جسارت کا سٹی روم ایک طرح سے ہائیڈ پارک تھا، آپ جسارت سے وابستہ ہیں یا نہیں، آپ وہاں جا سکتے تھے، گپ لگا سکتے تھے، کسی پیچیدہ خبر کی نوک پلک سنوار سکتے تھے اور ہر وقت دست یاب نذیر خان صاحب کی راہ نمائی سے مستفید بھی ہو سکتے تھے۔
ہماری نسل نے کوچہ صحافت میں قدم رکھا تو خان صاحب اس زمانے تک اپنے کیریئر کا بہترین زمانہ گزار چکے تھے اور اب وہ بونس سے لطف اندوز ہو رہے تھے، معہ احترام کے۔
ایک زمانہ تھا جب طارق ابوالحسن، مسعود انور, محمد انور اور زبیر ابراہیم جیسے دوستوں سے ملنے کے لیے میں تقریباً روزانہ جسارت جایا کرتا۔ خان صاحب ان دنوں اس اخبار کے چیف رپورٹر تھے لیکن خبر یہ تھی کہ جماعت اسلامی کے ترجمان اخبار سے وابستگی کے باوجود ان کے بہت قریبی تعلقات پیپلز پارٹی والوں کے ساتھ ہیں، ہمارے زمانے میں یہ تعلق بزرگوں سے سفر کرتا ہوا محترمہ بے نظیر بھٹو تک منتقل ہو چکا تھا۔
اس زمانے میں ہم سوچا کرتے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ نوے درجے کے زاویے پر نکتہ اختلاف پر کھڑی جماعت اسلامی کے اخبار کے چیف رپورٹر کے پیپلز پارٹی جیسی جماعت کی انتہائی اعلیٰ درجے کی قیادت سے اتنے قریبی تعلقات ہوں۔ بعد کے برسوں میں جب خاں صاحب کے قریب بیٹھنے کا حوصلہ ہوا اور ان کے ساتھ ذرا بے تکلفی بات کرنے کی ہمت بھی پیدا ہو گئی تو معلوم ہوا کہ اس کی بھی ایک گیدڑ سنگھی ہے اور وہ گیدڑ سنگھی یہ ہے کہ اخبار کا عقیدہ جو بھی ہو رپورٹر ہمیشہ رپورٹر رہے، خبر کو خبر سمجھے اور اس کا قلم اس کے عقیدے اور رائے کے تابع کبھی نہ ہو۔ پچاس ساٹھ برس کے صحافتی تجربے کی روشنی میں یہ راز جس خوبی کے ساتھ خان صاحب نے سیکھا، شاید ہی کسی نے سیکھا ہو۔ بے نظیر بھٹو جیسی سیاسی راہ نما اگر ان پر آنکھ بند کر کے اعتماد کر سکتی تھیں یا بے تکلفی کے ساتھ ان کے ساتھ مزاحیہ جملوں کا تبادلہ کر سکتی تھیں، اس سے خان صاحب کی صحافتی دیانت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
صحافت خان صاحب کی پہلی محبت تھی یا سیاست، ممکن ہے کہ کبھی انھوں نے اس سوال کا جواب دیا ہو لیکن سچی بات یہ ہے کہ مجھے اس کا بالکل اندازہ نہیں لیکن مجھے معلوم ہے کہ وہ پاکستانی سیاست کے ایک اہم واقعے کے ایک جیتے جاگتے کردار تھے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیسے حالات تھے جن میں جماعت اسلامی انتخابی سیاست کی طرف متوجہ ہوئی۔
اس واقعے کے راوی وہ خود تھے۔ سال تو میرے ذہن میں نہیں، ممکن ہے کہ یہ پچاس کی دہائی کے اواخر یاساٹھ کی دہائی کے اوائل کی بات ہو جب کراچی میں بلدیاتی انتخابات ہوئے۔ ان انتخابات میں جماعت اسلامی نے اپنے انیس امیدوار کھڑے کیے جن میں سے سترہ کام یاب ہوئے، ان میں ایک خان صاحب بھی تھے۔
