ صاحب نے جمشید صاحب اور ساتھیوں کے ساتھ سرگودھا میں جس وضع کی سیاست کی طرح ڈالی تھی، ان تجربات کے بعد اس سے کچھ آگے کی جدوجہد کا تقاضا کرتی تھی، ایسا ہوا یا نہیں، اس سوال کا جواب تاریخ کے صفحات پر نقش ہو چکا، جو چاہے اسے پڑھے اور اس سے بہت کچھ سیکھ لے۔