وہ جماعت اسلامی کے پرانے زمانے تھے جب یہ جماعت خود سے وابستہ کسی شخص کو یہ اجازت نہیں دیتی تھی کہ وہ کسی منصب کے لیے خود کو امیدوار کے طور پر پیش کرے، ایسی کوئی بھی کوشش اس ‘جرم’ کے مرتکب کو ہمیشہ کے لیے نااہل قرار دلا سکتی تھی۔ صرف یہ نہیں تھا کہ کوئی شخص جماعت سے عہدے کا طالب نہیں ہو سکتا تھا بلکہ یہ بھی تھا اگر جماعت ہی اسے امیدوار بنا دے تو بھی وہ رائے دہندگان سے ووٹ مانگنے کا حق نہیں رکھتا تھا۔
جب جماعت اسلامی نے انیس امیدوار میدان میں اتار دیے تو مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ ان امیدواروں کی انتخابی مہم کیسے چلائی جائے؟ اس مسئلے کا حل ایک دلچسپ حل نکالا گیاجس کے تحت لاہور سے جماعت اسلامی کی تقریباً ساری ہی مرکزی قیادت کراچی آن پہنچی اور ان لوگوں نے کراچی کے گلی کوچوں چل پھر کر اور ایک ایک گھر کا دروازہ کھٹکٹھا کر اپنے امیدواروں کے لیے ووٹ مانگے۔
‘ تم جانتے ہو فاروق!’ ۔
ایک روز پریس کلب میں جب وہ بڑے خوش گوار موڈ میں تھے، چائے کی چسکی لیتے ہوئے مجھے مخاطب کیا اور کہا، میں ایک خوش قسمت انسان ہوں۔
‘ وہ تو ہیں خان صاحب، مگر آپ کا اشارہ کس طرف ہے؟’۔
خان صاحب پھر مسکرائے اور کہا کہ جب ہمیں انتخابی میدان میں اتارا گیا تو میری انتخابی مہم چلانے کے لیے لاہور سے نعیم صدیقی صاحب آئے تھے۔
خانصاحب نے اس روز اپنی خوش قسمتی کا اعلان کیا تو اس کے ساتھ خود بخود یہ بھی معلوم ہو گیا کہ کسی زمانے میں کراچی ایسا بھی تھا جب لاہور سے آکر لوگ انتخابی مہم چلاتے اور جن لوگوں کے یہ مہم چلائی جاتی، وہ جیت بھی جاتے۔
‘ یہ شہر نسلی اور لسانی تعصبات سے کبھی اتنا بھی آزاد تھا؟’۔
میں نے بے یقینی کے ساتھ سوال کیا تو خان صاحب کہنے لگے کہ اب بھی ہے مگر وہ جو آسیب کے سائے اس شہر پر پڑ گئے ہیں، ان سے ذرا بچنے کی ضرورت ہے۔
تو واقعہ یہ ہے کہ خان صاحب کراچی(اور پاکستان کی بھی ) کی سیاست اور صحافت کے ایک جیتے جاگتے کردار اور بے شمار رازوں کے امین تھے۔ ان رازوں میں ایک راز یہ بھی تھا کہ جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے سیاست شروع کرنے والے اس شخص پر ایک وقت ایسا بھی آیا جب اس نے جماعت سے علیحدگی اختیار کی، ایسا کیوں ہوا؟ممکن ہے کہ اس کاسبب انھوں نے کبھی بتایا ہو لیکن شاید وہ اتنا اہم نہیں ہو گا کہ ذہن میں رہ جاتا۔ خان صاحب پریس کلب کی زندگی سے بھرپور گفتگووں کی جان تھے اور ہنستے ہنستے اچانک کہیں غائب ہو جاتے تھے۔ ان کی رخصت کی خبر آئی ہے تو بھی یہی محسوس ہوتا ہے، لگتا ہے کہ جس خاموشی سے اٹھ کر گئے، اسی خاموشی سے لوٹیں گے اور فلک شگاف قہقہہ لگا کر اپنی واپسی کی اطلاع کریں گے۔